حج دینی فریضہ ہے، بیوپار نہیں!

تیل کی پیداوار میں کمی کو بنیاد بنا کر وبا کے دنوں میں حج سیزن کھول کر سعودی عرب آمدنی میں اضافہ کر سکتا تھا لیکن عازمین حج کی سلامتی کے پیش نظر مملکت نے ایسا کرنے سے گریز کیا۔

سعودی حکومت حج انتظامات پر اٹھنے والے اربوں ریال مالیت کے اخراجات کو معاشی سود وزیاں سے بے پروا ہو کر برداشت کرنے میں فخر محسوس کرتی ہے(اے ایف پی)

 

یہ تحریر آپ مصنف کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں


اس سال بھی کرونا وائرس کے پیش نظر حج کے شرکا کی تعداد محدود رکھنے اور صرف سعودی عرب میں مقیم افراد کو حج کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

سعودی وزارت حج وعمرہ کے اعلان کے مطابق دنیا کے 180 سے زائد ممالک میں کرونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کے پیش نظر مملکت میں مقیم مختلف ملکوں کے شہری اور مقامی افراد میں سے مطلوبہ معیار پر پورا اترنے والے 60 ہزار افراد حج کر سکیں گے۔

مسلمانوں کے لیے یہ سوچنا بھی محال ہے کہ کسی سال حج نہیں ہو سکے گا!! لیکن اس کے باوجود تاریخ میں تقریباً 40 مواقع ایسے گزرے ہیں جن میں حج ادا نہ ہو سکا اور کئی بار خانہ کعبہ حاجیوں کے لیے بند رہا۔ اس کی کئی وجوہات تھیں جن میں بیت اللہ پر حملے سے لے کر سیاسی جھگڑے، وبا، سیلاب، راہزنوں کا حاجیوں کے قافلے لوٹنا اور موسم کی انتہائی لہر شامل ہیں۔

اسی تاریخی حقیقت کا حوالہ دیتے ہوئے وزارت حج وعمرہ نے مزید بتایا کہ کرونا وائرس کے باعث دنیا بھر میں لاکھوں اموات ہو چکی ہیں اور کروڑوں اس سے متاثر ہیں۔ کرونا کی وبا اور روزانہ عالمی سطح پر اس وائرس کے متاثرین کی تعداد میں اضافے کے پیش نظر یہ طے کیا گیا ہے کہ رواں برس 1442 کے حج میں سعودی عرب میں مقیم مختلف ملکوں کے عازمین کو محدود تعداد میں شریک کیا جائے۔

وزارت حج وعمرہ نے فیصلے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ مملکت چاہتی ہے کہ حج محفوظ اور صحت مند ماحول میں ہو۔ کرونا سے بچاؤ کے تقاضے پورے کیے جائیں، عازمین حج کی حفاظت اور سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے سماجی فاصلہ برقرار رکھا جا سکے اور انسانی جان کے تحفظ سے متعلق اسلامی شریعت کے مقاصد پورے کیے جا سکیں۔

 یاد رہے [1] دین کی حفاظت (2) انسانی جان کی حفاظت (3) انسانی عقل کی حفاظت (4) انسانی نسل کی حفاظت (5) انسان کے مال کی حفاظت کو اسلام میں شریعت کے بنیادی مقاصد یا مصلحت قرار دیا گیا ہے۔ شریعت کا ہر حکم ان بنیادی مقاصد کے تحفظ یا ترویج کے تابع ہے۔

احکام شریعت میں ان مصالح کو علت کے بعد سب سے مقدم رکھا گیا ہے۔ حکمت ودانائی کے مظہر انہی مقاصد کی پاسداری اور کووڈ 19 کا پھیلاؤ روکنے کے لیے سعودی حکومت نے ماضی میں حرمین شریفین میں عمرے کی ادائیگی بھی معطل کی تھی، تاہم بعد میں ایس او پیز کی روشنی میں محدود پیمانے پر  اس کی اجازت دے دی گئی۔

عازمین حج اور عمرہ زائرین کی صحت سعودی حکومت کی ہمیشہ پہلی ترجیح رہی ہے۔ کرونا وائرس کے حوالے سے آئے روز سامنے آنے والی نئی میوٹیشنز [اقسام] بہت تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ حج کی کھلے عام اجازت سے ان نئی مہلک میوٹیشنز کا مملکت میں پھیلنے کا قوی امکان تھا اور پھر غیر ملکی حجاج ان کے جراثیم واپسی پر اپنے ملکوں تک لے جانے کا باعث بن سکتے تھے۔

بنی نوع انسان کی سلامتی کو یقینی بنانا اسلامی نظریہ کی اساس ہے۔ حاجیوں کو ہلاکت خیز وبا سے محفوظ رکھنے اور سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے سعودی عرب نے ضرورت پڑنے پر لاک ڈاؤن طرز کے انتہائی زیرک اور دور رس نتائج کے حامل اقدامات اٹھانے سے بھی گریز نہیں کیا۔

ان سب فیصلوں کا مآخذ کتبِ حدیث کی مستند کتابوں میں منقول میں صحیح روایات ہیں جن میں بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ ’جس جگہ طاعون (وبائی مرض) موجود ہو وہاں مت جاؤ ، اور جہاں تم موجود ہو وہاں طاعون کا مرض پھیل جائے تو ڈر کر وہاں سے بھاگو مت۔‘

محدود تعداد میں حج کی اجازت کے ذریعے مملکت دو بہترین مقصد بیک وقت حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ اولا، حج ایسے دینی فریضہ کا انعقاد اور دوئم، لوگوں کو وبا سے محفوظ رکھنا، جو عین مقصد شریعت ہے۔

دنیا بھر سے تقریبا دو ملین افراد فریضہ حج ادا کرنے مملکت سعودی عرب آتے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد حج کے موقع پر مقامی اور بین الاقوامی سطح پر عالمی وبا کا ’مرکز’ بن سکتی ہے۔ اس صورت حال سے بچنے کے لیے کھلے دل ودماغ سے فیصلے کرنے کی ضرورت تھی تاکہ امکانی خطرات کا خاتمہ اور حاجیوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔

اس میں دو رائے نہیں کہ سعودی قیادت ادائی حج کے لیے انتظامات کا مقدس فریضہ کمال احساس تفاخر سے ادا کرتی ہے، اس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ مناسک حج مکمل تحفظ کے ساتھ ادا کیے جا سکیں اور حجاج کو ہر قسم کے نقصان سے محفوظ رکھا جائے۔

سعودی حکومت تمام مناسک حج کی بخیر وخوبی انجام دہی کو یقینی بنانے کے لیے بے دریغ وسائل اور روپیہ پیسہ خرچ کرتی ہے تاکہ عازمین حج آرام وسکون کے ساتھ اپنا دینی فریضہ ادا کر سکیں۔ عالمی وبا ایسے غیر روایتی حالات میں مملکت نے حاجیوں کے تحفظ کی خاطر اس سال بھی مشکل اور سنجیدہ فیصلے کرنے میں پس وپیش سے کام نہیں لیا۔

انسانی زندگی کے تحفظ اور بیماریوں سے بچاؤ کو یقینی بناتے ہوئے حج سیزن کی بحسن خوبی تکمیل سعودی حکومت کا اولین نصب العین ہے، جس پر سالانہ اربوں ریال خرچ ہوتے ہیں۔مملکت حج سیزن کی نگرانی کو تفویض کیا گیا مطلق مذہبی فریضہ سمجھ کر ادا کرتی ہے۔

اس فریضے کی انجام دہی کو معاشی سود وزیاں سے بے پروا ہو کر ادا کرنے میں سعودی عرب نے ہمیشہ فخر محسوس کیا، حالانکہ بعض مخالفین اور چند عاقبت نااندیش ہم عقیدہ حلقے الزام لگاتے ہیں کہ حج سیزن کے ذریعے بڑی آمدن ہوتی ہے، جس سے مملکت کی معیشت کو سہارا ملتا ہے۔

سعودی عرب کے لیے حج کے معاشی فوائد پر بھاشن دینے والے منبر پر بیٹھ کر یہ بھول جاتے ہیں کہ مملکت ہر سال حج انتظامات پر اربوں ریال خرچ کرتی ہے۔ یہ کام کئی برسوں سے جاری ہے جس میں کمی کے بجائے، ہر سال اضافہ ہی دیکھنے میں آیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حاجیوں کی سہولت اور بڑی تعداد میں حرمین شریفین میں ان کی حاضری کو یقینی بنانے کے لیے سعودی حکومت مسجد حرام اور مسجد نبویﷺ کے توسیعی منصوبوں پر ایک ٹریلین سعودی ریال سے زیادہ رقم خرچ کر چکی ہے۔

دو برس قبل سعودی عرب کو حج سے 12 ارب ڈالر کی براہ راست آمدنی ہوئی۔ پاکستانی کرنسی میں یہ رقم کم وپیش 1264 ارب روپے سے زیادہ بنتی ہے۔ سعودی عرب جانے والے عازمین حج جو ڈالر وہاں خرچ کرتے ہیں، وہ مملکت کی معیشت کا حصہ بن جاتے ہیں۔یہ رقم کسی بھی طور سعودی عرب کی براہِ راست آمدنی شمار نہیں ہوتی۔  

سعودی حکومت کی طرف سے مسلسل دو برسوں سے حاجیوں کی تعداد محدود کرنے کا فیصلہ مملکت کے مخالفین کا بے بنیاد پروپیگینڈا مسترد کرنے کے لیے کافی ہے۔ سعودی عرب میں حج کے موقع پر خرچ کیا جانے والا زر مبادلہ مملکت کی براہ راست آمدنی کا اگر بڑا حصہ ہوتا تو حاجیوں کے تحفظ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وبا کے دنوں میں بھی حج سیزن مکمل طور پر کھول دیا جانا چاہے تھا تاکہ اوپیک کی طرف سے تیل کی پیداوار کم کرنے کے فیصلے کے بعد ’مذہبی سیاحت‘ سے حاصل ہونے والی آمدنی میں اضافہ ہو۔

عالمی وبا کے خطرات کی موجودگی میں سیاحت کی آمدنی پر انحصار کرنے والے کئی ملکوں نے اپنی سرحدیں کھولنے کا فیصلہ کیا تاکہ وبا کی وجہ سے مالی خسارہ کم کیا جا سکے، اس اقدام کے مضر اثرات کسی سے پوشیدہ نہیں۔

سعودی عرب کے مخالفین اور ناقدین کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ حج ایسے مذہبی فریضہ کی ادائیگی اور کسی ملک میں چھٹیاں گزارنے کی خاطر سفر اختیار کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ سیر وسیاحت مؤخر یا معطل کی جا سکتی ہے، لیکن مذہبی فریضہ نہیں۔

مصر کی جامعہ الازہر، اسلامی تعاون تنظیم [او آئی سی]، رابطہ عالم اسلامی سمیت پوری دنیا  وبا کے باعث حاجیوں کی تعداد محدود کرنے کو مقاصد شریعت سے ہم آہنگ اور انسان دوست فیصلہ قرار دیتے ہوئے اس کی تحسین کر رہی ہے۔

محدود تعداد میں فریضہ حج کی ادائی کی اجازت دے کر سعودی حکومت نے ’حسنہ فی الدنیا، وحسنہ فی الآخرہ ‘ کا حسین امتزاج برقرار رکھا ہے جس پر خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان مبارک باد کے مستحق ہیں۔

اب وقت آ گیا ہے کرونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین لگوانے کے لیے عوام کو آمادہ کیا جائے تاکہ عمرہ اور حج کی رونقیں معمول کے مطابق بحال ہو سکیں اور مقامات مقدسہ ایک مرتبہ پھر اللہ کے مہمانوں کی ’لبیک اللھم لبیک‘ کی صداؤں سے گونج سکیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ