مرغی کی آسمان کو چھوتی قیمت اور اکرم کی پریشانی

مرغی کی کمپنیوں نے وٹس ایپ گروپ بنا رکھا ہے جس میں وہ گٹھ جوڑ کر کے غیرقانونی طریقے سے قیمتیں مقرر کرتے ہیں۔

حالیہ مہینوں میں مرغی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو گئی ہے۔ (اے ایف پی فائل)

اکرم کے گھر ہفتے میں ایک دن مرغی کا گوشت پکتا تھا۔ چار بچوں اور دو میاں بیوی کے لیے یہ کسی عیاشی سے کم نہیں تھا۔ بکرے کا گوشت خریدنے کی اس کی حیثیت نہیں ہے۔ بڑی عید پر ہی وہ اس نعمت سے فیض یاب ہوتے ہیں وہ بھی کسی کے گھر سے گوشت آ جاتا ہے تو اسے سنبھال کر رکھ لیتے ہیں اور کچھ دن پیٹ بھر کر کھاتے ہیں۔

صورت حال یہ ہے کہ ہفتے میں ایک دن پکنے والا چکن اب مہینے میں ایک دن پکتا ہے کیونکہ مرغی کی قیمت دو گنا سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ عید الفطر پر بھی چکن نہیں پک سکا۔ بچے آلو چکن کی فرمائش کرتے رہے اور اکرم یہ سوچتا رہا کہ یہ قیمت کب کم ہو گی۔ وہ اسی سوچ وچار میں گم تھا کہ اس نے ٹی وی پر خبر چلتے ہوئے دیکھی کہ کمپیٹیشن کمیشن آف پاکستان نے مرغی اور انڈوں کی قیمت بڑھنے کا نوٹس لے لیا ہے۔

اس حوالے سے دو انکوائری ٹیموں نے تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ جمع کروا دی ہے۔ فیڈز کے دو گوداموں اور فیکٹریوں پر خصوصی ٹیمیں تعینات کی گئیں۔ پتہ چلا کہ پولٹری فیڈ کی 19 کمپنیوں نے گٹھ جوڑ کر کے قیمتیں بڑھائیں، حالانکہ فیڈ کی تیاری میں استعمال ہونے والے اجزا کی قیمتیں کم ہوئی ہیں۔

اینٹی ٹرسٹ واچ ڈوگ کے مطابق 19 کمپنیوں نے قیمتیں بڑھانے کے طے شدہ قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ یہ تمام معاملات طے کرنے کے لیے ان کمپنیوں نے واٹس ایپ گروپ بنا رکھا ہے، جس میں ایک رکن نئی قیمت میسج کرتا ہے اور باقی تمام ارکان بھی اتنی ہی قیمت بڑھا دیتے ہیں۔

واٹس اپ گروپس کے میسج اور فیڈ کی قیمتیں بڑھنے میں باقاعدہ ایک تعلق نظر آ رہا ہے۔ نہ صرف ایک جیسی قیمتیں بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا بلکہ کس وقت اور کتنے مال پر یہ قیمت لگانی ہے وہ بھی طے کیا گیا، جو کہ مقابلے کے اصولوں کے خلاف ہے۔ مختلف بزنس ماڈل ہونے کی وجہ سے ہر کمپنی ایک جیسی قیمت نہیں بڑھا سکتی۔ گٹھ جوڑ کر کے قیمتیں بڑھانا حکومت پاکستان کے قانون کمپیٹیشن ایکٹ 2010 کے سیکشن 4 کے مطابق جرم ہے۔

ہر کمپنی خام مال مختلف قیمت پر خرید رہی ہے۔ اس کو سٹور کرنے، پراسس کرنے اور مارکیٹ کرنے کے پیرا میٹر سب کے الگ ہیں۔ جب متعلقہ کمپنیوں سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے خام مال کی قیمتیں بڑھنے کو سب سے بڑی وجہ قرار دیا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے صرف چند ایک اشیا کی قیمتیں بڑھی ہیں تقریباً 55 سے 60  فیصد سے زائد استعمال ہونے والی پراڈکٹ مکئی کی قیمت کم ہوئی ہے۔

ان حقائق کے پیش نظر سی سی پی نے پولٹری فیڈ کمپنیوں کے خلاف کیس درج کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اکرم نے دوست سے پوچھا کہ یہ کون سا ادارہ ہے جس نے نوٹس لیا ہے؟ دوست نے بتایا کہ کمپیٹیشن کمیشن آف پاکستان ایسا ادارہ ہے جس کا کام اشیا کی بڑھتی ہو قیمتوں پر نظر رکھنا ہے۔ یہ جائزہ لیتا ہے کہ جس چیز کی قیمت بڑھ رہی ہے وہ ملکی قوانین کے مطابق ہے یا نہیں۔

اکرم نے پوچھا کہ آج تک تو اس کا نام نہیں سنا۔ دوست نے بتایا کہ یہ کمیشن 2007 میں قائم ہوا تھا۔ 2009 میں سیمنٹ، فارماسوٹیکل، گاڑیاں، چینی، آٹا، الیکٹرانکس سمیت ملک کے تمام بڑے مافیاز نے اس کے خلاف عدالت سے سٹے لے رکھا تھا۔ اس عرصہ میں یہ غیرفعال رہا۔ 26 اکتوبر 2020 کو 12 سال بعد سٹے ختم ہوا ہے۔ اب ادارہ  دوبارہ فعال ہوا ہے۔

حکومت دعویٰ کر رہی ہے کہ اس ادارے کی بحالی ہماری بڑی کامیابی ہے، اس کی مدد سے ہم ملک میں مہنگائی ختم کر دیں گے۔ 

اکرم نے پوچھا، ’اس کا مطلب ہے کہ اب چکن کی قیمتیں کم ہو جائیں گی؟‘

اس کے دوست نے بتایا، ’اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ سی سی پی کے کیس کرنے کے بعد قیمتیں کم ہو جائیں گی۔ یہ پاکستان ہے۔ یہاں مافیاز مضبوط اور نظام کمزور ہے۔ بلکہ یوں کہیے کہ جو مافیاز ہیں وہی حکومت میں بیٹھے ہیں۔ اوّل تو کوئی موثر ایکشن ہو گا نہیں۔ اگر ہوا بھی تو گونگلوؤں پر سے مٹی جھاڑنے کے مترادف ہو گا۔ سی سی پی نے چینی کی قیمتوں میں اضافے کا بھی نوٹس لیا تھا۔ لیکن کچھ نہ کر سکی۔

’بلکہ صورت حال یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں اتنی مہنگی چینی کبھی نہیں بکی جتنی آج کل بیچی جا رہی ہے۔ ڈالر کی قدر تقریباً دو ماہ سے مسلسل کم ہو رہی ہے۔ 168 روپے بکنے والا ڈالر آج 153 روپے پر بک رہا ہے لیکن گاڑیوں کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ جب ڈالر کی قیمت بڑھی تو آٹو موبیل کمپنیوں نے فوراً گاڑیوں کی قیمتیں بڑھا دیں۔ لیکن ڈالر کے کم ہونے پر ایک بھی گاڑی کی قیمت کم نہیں کی گئی۔ سی سی پی نے اس معاملے کا بھی نوٹس لیا تھا لیکن گاڑیوں کی قیمتیں کم نہیں ہوئیں۔

’اس کے علاوہ آٹا، دال، سبزیاں، پھل سمیت سینکڑوں اشیا کے مہنگے ہونے پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ مافیاز اپنی مرضی سے قیمتیں بڑھا رہے ہیں اور حکومت آنکھیں بند کر کے بیٹھی ہے۔ ادارے خاموش ہیں اور عوام پِس رہے ہیں۔‘

اکرم کہنے لگا، ’تو پھر حکومت کس طرح اسے اپنی کامیابی قرار دے سکتی ہے؟ میں تو اس وقت حکومت کی کارکردگی مانوں گا جب میرے بچے ہفتے میں کم ازکم ایک مرتبہ پیٹ بھر کر چکن کھا سکیں گے۔ روز ایک انڈے کی بجائے دو انڈوں کا ناشتہ کریں گے۔ اگر میرا گھر خوشحال ہو گا تو میرے لیے پورا ملک ہی خوشحال ہے۔ اگر میرے گھر میں فاقے ہیں تو میرے لیے پورا ملک ہی جہنم کی آگ میں جل رہا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر