نطنز پلانٹ دھماکہ: ایران کا 'تخریب کاروں' کی شناخت کا دعویٰ

ایرن کے ایٹمی توانائی ادارے کے ترجمان کا کہنا ہے کہ 'نطنز واقعے میں تخریب کاری کرنے والے ایجنٹوں کی شناخت سکیورٹی فورسز نے کر لی ہے' تاہم انہوں ںے مزید تفصیلات دینے سے گریز کیا۔

دو جولائی کوایران کے ادارہ برائے  ایٹمی توانائی  کی جانب سے جاری کردہ تصویر  ۔(اے ایف پی)

ایرن کے علاقے اصفہان میں نطنز جوہری پلانٹ میں ہونے والے دھماکے کو دو ماہ سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے کے ترجمان نے اتوار کو اعلان کیا کہ 'نطنز واقعے میں تخریب کاری کرنے والے ایجنٹوں کی شناخت سکیورٹی فورسز نے کر لی ہے۔'

تاہم ایک بار پھر مزید تفصیلات دینے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ 'اس معاملے کی مزید چھان بین کی جارہی ہے۔'

تین جولائی کی صبح احمدی روشن نیوکلیر کمپلیکس (نطنز) میں ایک حادثہ پیش آیا جس میں جدید سینٹریفیوجز کی تیاری سے متعلقہ حصے کی چھت کو نقصان پہنچا۔

ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے کے ترجمان بہروز کمالوندی نے نطنز واقعے کے بارے میں ایک ٹیلی ویژن انٹرویو کے دوران کہا: 'اب تک ایران کامیاب رہا ہے۔ ہم نے کئی سائبر حملے بھگتائے اور انہیں ناکام بنا دیا۔'

انہوں نے ایران میں ہونے والے حالیہ حملوں کی ایک بڑی تعداد کا ذکر کرتے ہوئے کہا: 'ہمارے پاس اپنے علاقوں اور صنعتوں پر حملوں سے متعلق کئی ثبوت موجود ہیں۔'

گوجیر فوجی اڈے کے میزائل پروڈکشن سیکشن میں ہونے والے دھماکے کے علاوہ شیراز میں بجلی فراہمی کی لائن میں دھماکوں اور آگ جیسے سلسلہ وار واقعات کے بعد  ایران میں فوجی تنصیبات اور شہری انفراسٹرکچر پر سائبر حملے کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔

بارہ برس قبل سٹکس-نیٹ نامی ایک پیچیدہ وائرس نے نطنز جوہری تنصیبات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا تھا۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا سائبر تخریبی آپریشن تھا (اگرچہ ایران نے کبھی اس سے ہونے والے نقصان کا اعتراف نہیں کیا۔ اس وائرس کی تیاری کے حوالے سے مبینہ طور پہ اسرائیل اور امریکہ کا نام لیا گیا لیکن حتمی تیارکنندہ کی حیثیت سے کسی کی شناخت نہیں کی گئی۔)

مزید برآں چند روز قبل ایرانی ویب سائٹس پر نطنز تخریب کاری کے حوالے سے ایک مقامی کانٹریکٹر کا نام زیر بحث آیا تھا جو پلانٹ پر مختلف سامان مہیا کرنے کا ذمہ دار تھا۔

سٹکس-نیٹ واقعے اور مقامی کانٹریکٹر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حالیہ تخریب کاری میں سہولت کار کوئی بھی ہو سکتا ہے۔

بہروز کمالوندی نے مزید کہا: 'بدقسمتی سے نطنز کے واقعے میں تخریب کاری کا پہلو زیادہ دکھائی دیتا ہے اور اس واقعے پر بہتر تبصرہ ہماری سیکیورٹی ایجنسی کر سکتی ہے۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا: 'جہاں تک ہم جانتے ہیں، ایجنسیوں نے واقعہ کے ذمہ داروں کا سراغ لگا لیا ہے اور وہ اس تخریب کاری کی وجوہات اور اس کے لیے استعمال ہونے والے طریقے سے بخوبی واقف ہیں۔ مجھے صحیح تفصیلات کا علم نہیں ہے لیکن ہمیں بتایا گیا ہے کہ اس معاملے کی تفتیش جاری ہے لہذا میں اس بارے میں مزید بات کرنے سے معذرت کر رہا ہوں۔'

گذشتہ ماہ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے نطنز واقعے کے بارے میں ایک بیان میں کہا تھا: 'ہم ایک سرکاری رپورٹ کے منتظر ہیں اور تاحال وہ موصول نہیں ہوئی ہے۔ اگر اس رپورٹ میں غیر ملکی ہاتھ ملوث ہونے کی تصدیق ہوجاتی ہے تو ہی ہم کوئی مناسب جواب دے سکیں گے۔'

یاد رہے کہ نطنز دھماکے کے پہلے دن بہروز کمالوندی نے بیان دیا تھا کہ اس دھماکے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا اور اس سے ایٹمی کمپلیکس کی سرگرمیوں کو بھی کوئی نقصان نہیں پہنچا۔

تاہم انہوں نے ستمبر کے شروع میں پہلی بار تصدیق کی کہ نطنز کا واقعہ 'تخریب کاری' تھا۔ تب ہی انہوں نے پہلی بار تسلیم کیا تھا کہ اس واقعے سے ہونے والا نقصان 'نمایاں' تھا۔

ایران کے صوبے اصفہان کے شمال میں واقع نطنز جوہری بجلی گھر ایران میں یورینیم کی افزودگی کے لیے ایک اہم مقام ہے  جو ایران اور مغربی ممالک کے درمیان ایٹمی مذاکرات میں بات چیت کے دوران آئی اے ای اے کے معائنے کے حوالے سے متنازع بھی رہا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا