شرح نمو میں اضافے کا دعویٰ اور اکرم کے مسائل

اکرم کا حکومتی کارکردگی جانچنے کا پیمانہ بازار میں اشیا کی قیمتیں ہیں، جس دن وہ کم ہونا شروع ہوں گی، کسی دعوے کی ضرورت نہیں رہے گی۔

پاکستان بیورو آف سٹیٹسکس کے اعداد و شمار پر آنکھیں بند کر کے یقین نہیں کیا جا سکتا۔ ( اے ایف پی فائل)

اکرم پچھلے تین دنوں سے شش و پنج میں مبتلا ہے۔ کبھی چھوٹی سی امید سے مسکرانے لگتا ہے اور کبھی دکھ سے نڈھال ہو جاتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا مسئلہ معاش ہے۔ دو وقت عزت کی روٹی کھانا اور بچوں کی تعلیم مکمل کروانا سب سے بڑی خواہش ہے جسے وہ پورا نہیں کر پا رہا ہے۔

مہنگائی نے ایک طرف کمر توڑ دی اور دوسری طرف ان کے بچوں کی آنکھوں سے بہتر مستقبل کے خواب چھین لیے ہیں۔ تین دن پہلے بھی وہ انہی فکروں میں گم تھا کہ اس نے ٹی وی پر خبر دیکھی کہ وزیراعظم پاکستان نے موجودہ سال کی شرح نمو 3.94 فیصد ہونے پر قوم کو مبارکباد دی ہے۔ وہ فوراً سوچنے لگا کہ کیسی مبارکباد؟ کیا مہنگائی کم ہو گئی ہے یا میری تنخواہ میں اضافہ ہو جائے گا۔

اس نے مزید سنا کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح نمو تقریبا 3 فیصد، آئی ایم ایف نے دو فیصد اور ورلڈ بینک نے ڈیڑھ فیصد رہنے کی پیشن گوئی کی تھی لیکن سب کا حساب کتاب بظاہر غلط ہو گیا اور نیشنل اکاونٹس کمیٹی نے 103 نمبر اجلاس میں پلاننگ سیکریٹری حامد یعقوب شیخ کی سربراہی میں چار فیصد شرح نمو کی منظوری دی جس کا اعلان پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کی وزارت نے کیا۔ جبکہ اس سال شرح نمو کا سرکاری حدف 2.1 فیصد طے تھا۔

اکرم سوچنے لگا کہ دنیا کے سب سے بڑے مالیاتی اداروں میں دنیا کے بہترین ماہرین کام کرتے ہیں۔ ان سب کے حساب اتنے زیادہ غلط کیسے ہو سکتے ہیں۔ یا تو حکومت درست اعداد و شمار پیش نہیں کر رہی یا پاکستان میں واقعی ایک، دو ماہ میں ریکارڈ ترقی ہو گئی ہے جس کا عوام کو علم نہیں ہے۔

آئی ایم ایف نے اپریل اور ورلڈ بینک نے مارچ 2021 میں پاکستانی شرح نمو پر رپورٹ دی تھی۔ اکرم کے مطابق عوام کو تو یہی معلوم ہے کہ مرغی کی قیمت دو گنا سے زیادہ بڑھ گئی ہے، چینی کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے، بجلی کی قیمتوں میں تین گنا اضافہ ہو چکا ہے اور تنخواہیں بڑھ نہیں رہیں۔

اس نے سنا کہ جب سٹیٹ بینک کے نمائندے ڈاکٹر محمد علی اور وزارت خزانہ کے نمائندے ڈاکٹر امتیاز احمد کے سامنے شرح نمو کی رپورٹ رکھی گئی تو دونوں نے پاکستان بیورو آف سٹیٹس ٹکس کے اعداد و شمار کو غیر حقیقی قرار دیا۔ اجلاس میں اختلاف رائے کھل کر سامنے آ گیا اور ماحول کافی گرم ہو گیا۔ مجبوراً دو گھنٹے کا وقفہ لیا گیا۔

اس دوران وزرات خزانہ کے نمائندوں کو بگ باس کا فون آ گیا کہ اختلاف نہ کیا جائے۔ اس کے بعد 3.94 فیصد شرح نمو کو چپ کر کے قبول کر لیا گیا۔

پلاننگ کمیشن کے نمائندے ظفر الحسن کے مطابق سٹیٹ بینک کو زراعت کے اعداد و شمار پر شدید اختلاف تھا۔ نیشنل اکاونٹس کمیٹی نے گندم کی پیداوار 27.3 ملین ٹن ظاہر کی ہے جبکہ فیڈرل کمیٹی آف ایگریکلچر کے مطابق گندم کی مصدقہ پیداوار 26.4 ملین میٹرک ٹن ہے۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت نے اعدادوشمار میں ممکنہ طور پر ہیر پھیر کیا ہے۔

ذرائع کے مطابق ایک غیر منتخب کیبنٹ ممبر نے پی بی ایس پرپچھلے ہفتے شرح نمو کو چار فیصد پر رکھنے کے لیے دباؤ ڈالا ہے جبکہ پی بی ایس شرح نمو ساڑھے تین فیصد سے کم کا حامی تھا۔

اکرم کو پتہ چلا کہ مالی سال 20-2019 میں موجودہ مارکیٹ قیمتوں پر جی ڈی پی 41.6  کھرب تھی جوکہ سال 21-2020 میں بڑھ کر 47.7 کھرب روپے ہو گئی ہے۔ یہ اضافہ 14.8 فیصد ہے۔ پچھلے سال فی کس آمدن دو لاکھ 15 ہزار 60 روپے تھی جو اس سال بڑھ کر دو لاکھ 46 ہزار 4 سو 14 ہو گئی ہے جو کہ 14.6 فیصد اضافہ ہے۔

وہ سوچنے لگا کہ یہ کیسا اضافہ ہے جس سے میری زندگی میں کوئی بہتری نہیں آئی بلکہ حقیت یہ ہے کہ میری آمدن پچھلے سال کی نسبت 25 فیصد کم ہوئی ہے۔ میں ان اعداد و شمار کو اس وقت درست مانوں گا جب میری تنخواہ میں بھی 14.6 فیصد اضافہ ہو گا۔

اس نے جانا کہ شرح نمو کا انحصار زراعت، صنعت اور سروس سیکٹر میں ترقی پر ہوتا ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق زراعت میں 2.8 فیصد اضافہ ہوا ہے جو کہ پچھلے سال کے برابر اور ہدف کے مطابق ہے۔ گندم، چاول، گنا اور مکئی کی پیداوار میں آٹھ فیصد، 13.4 فیصد اور 22 فیصد اور ایک فیصد بتدریج اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ کپاس کی پیداوار میں 23 فیصد کمی ہوئی ہے، کاٹن جیننگ میں 15.6 فیصد کمی ہوئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی طرح لائیو سٹاک میں اضافہ 3.1 فیصد ہے جو کہ ہدف سے کم ہے۔ فشنگ سیکٹر میں 0.7 فیصد اضافہ ہوا ہے جو کہ ہدف سے ڈیڑھ فیصد کم ہے۔ اگر صنعت پر نظر ڈالیں تو 3.6 فیصد پر کھڑی ہے جبکہ ہدف 0.1 فیصد تھا۔ لارج مینوفیکچرنگ سیکٹر میں 9.3 فیصد اور سمال مینوفیکچرنگ میں 8.3 فیصد اضافہ ہوا ہے، جبکہ بجلی کی پیداوار اور تقسیم میں 23 فیصد کمی ہوئی ہے۔

معدنیات کے شعبے میں مسلسل دوسرے سال منفی ساڑھے چھ فیصد کمی دیکھی گئی ہے۔ خدمات کے شعبے میں 4.6 فیصد تک ترقی حیران کن ہے، جبکہ ہدف دو فیصد تھا۔ خدمات کے شعبے میں سب سے زیادہ اثر بینکنگ کی وجہ سے پڑتا ہے۔ ہول سیل اور ریٹیل کا ہدف 1.1 فیصد تھا جبکہ رپورٹ کیا گیا اضافہ 8.4 فیصد ہے، جو کہ بظاہر حالات سے متصادم ہے۔

اس کے علاوہ مالیات اور بیمہ 7.8 فیصد، ہاؤسنگ 4.1 فیصد، سرکاری خدمات 2.2 فیصد اور نجی خدمات شعبے میں 4.6 فیصد اضافہ بتایا گیا ہے۔

اس نے اپنے معاشی ماہر دوست سے حکومتی دعووں کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے شرح نمو میں اضافے کی وجہ لوگوں کے خرچ کرنے کے نمبر میں اضافہ بتایا جا رہا ہے جس کی حقیت یہ ہے کہ ن لیگ کے آخری مالی سال میں شرح نمو ساڑھے پانچ فیصد تھی اور لوگوں کی جانب سے خرچ کا نمبر تقریباً پانچ فیصد سے تھوڑا زیادہ تھا، جبکہ موجودہ حکومت نے عوامی خرچ کا نمبر سات فیصد سے بھی زیادہ بڑھا دیا ہے، جو کہ کسی بھی لحاظ سے مطابقت نہیں رکھتا۔

عوامی خرچ کا یہ نمبر پچھلے دس سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔ یہ اضافہ عوامی ردعمل اور زمینی حقائق کے بالکل برعکس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین بھی اس پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

شرح نمو میں اضافہ اتنا زیادہ نہیں ہے جتنا لگ رہا ہے کیونکہ تحریک انصاف کے پہلے مالی سال میں شرح نمو ہدف سے کم رہی اور دوسرے مالی سال میں منفی چار تھی۔ پچھلے سالوں میں انتہائی کمزور کارکردگی کی وجہ سے بیس ایفکٹ بہت بڑا دکھائی دے رہا ہے۔

حکومت کی جانب سے منائے گئے جشن سے یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ معیشیت کا حجم 296 ارب ڈالر ہوا ہے جبکہ حقیت یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں معیشت کا حجم 313 ارب ڈالر تھا، جو تحریک انصاف کی حکومت پچھلے تین سالوں میں بھی حاصل نہیں کر سکی۔

اس کے علاوہ پاکستان بیورو آف سٹیٹس ٹکس کے اعداد و شمار پر آنکھیں بند کر کے یقین نہیں کیا جا سکتا۔ وزیر خزانہ شوکت ترین نے وزرات سنبھالنے کے بعد پی بی ایس سے اپنی پہلی میٹنگ میں ہی معلومات اکٹھا کرنے کے طریقہ کار پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا تھا اور از سر نو تبدیلی لانے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔

اس کے علاوہ کوئٹہ اور فیصل آباد میں آٹے کے ریٹ اور مقدار پر جو ڈیٹا بی بی ایس نے پیش کیا تھا اس پر متعلقہ صوبائی حکومتوں نے اعتراض اٹھا دیا تھا کہ کہیں ریٹ غلط بتائے گئے ہیں اور کہیں مقدار غلط بتائی جا رہی ہے۔ اب شرح نمو چار فیصد بتانے کے بعد ماہرین کی جانب سے پی بی ایس کے معیار اور ساکھ کو مشکوک نگاہوں سے دیکھا جانے لگا ہے۔

اکرم اس نتیجے پہنچا کہ حکومت جو سب اچھا کی رپورٹ دے رہی ہے حقیقت اس سے مختلف ہے۔ اس وقت بہتر کارکردگی کے اعداد و شمار پیش کیے جا رہے ہیں جب اپوزیشن اور عوام معاشی پالیسیوں کی ناکامی کا گلہ کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ماضی میں بھی سیاست دان حکومت کے آخری سالوں میں اعداوشمار کے ہیر پھیر سے عوامی پذیرائی حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔

لیکن شاید عوام کو بیوقوف بنانا اب اتنا آسان نہیں رہا ہے۔ حکومت کوئی بھی رپورٹ جاری کر دے اکرم کا حکومتی کارکردگی جانچنے کا پیمانہ بازار میں اشیا کی قیمتیں ہیں، جس دن وہ کم ہونا شروع ہوں گی، کسی رپورٹ کی ضرورت نہیں رہے گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت