سی آئی اے جعلی مہم : ویکسین نہ لگوانے والوں میں 20 فیصد اضافہ

اس ساری تحقیق کے لیے محققین مونیکا براؤ اور  انڈریس سٹیگمن نے 2008 سے لے کر 2013 تک ویکسین سے جڑے مختلف مسائل کے حوالے سے ڈیٹا استعمال کیا ہے۔

لاہور میں ویکسی نیشن مہم کے دوران ایک بچی کو دوا دی جا رہی ہے (اے ایف پی فائل فوٹو)

برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی  نے ایک تازہ شائع ہونے والے مقالے میں بتایا ہے کہ امریکی ادارے سی ائی اے کی القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کو تلاش کرنے کے لیے پاکستان میں جعلی ویکسین مہم کا سہارہ لینے کی وجہ سے ملک میں ویکسین لگانے کی شرح میں20 فیصد تک کمی دیکھی گئی ہے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کے جرنل آف دی یورپین اکنامک ایسوسی ایشن میں 11 مئی کو شائع ہونے والے اس مقالے کا مقصد پاکستان میں سی آئی اے کی جانب سےاسامہ بن لادن کی تلاش کے لیے کیے گئے جعلی ویکسین مہم  کے اثرات کا جائزہ لینا تھا۔

اس ساری تحقیق کے لیے محققین مونیکا براؤ اور  انڈریس سٹیگمن نے 2008 سے لے کر 2013 تک ویکسین سے جڑے مختلف مسائل کے حوالے سے ڈیٹا استعمال کیا ہے۔ انڈپینڈنٹ اردو نے اس ڈیٹا کا تجزیہ کیا ہے تاکہ وہ مقالے کے اعداد و شمار آسان الفاظ میں قارئین تک پہنچائے جا سکیں۔

مقالے کے مطابق اس تحقیق میں پاکستان  بیورو آف سٹیٹسٹکس کے اعداد و شمار بھی استعمال کیے گئے جب کہ محقیقین نے پاکستان کے چاروں صوبوں کے 115 اضلاع  میں مختلف ذرائع سے ڈیٹا اکھٹا کیا ہے جو تقریبا پاکستان کی 97 فیصد آبادی بنتی ہے۔ مقالے کے مطابق اس تحقیق کے لیے 2010 سے لے کر 2012 تک 18 ہزار سے زائد بچوں کی ویکسینینشن سٹیٹس کو چیک کیا گیا ہے تاکہ اس کا موازنہ کیا جا سکے۔

محقیقن نے اس تحقیق کے کے لیے پاکستان میں مذہبی جماعتوں کو ووٹ دینے کے رجحان کو  بھی دیکھا ہے۔ مقالے کے  مطابق جن اضلاع میں مذہبی جماعتوں کا ووٹ بینک زیادہ ہے وہاں پر 39 فیصد جبکہ جہاں مذہبی جماعتوں کا ووٹ بینک نسبتاً کم ہے وہاں پر 23 فیصد تک ویکسین لگانے کی شرح میں کمی دیکھی گئی ہے۔

محقیقین نے تجزیہ میں لکھا ہے کہ یہ اعداو د شمار واضح کرتے ہیں کہ سی آئی اے نے جعلی ویکسین مہم چلائی تھی اور اسی مہم کے خبریں مذہبی جماعتوں کے زیادہ حمایت والے علاقوں کے لوگوں پر زیادہ اثر انداز ہوئی جہاں ویکسین لگانے کی شرح میں بھی کمی دیکھنے کی ملتی ہے۔

مقالے کے اعدادو شمار کے مطابق جعلی ویکسین مہم کی وجہ سے جن اضلاع کو ڈیٹا میں شامل کیا گیا وہاں پر پولیس ویکسین لگانے کی شرح میں چھ فیصد تک، جبکہ چھ فیصد تک باقی ویکسین جیسے کے خسرہ وغیرہ کی شرح میں کمی دیکھی گئی ہے۔ اس تحقیق میں بچوں کو تین گروپوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک وہ گروپ جو اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے تین مہینے پہلے، دوسرا گروپ ان بچوں کی ہے جو اسامہ کے ہلاکت کے تین مہینے بعد اور باقی ہلاکت کے تین سے نو ماہ تک پیدا ہونے والے بچوں کا ہے۔

یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ جو بچے اسامہ کی ہلاکت کی تین مہینوں  بعد پیدا ہوئے تھے ان کے والدین اسامہ کی ہلاکت کا جعلی ویکسین کے ساتھ تعلق سے بخوبی واقف تھے اور مقالے کے مطابق گمان یہی ہے کہ ان بچوں میں 23 فیصد نے ویکسین نہیں لگوائی۔

چونکہ ویکسین لگانے کی شرح میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے مقالے کے مطابق اسی صورت حال کی وجہ سے پولیو کیسز میں اضافہ بھی دیکھنے کو ملا ہے۔ مقالے کے اعداد و شمار کے مطابق جن اضلاع میں مذہبی جماعتوں کی حمایت زیادہ ہے، وہاں پر پولیو کیسز میں تقریبا دو فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔

مقالے میں لکھا گیا ہے کہ ’یہ اعداد و شمار بتاتے ہے کہ  سی آئی اے کی جعلی ویکسین مہم سے ویکسین کی افادیت کے حوالے سے لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات نے جنم لیا ہے جس کی وجہ سے ویکسین سے انکاری لوگوں میں اضافہ ہوا ہے۔'

طبی ماہرین پر اعتماد کی کمی

ویکسین لگانے سے انکار سمیت مقالے کے مطابق پاکستان میں طبی ماہرین سے علاج کرانے کے رجحان میں بھی اس جعلی ویکسین کے بعد کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ مقاملے میں واضح طور پر یہ تو نہیں کہا گیا ہے کہ طبی ماہرین ہر اعتماد نہ کرنے کی واحد وجہ اسامہ بن لادن کے لیے کی گئی جعلی ویکسین مہم تھی تاہم مقالے میں یہ ضرور بتایا گیا ہے کہ اعتماد کم ہونے کی ایک وجہ یہ جعلی ویکسین مہم بھی ہے۔

جعلی ویکسین مہم

القائدہ کے بانی سربراہ اسامہ بن لادن پاکستان کو شہر ایبٹ آباد میں 2011 میں رات گئے ایک آپریشن میں ہلاک کیا گیا۔ امریکہ ہیلی کاپٹرز ایبٹ آباد کی فضاؤں میں داخل ہوگئے تھے اور اسامہ بن لاد ن کے کمپاؤنڈ میں گھس کر وہیں ان کو ہلاک کیا تھا۔ آپریشن کے دوران ایک امریکی ہیلی کاپٹر کمپاؤنڈ کے اندر کریش بھی کر گیا تھا۔

اسامہ بن لادن کی تلاش کے حوالے امریکہ نے اس بات کا اقرار کیا تھا کہ انہوں امریکہ کو انتہائی مطلوب 'شدت پسند ' کو ڈھونڈنے کے لیے جعلی ویکسین کا سہارا لیا تھا اور اس مقصد کے لیے پاکستان کے قبائلی ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو مبینہ طور پر استعمال کیا تھا۔

ڈاکٹر شکیل آفریدی اس وقت پاکستانی جیل میں 33 سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں تاہم ان کو جیل اس وجہ سے نہیں کہ انہوں نے جعلی ویکسین مہم چلائی تھی بلکہ وہ قبائلی  ضلع میں سرگرم شدت پسند تنظیموں کو فنڈنگ دی ہے۔ امریکہ کی جانب سے پاکستان کے اوپر پریشر بھی ڈالا گیا تھا کہ شکیل آفریدی کو رہا کیا جائے تاہم ابھی تک پاکستانی حکومت نے اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے اور وہ عدالتی سزا کے مطابق جیل میں ہے۔

شکیل آفریدی بچوں کے حقوق پر کام کرنے والے عالمی تنظیم 'سیو دی چلڈرن ' کے لیے کام کر رہے تھے۔ مقالے کے مطابق امریکہ نے ایبٹ آباد کے کمپاؤنڈ میں اسامہ کی موجودگی کی تصدیق کے لیے ایک جعلی ویکسین مہم چلانے کا فیصلہ کیا تاکہ اس کمپاؤنڈ میں رہنے والوں بچوں کے ڈی این اے نمونے حاصل کر کے ان کو اسامہ بن لادن کی بہنوں کے ڈی این اے کے ساتھ میچ کیا جا سکے جو امریکہ کے شہر بوسٹن میں انتقال کر گئیں تھی۔

اسی مقصد کے لیے امریکہ نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کی مبینہ خدمات حاصل کی تھا اور آفریدی نے اسی مہم کے لیے مزید ہیلتھ ورکرز کی خدمات حاصل کی تھی تاہم ان ہیلتھ ورکرز کو پتہ نہیں تھا کہ اس مہم کا اصل مقصد کیا تھا۔

مہم کے دوران مارچ 2011 میں شکیل آفریدی اور ٹیم نے ایبٹ آباد میں ہیپا ٹائٹس بی کے ویکسین بچوں کو لگانا شروع کر دیئے اور اسی مہم میں ہیلتھ ورکز بلال ٹاؤن جہاں اسامہ بن لادن کا کمپاؤنڈ واقع تھا، ویکسین لگانا شروع کیا۔ مقالے کے مطابق شکیل آفریدی کی ٹیم میں شامل ایک نرس اس میں کامیاب ہوگئی تھی کہ وہ اس کمپاؤنڈ سے بچوں کے نمونے لے سکیں تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ وہ ڈین این اے نمونے کہاں تک اسامہ بن لادن کو تلاش کرنے میں مددگار ثابت ہوئے تھے۔

پاکستانی طالبان کی جانب سے 2012 میں پولیو ویکسین کے حوالے سے ایک فتویٰ بھی جاری کیا گیا تھا کہ ویکسین ایک مغربی پروپیگینڈا ہے اور اسی بیانیے کو تقویت دینے کے لیے مقالے کے مطابق طالبان شکیل آفریدی کی مثال دیا کرتے تھے۔

پاکستان میں بچوں کو ویکسین پلانے کے لیے ہیلتھ ورکز کی یٹیم ہر تین مہینے بعد گھر گھر جا کر مہمات میں حصہ لیتے ہیں۔ یہ مہم زیادہ تر تین دنوں کے لیے چلتی ہے جس میں ہر ایک لیڈی ہیلھ ورکر تقریباً ایک ہزار بچوں کو پولیو کے قطرے پلاتے ہے۔

ویکسین نے لگانے کی شرح لڑکیوں میں زیادہ

مقالے نے جعلی ویکسین مہم کے بعد کے اثرات کو صنف کے زاویے سے بھی دیکھا ہے۔ یاد رہے کہ ویکسین اور باالخصوص  پولیو ویکسین کے حوالے سے عام رائے یہی ہے کہ یہ ویکسین لگانے سے خواتین بانجھ پن کا شکار ہوتیں ہیں۔ مقالے کے مطابق جعلی مہم کی وجہ سے لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی ویکسین نہ لگانے کی شرح میں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔

مقالے میں لکھا گیا ہے کہ 'جعلی مہم کی وجہ سے لڑکیوں کی ویکسین نہ لگانے کی شرح میں لڑکوں کے مقابلے میں 30 فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا ہے تاہم اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ لڑکے اس سے کم متاثر ہوئے ہیں۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈاکٹر ضیا الحق خیبر پختونخوا کی خیبر میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں اور پبلک ہیلتھ کے پروفیسر ہیں۔ ڈاکٹر ضیا نے بتایا کہ امریکہ کی جانب سے اس جعلی مہم کے بعد امریکہ سمیت دنیا بھر سے پبلک ہیلتھ ماہرین نے امریکہ کو ایک خط لکھ کر اس جعلی مہم پر تحفظات کا اظہار کیا تھا جس پر امریکہ نے تسلیم لیا تھا کہ وہ مستقل میں ایسی مہمات کو کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہیں کریں گے۔

ڈاکٹر ضیا نے بتایا کہ ’پبلک ہیلتھ ایک بہت اہم شعبہ ہے اور اس کا تعلق  بالواسطہ عوام کے ساتھ اور اس میں اعتماد کا اہم کردار ہے کیونکہ یہ پبلک ہیلتھ  ماہرین ہی ہیں جو لوگوں کو بتاتے ہیں کہ وہ بیماریوں سے کیسے اپنے آپ کو بچائیں گے اور اب اگر اس اعتماد کو ٹھیس پہنچتا ہے تو ظاہری بات ہے اس کا اثر  ہر کسی پر پڑے گا۔'

انہوں نے بتایا کہ پبلک ہیلتھ ماہرین ہی عوام کو ویکسین لگانے کی تلقین کرتے ہیں اور اگر اعتماد کی فضا قائم نہ ہو تو کیسے عوام کسی بھی پبلک ہیلتھ شعبے پر اعتماد کریں گے۔'

اب کرونا کی مثال لیجیے جس کے حوالے سے مختلف سازشی نظریات معاشرے میں موجود ہیں تاہم پبلک ہیلتھ ماہرین کوشش کرتے ہیں کہ ان غلط نظریات کا مقابلہ کیا جا سکے اور عوام میں آگاہی پھیلائی جا سکے۔ ویکسین سے انکاری لوگ دنیا بھر میں موجود ہیں چاہے وہ کرونا کی ہو یا کوئی بھی ویکسین ہو لیکن ہم کوشش کرتے ہیں کہ ایسی افواہوں اور سازشی تھیوریوں کا مقابلے کریں۔'

تاہم پاکستان میں پولیو مہم سے جڑے ایک اعلٰی عہدیدار نے نام نہ بتانے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ویکسین کے خلاف سازشی مفروظے صرف پاکستا ن میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں موجود ہیں اور جہاں تک سی آئی اے کی جعلی ویکسین مہم کا تعلق ہے، تو وہ اب لوگوں کے ذہنوں سے بہت تک ختم ہوگئی ہے۔

عہدیدار نے بتایا: 'حالیہ دنوں میں جو ہم نے مشاہدہ کیا ہے تو سب سے زیادہ مسئلہ پشاور واقعے سے ہوا ہے جو  2019 میں ہوا تھا اور ایک سکول کے اندر پولیو ویکسین لگانے کے بعد سینکڑوں بچوں کو پشاور کے ہسپتالوں میں پیٹ کی درد، الٹیاں  اور بے ہوشی کی  وجہ سے متنقل کیا گیا تھا۔'

انہوں نے بتایا کہ پشاور کا واقعہ بھی بعد میں ایک سازشی نظریہ ثابت ہوا تھا تاہم اب بھی بعض علاقوں میں انکاری والدین کی طرف سے یہی وجہ بتائی جاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا: 'ویکسین کے خلاف مہمات اب سالوں نہیں بلکہ ہفتوں میں کسی نہ کسی شکل میں سامنے آ جاتی ہیں اور میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ شکیل آفریدی کا واقعہ اب پرانا ہو چکا ہے۔'

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت