یمنی ماہی گیروں کو وہیل کے پیٹ میں ’خزانہ‘ مل گیا

فارس عبدالحکیم اور ان کے ساتھی ماہی گیر ایک دن حسب معمول سمندر میں شکار کے لیے گئے لیکن جب لوٹے تو ان کے ہاتھوں میں ’نایاب خزانہ‘ تھا۔

جنگ کے شکار ملک یمن میں ماہی گیر فارس عبدالحکیم اور ان کے ساتھی ماہی گیروں کے لیے یہ کسی عام دن کی طرح تھا جب انہوں نے مچھلیوں کے شکار کے لیے سمندر کا رخ کیا لیکن ان کے جال میں پھنسنے والی وہیل کے پیٹ سے ملنے والے لاکھوں ڈالرز مالیت کے ’جیک پاٹ‘ سے ان کی کایا پلٹ گئی۔

عبدالحکیم نے اے ایف پی کو بتایا کہ کس طرح وہ ان 35 ماہی گیروں میں شامل تھے جن کو رواں سال فروری میں جنوبی شہر عدن کے ساحل سے تقریباً 26 کلو میٹر دور سمندر سے سپرم وہیل کی تیرتی ہوئی لاش ملی۔

انہوں نے بتایا کہ وہ مردہ وہیل کو واپس ساحل کی طرف کھینچ لائے جہاں انہوں نے اس کا پیٹ چاک کر کے اس کے نظام انہضام سے ’فلوٹنگ گولڈ‘ یا عنبر اسود، ایک نایاب مادہ جو پرفیوم بنانے میں استعمال ہوتا ہے، نکال لیا۔

انہوں نے 127 کلو گرام وزنی عنبر اسود مادے کو ایک اماراتی تاجر کو 15 لاکھ ڈالرز سے زیادہ میں فروخت کیا۔ یہ ایک ایسے ملک کے لوگوں کے لیے ناقابل تصور رقم ہے جو دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک ہے۔

حاصل ہونے والی رقم میں سے کچھ کو معاشرے میں ضرورت مند افراد کی مدد کے لیے مختص کر دیا گیا جب کہ باقی رقم ماہی گیروں کے گروہ میں تقسیم ہوگئی۔

عبدالحکیم نے کہا کہ اس واقعے نے ان کی زندگیاں بدل کر رکھ دی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا: ’بس ایک لمحے میں ہماری زندگی بدل گئی۔ ہم لوگوں نے اس رقم سے نئی کشتیاں خریدیں۔ کئی نے اپنے گھر بنوائے۔ میں نے بھی اپنا گھر تعمیر کیا ہے۔ یہاں حالات پہلے ہی مشکل تھے لیکن میں نے اپنا مستقبل بنا لیا ہے۔‘

ماہی گیروں میں سے ایک اور سلیم شرف نے بتایا کہ اس واقعے سے ان کے ’نئے مستقبل کی بنیاد پڑی۔‘

’ہم سادہ لوح لوگ ہیں، ماہی گیر ہر روز مچھلی کا شکار کرنے نکلتے ہیں۔ اگر آپ کو دن کے وقت شکار مل جائے تو آپ خدا کا شکر ادا کرتے ہیں۔ اچانک خدا نے ہمیں یہ ’وہیل‘ عطا کی۔‘

یمن میں زندگی آسان نہیں جہاں سالوں سے جاری خانہ جنگی کے دوران لاکھوں افراد قحط کے دہانے پر پہنچ گئے۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ یمن دنیا کی بدترین انسانیت سوز بحران کا شکار ہے کیونکہ یہاں خانہ جنگی پھیل رہی ہے جس میں دسیوں ہزار افراد ہلاک، لاکھوں بے گھر ہو گئے ہیں اور اس کی تین کروڑ آبادی کا دو تہائی حصہ امداد پر زندگی بسر کر رہا ہے۔

عبدالحکیم اور اس کے ماہی گیر ساتھی واپس سمندر میں لوٹ چکے ہیں۔

عبدالحکیم نے کہا: ’میں اس سمندر کے بغیر کبھی نہیں رہوں گا۔ سمندر کے ساتھ محبت میری رگوں میں دوڑتی ہے۔‘

انہوں نے ایک مقبول یمنی کہاوت سناتے ہوئے کہا: ’سمندر کی قربت بادشاہ کی ہمسائیگی سے بہتر ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات