نطنز ایٹمی پلانٹ پانچ مرتبہ سبوتاژ حملوں کا نشانہ بنا: ایران

ایرانی پارلیمنٹ کے انرجی کمیشن کے سربراہ فریدون عباسی نے کہا ہے کہ نطنز میں 12 اپریل کی صبح ہونے والے دھماکوں کا طریقہ اگرچہ نیا تھا لیکن یہ ایران کی اس اہم ترین جوہری تنصیب کو بڑے پیمانے پر سبوتاژ کرنے کی کوشش کا تسلسل تھا۔

(اے ایف پی)

ایرانی پارلیمنٹ کے انرجی کمیشن کے سربراہ فریدون عباسی نے کہا ہے کہ نطنز میں 12 اپریل کی صبح ہونے والے دھماکوں کا طریقہ اگرچہ نیا تھا لیکن یہ ایران کی اس اہم ترین جوہری تنصیب کو بڑے پیمانے پر سبوتاژ کرنے کی کوشش کا تسلسل تھا۔

جوہری توانائی تنظیم کے سابق سربراہ کے مطابق رواں سال اپریل میں ہونے والا دھماکہ اس حساس تنصیب پر سبوتاژ کا ایسا پانچواں واقعہ تھا۔

نطنز ایران کا سب سے بڑا جوہری پلانٹ اور یورینیم کی افزودگی کا مرکز ہے۔  قم میں واقع یہ تنصیب اور فردو میں ایک اور پلانٹ ایران کے جوہری پروگرام کے آغاز سے ہی اہم ترین حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ فردو پلانٹ زیر زمین ایک چھوٹی سی جگہ ہے جو دیگر تنصیبات کے ناکام ہونے کی صورت میں ایران کے افزودگی پروگرام کے بیک اپ کا کام کرتی ہے۔

فریدون عباسی نے انقلابی گارڈز سے وابستہ ’فارس نیوز ایجنسی‘ کے ساتھ ایک ویڈیو انٹرویو میں کہا کہ نطنز میں ہونے والی سبوتاژ کارروائیوں میں سے ایک میں سنٹری فیوجز کے ویکیوم چیمبرز میں بہت ہی چھوٹے (دال کے سائز کا) دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا تھا جس سے ان تنصیبات کو نقصان پہنچایا گیا تھا۔

تاہم انہوں نے اس واقعے سے ہونے والے نقصان کی تفصیل نہیں بتائی۔ ایران میں کسی بھی عہدیدار نے اس سے قبل اس واقعے کے بارے میں معلومات جاری نہیں کی تھیں۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پانچ بڑی سبوتاژ کارروائیوں کے علاوہ ان تنصیبات پر چھوٹے پیمانے پر بھی حملے کیے جا چکے ہیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے عہدیداروں نے ان حملوں کا ذمہ دار اسرائیل کو قرار دیا ہے۔ ابھی تک اسرائیل کے کسی عہدیدار نے ان واقعات کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فریدون عباسی نے بتایا کہ 1990 سے پہلے نطنز پلانٹ کے پاور ٹاورز  کو چوتھے بڑے سبوتاژ حملے میں نشانہ بنایا گیا تھا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اس واقعے میں ٹاور گرے اور نہ بجلی کی سپلائی معطل ہوئی تھی۔

پانچویں بڑے سبوتاژ حملے کا عباسی نے ذکر نہیں کیا شاید اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس حملے میں نطنز کے کمپیوٹرز اور مشینوں کو سافت وئیر وائرس سے وسیع پیمانے پر نشانہ بنایا گیا تھا۔

نطنز میں اپریل میں ہونے والا دھماکے کا واقعہ، جو فریدون عباسی اور ایران کے دیگر عہدیداروں کے مطابق یہاں کے پاور ڈسٹریبوشن حصے میں ہوا تھا، سینٹرفیوج اسمبلی کے نئے مرکز میں ہونے والے پہلے دھماکے اور اس کے بعد ایران کے سب سے اہم ایٹمی سائنس دان محسن فخری زادے کے قتل کے محض 10 ماہ بعد پیش آیا تھا۔

اس تنصیب میں ہونے دھماکے کے بارے میں فریدون عباسی نے یہ بھی کہا کہ بیرون ملک سے خریدی جانے والی ہیوی ڈیسک کے اندر بھی ایک ٹائم بم نصب کیا گیا تھا۔

ایران نے اسمبلی پلانٹ میں دھماکے کے بعد اعلان کیا تھا کہ وہ جوہری پروگرام کو مزید تحفظ فراہم کرنے کے لیے اپنی تنصیبات میں اضافہ کرے گا۔ نطنز میں نئی تعمیر کی متعدد اطلاعات میڈیا تک پہنچی ہیں  ممکنہ طور پر جدید ترین سینٹرفیوج اور ان کی اسمبلی کے استعمال کے لیے ایک نیا مرکز قائم کیا جا رہا ہے۔

عباسی کا انٹرویو میں مزید کہنا ہے کہ نطنز میں اپریل میں ہونے والا دھماکے کی گہری منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ اس سے قبل انہوں نے کہا تھا کہ نطنز میں ہونے والا دھماکہ بہت مہارت سے کیا گیا ہے۔ دھماکے کی تکنیک کی تعریف میں دیئے گئے ان کے اس بیان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

بعد میں انہوں نے حفاظتی اقدامات میں غفلت برتنے کو حملے کی وجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہاں مزید سخت حفاظتی اقدامات کیے جانے چاہئیں اور یہاں تک کہ اراکین پارلیمنٹ کو بھی ان حساس مراکز کا دورہ کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

نطنز میں اپریل کے دھماکے کے دو ہفتوں بعد ایرانی وزارت اطلاعات نے اعلان کیا تھا کہ رضا کریمی نامی شخص دھماکے کا مرتکب تھا جو اس کارروائی کے بعد ملک سے فرار ہوگیا تھا۔

ابھی یہ واضح نہیں ہوا ہے کہ رضا کریمی کا ایران کے جوہری پروگرام میں کیا کردار تھا اور اب وہ کہاں ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا