سابق جج شوکت صدیقی تین سال سے انصاف کے متلاشی

شوکت عزیز صدیقی نے عہدے سے ہٹائے جانے کے سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے کے خلاف اپیل سپریم کورٹ میں دائر کر رکھی ہے، تاہم ان کے مقدمے کی سماعت ایک بار پھر التوا کا شکار ہوگئی ہے۔

شوکت صدیقی آئندہ ماہ 30 جون کو ریٹائر ہو جائیں گے اور اگر پانچ ہفتوں میں ان کی درخواست پر فیصلہ نہ ہوا تو ان کی درخواست بھی غیرموثر ہو جائے گی۔ (تصویر: اسلام آباد ہائی کورٹ)

اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت صدیقی کے مقدمے کی سماعت ایک بار پھر التوا کا شکار ہو گئی ہے۔ رواں برس اس کیس کی سماعت تین مرتبہ مقرر کی گئی لیکن تینوں مرتبہ ناگزیر وجوہات اور بینچ کے میسر نہ ہونے پر کیس ڈی لسٹ ہو گیا۔

خیال رہے کہ سابق جج شوکت عزیز صدیقی نے عہدے سے ہٹائے جانے کے سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے کے خلاف اپیل سپریم کورٹ میں دائر کر رکھی ہے۔

شوکت صدیقی آئندہ ماہ 30 جون کو ریٹائر ہو جائیں گے اور اگر پانچ ہفتوں میں ان کی درخواست پر فیصلہ نہیں ہوتا تو ان کی درخواست بھی غیرموثر ہو جائے گی۔

سینیئر وکیل عمران شفیق اس بارے میں کہتے ہیں کہ کیس کے ملتوی ہونے کی یہ کوئی وجہ نہیں کہ بینچ کے میسر نہ ہونے کی وجہ سے کیس ملتوی کیا گیا۔ ’تمام پانچ ججز عمر عطا بندیال سمیت آج کی تاریخ میں اپنے اپنے بینچ میں موجود ہیں۔‘

سپریم کورٹ نے گذشتہ برس دسمبر میں ہونے والی سماعت میں ریمارکس دیئے تھے کہ یہ اہم نوعیت کا مقدمہ ہے، جسے تفصیل سے سنا جائے گا۔

جبکہ شوکت صدیقی کے وکیل حامد خان نے گذشتہ سماعت پر عدالت سے استدعا کی تھی کہ ان کے موکل جون 2021 میں ریٹائر ہو جائیں گے، اس لیے اس سے پہلے ان کی اپیل کا فیصلہ کر دیں، جس پرعدالت نے انہیں یقین دہانی کرائی تھی کہ شوکت صدیقی کی ریٹائرمنٹ سے قبل فیصلہ دے دیں گے۔

یاد رہے کہ 26 اکتوبر 2018 کے بعد سے اس کیس کی باضابطہ سماعت نہیں ہوئی ہے اور اس دوران بارہا درخواست گزار کی جانب سے چیف جسٹس کو خط بھی لکھے گئے کہ انصاف میں تاخیر ہو رہی ہے، جبکہ کیس جلد مقرر کرنے کی درخواستیں بھی دائر کی گئی ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ رپورٹرز ایسوسی ایشن کے صدر ثاقب بشیر نے سوشل میڈیا پر تبصرہ کیا کہ ’جج کو انصاف کے حصول کے لیے کتنے جتن کرنے پڑ رہے ہیں، عام آدمی کا کیا حال ہوگا۔‘

جبکہ سینیئر عدالتی صحافی کامران خان نے کہا کہ ’انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار ہے۔‘

سینئیر وکیل اور سابق پراسیکیوٹر نیب عمران شفیق نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ بات قابل ذکر ہے کہ 14 جون سے سپریم کورٹ کی سالانہ چھٹیاں شروع ہو جائیں گی، جس کے بعد بینچ کا مکمل ہونا بہت مشکل ہے۔ اس لحاظ سے تو تقریباً تین ہفتے کا وقت ہی رہ گیا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ اس کیس نے پاکستانی عدلیہ کے بارے میں یہ تاثر چھوڑا ہے کہ ’اتنے سنجیدہ مقدمے کو انتہائی غیرسنجیدہ طریقے سے چلا کر وقت ضائع کیا جا رہا ہے۔‘

بقول عمران شفیق: ’عمومی طور پر دفاع کرنے والے فریق کی جانب سے تاخیری حربے استعمال کیے جاتے ہیں لیکن اس مقدمے میں عدالت کی طرف سے تاخیری حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ ’قاضی فائز عیسیٰ کیس میں دس رکنی بینچ روز بیٹھ جاتا تھا کیونکہ ان کو عہدے سے برطرف کرنا تھا اور حکومت کی بھی منشا تھی لیکن یہاں برطرف جج کو بحال کرنا ہے اور پانچ رکنی بینچ ہے جو دستیاب ہی نہیں ہو رہا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’یہاں انصاف کے دوہرے معیار ہیں، حکومت کے ناپسندیدہ جج کو ہٹانا ہو تو کیس فوراً لگا دیا جاتا ہے۔‘

عمران شفیق نے مزید کہا کہ ’2019 میں جب قاضی فائز عیسیٰ کیس شروع ہوا تو سپریم کورٹ نے شوکت صدیقی سے کہا کہ قاضی فائز عیسیٰ کے مقدمے میں وہ تمام قانونی سوالات اٹھائے گئے ہیں جو شوکت صدیقی کے مقدمےمیں بھی ہیں، اس لیے قاضی فائز عیسی کے مقدمے کا فیصلہ شوکت صدیقی کی اپیل کے فیصلے میں بطور حوالہ استعمال ہوگا۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’اب جب قاضی فائز عیسیٰ کیس کے فیصلے کو بھی ایک سال ہونے کو ہے بلکہ نظرثانی درخواستوں پر بھی فیصلہ آ چکا ہے، اس کے باوجود شوکت صدیقی کا کیس مقرر نہ کرنے سے تاثر ابھرتا ہے کہ شوکت صدیقی کا موقف درست تھا۔‘

واضح رہے کہ اگر شوکت صدیقی کو فوری کارروائی کر کے اکتوبر 2018 میں برطرف نہ کیا جاتا تو 26 نومبر 2018 کو انہوں نے بطور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ حلف اٹھانا تھا۔

جسٹس شوکت صدیقی کے خلاف ریفرنس کیا تھا؟

اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینیئر سابق جج شوکت صدیقی کو اکتوبر 2018 میں خفیہ اداروں کے خلاف تقریر کرنے پر عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔

کونسل کا موقف یہ تھا کہ شوکت صدیقی بطور جج ’مِس کنڈکٹ‘ کے مرتکب ہوئے ہیں اور انہوں نے ’نامناسب‘ الفاظ کا استعمال کیا ہے، اس لیے آرٹیکل 209 کے تحت انہیں عہدے سے ہٹانے کی سفارش کی جاتی ہے۔

چونکہ شوکت عزیز صدیقی نے 21 جولائی 2018 کو راولپنڈی بار میں خطاب کے دوران حساس اداروں پرعدالتی کام میں مداخلت کے الزامات عائد کیے تھے، جس کے بعد ان کے بیان پر پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے بھی رد عمل سامنے آیا تھا جس میں ریاستی اداروں پر لگائے جانے والے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے 31 جولائی کو اس پر ازخود نوٹس لے لیا اور ایک ہی سماعت پر فیصلہ بھی سنا دیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان