دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے لیے ریسرچ سینٹر

قانونی مسودے کے مطابق اس سینٹر کے قیام سے ایف اے ٹی ایف کی جانب سے دی گئی تجاویز کو بہتر طریقے سے جانچ کے ان پر عمل درآمد یقینی بنایا جا سکتا ہے نیز یہ سینٹر دہشت گردوں کی مالی معاونت کی بنیادی وجوہات جان کر ان کے تدارک کے لیے تجاویز بھی دے گا۔

(فوٹو فائل: اے ایف پی)

پاکستان میں دہشت گردوں کی مالی معاونت، خیرات میں دی گئی رقوم کے غلط استعمال، سائنسی اور تحقیقی کام کے ذریعے دہشت گردی کے سدباب کے لیے خیبر پختونخوا حکومت نے 'سینٹرآف ایکسیلینس فار کاونٹرنگ ایکسٹریم ازم اینڈ ٹیرر فنانسنگ ' کے نام سے ایک تحقیقی سینٹر بنانے کے لیے قانونی مسودہ تیار کیا ہے۔

یہ سینٹر صوبائی محکمہ اعلیٰ تعلیم کے تحت کام کرے گا۔ سینٹر کے قیام کے لیے قانونی مسودے (جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے) میں لکھا گیا ہے کہ اس سینٹر کی ضرورت اس لیے پیش آئی کیونکہ ملک  میں امن  قائم کرنے کے لیے سائنسی بنیادوں پر کام کرنا ضروری ہے اور دہشت گردی، دہشت گردوں کی مالی معاونت سمیت شدت پسندی کی طرف راغب ہونے کی وجوہات پر یہ سنٹر کام کر سکے گا۔

بین الاقوامی ادارہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس(ایف اے ٹی ایف) دنیا بھر میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والے ممالک  پر نظر رکھتا ہے۔

ایف اے ٹی ایف کی لسٹ میں پاکستان کا نام دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والوں  کی لسٹ میں شامل ہے۔ اس ادارے کی جانب سے  پاکستان کو کچھ تجاویز دی گئیں جن پر عمل پیرا ہونے کے بعد ہی اس لسٹ سے نکلا جا سکتا ہے۔

قانونی مسودے میں یہ  لکھا گیا ہے کہ  سینٹر کے قیام سے ایک فائدہ یہ ہوسکتا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی جانب سے دی گئی تجاویز کو بہتر طریقے سے سائنسی بنیادوں پر جانچا جائے اور اس پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے نیز یہ سینٹر دہشت گردوں کی مالی معاونت کی بنیادی وجوہات سائنسی تحقیقی عمل سے جان سکے اور پھر ان وجوہات کو ختم کرنے کے لیے حکومت کو تجاویز دی جائیں۔

سینٹر بنانے کی ایک وجہ مسودے کے مطابق یہ ہے کہ معاشرے کو پر تشدد انتہا پسندی سے بچانا ضروری ہے اور اس کے لیے صرف سیکورٹی ماحول کو بہتر بنانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ انتہا پسند سوچ کو مستقل طور پر ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ سینٹر قیام کے بعد ان مسائل کا حل تلاش کریں گے  جن سے معاشروں کی ترقی کے لیے پائیدار ترقیاتی  گولز (ایس ڈی جیز 2030) کا حصول ممکن ہو اور تشدد زدہ سوچ کو ختم کیا جا سکے۔

اس سیںٹر کی ذمہ داریوں میں قومی اور بین الاقوامی سطح پر انسداد دہشت گردی اور ٹیررازم فناسنگ کے حوالے سے لکھے گئے مقالے زیر نظر رکھنا اور ان کی بنیاد پر سفارشات مرتب کرنا بھی شامل ہو گا۔

مسودے کے مطابق سینٹر کے اقدامات کی میڈیا پر عام تشہیر کی جائے گی تاکہ ان پیغامات سے معاشرے میں برداشت کی فضا کو پروان چڑھایا جا سکے۔

اس سینٹر کا ایک بنیادی کام یہ بھی ہوگا کہ سائنسی طریقے سے اس امر کو پرکھے کہ مذہبی جنونیت کے علاوہ ایسے کیا عوامل ہیں جن کی وجہ سے لوگ متشدد کاروائیوں کی طرف راغب ہوتے ہیں۔

یہ سینٹر کہا  اور کیسے قائم ہو گا؟

سینٹر قائم کرنے کے لیے قانونی مسودہ پاس ہونے کے بعد اسی  متجوزہ قانون کے تحت محکمہ اعلٰی تعلیم کے ماتحت پشاور میں  ایک سینٹر قائم کیا جائے گا جس کا نام 'سینٹر آف ایکسیلنس فار کاؤنٹرنگ ایکسٹریم ازم اینڈ ٹیررزم فنانسگ' ہوگا۔

قانون پاس ہونے کے بعد اس سینٹر کو چلانے کے لیے چار ماہرین پر مشتمل ٹیم خیبر پختونخوا پبلک سروس کیشن کے تحت بھرتی کی جائے گی اور بھرتی کا یہ عمل قانون کے پاس ہونے کے تین مہینوں میں مکمل کیا جائے گا۔

ماہرین میں ایک 21 گریڈ کے آفیسر چیف کوآرڈینیٹر ہوں گے ان کی تعلیمی قابلیت سوشل سائنسز یا مینیجمنٹ  سائنسز یا وکالت  میں پی ایچ ڈی کی ڈگری ہو گی نیز ان کے لیے گریڈ 20 میں کسی تحقیقی ادارے کا تجربہ بھی درکار ہوگا۔

اسی طرح دیگر ٹیم میں 20 گریڈ کے ایک کوآرڈینیٹر، 19 گریڈ کے ڈپٹی کوآرڈینیٹر ، اور 18 گریڈ کے ایک اسسٹنٹ کوآرڈینیٹر کو بھرتی کیا جائے گا۔

تمام عہدوں کے لیے تحقیق کی دنیا میں تجربہ ضروری ہے جب کہ ٹیرر فنانسنگ کے حوالے سے تجربہ بھی درکار ہوگا۔

سینٹر کا ایک پالیسی بورڈ بھی قائم کیا جائے گا جس کی سربراہی وزیر اعلٰی خیبر پختونخوا کریں گے جب کہ دیگر ممبران میں محکمہ اعلیٰ تعلیم کے وزیر، سیکرٹری ہائر ایجوکیشن، سپیشل سیکرٹری ہائر ایجوکیشن، سنٹر کے چیف کوآرڈینیٹر، پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر، صوبائی محکمہ داخلہ کا نمائندہ جو 18 گریڈ سے کم نہ ہو اور انسداد دہشت گردی کے شعبے سے ایک نمائندہ شامل ہوگا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خیبر پختونخوا کے معاون اطلاعات و اعلٰی  تعلیم کامران خان بنگش نے بتایا   کہ اس سینٹر کے قیام کی ضرورت اب اس لیے محسوس ہوئی کہ ہم مجموعی طور پر اگر دیکھیں تو معاشرہ انتہا پسندی کی طرف جا رہا ہے۔

کامران خان بنگش کا کہنا تھا کہ اس طرح کی پر تشدد سوچ جس میں ایک نظریہ رکھنے والے دوسرے کو قبول نہیں کرتے، کا مقابلہ کرنے کے لیے  یہ ادارہ قائم ہوگا اور انتہا پسند سوچ کو ختم کرنے کے لیے حل نکالا جائے گا۔

کامران نے بتایا 'ایف اے ٹی ایف کا بھی ایک عنصر اس میں شامل ہے تاہم ہم چاہتے ہیں کہ یہ ادارہ مختلف انتہا پسند سوچ کا احاطہ کرے  اور ہمارے معاشرے کا ایک اچھا امیج دنیا کو جائے۔ فی الوقت اگر ہم دیکھیں تو میڈیا سمیت پوری دنیا میں ہمارا امیج انتہا پسندوں کے طور پر جاتا ہے اور اسی سوچ کو ختم کرنے کے لیے یہ سنٹر قائم کیا جا رہا ہے۔'

کاشف ارشاد محکمہ تعلیم میں سی پیک یونٹ کے انچارج اور  امن سازی کی فیلڈ میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس سینٹر کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ اگر ہم دیکھیں تو ایک سیاسی جماعت دوسری سیاسی جماعت کے ساتھ اختلاف میں اس حد تک جاتی ہے کہ وہ تشدد پر اتر آتے ہیں۔

'پر امن معاشرہ وہ ہوتا ہے جہاں اختلاف رائے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے تاہم ہمارے معاشرے میں اختلاف رائے کو قدر نہیں بلکہ دشمنی سمجھا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس سوچ کو ختم کرنے کے لیے ایک مستقل حل کی ضرورت ہے۔'

ارشاد کے مطابق یہ سنٹر انتہا پسند سوچ کے مختلف پہلوؤں کا بغور جائزہ لے گا کیونکہ ہمارے معاشرے میں انتہا پسندی کو صرف مذہبی گروہوں یا مدارس کے طلبا کے ساتھ جوڑا گیا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ ہمارے مشاہدے میں یہ بات بھی آئی ہے کہ مدارس کے طلبا سے سائنسی علوم کی درسگاہوں کے طلبا زیاہ انتہا پسند ہوتے ہے۔

ارشاد کے مطابق ایک پرامن اور عدم تشدد والا معاشرہ اس سینٹر کے قیام کی بنیادی وجہ ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان