کیاعامر لیاقت نے برمودا ٹرائینگل کا معما سلجھا دیا؟

برمودا ٹرائینگل کا مفروضہ مشہور کرنے کا سہرا جاسوسی مصنف ونسٹ گیڈس کے سر جاتا ہے۔

مشہور ہے کہ جو جہاز برمودا ٹرائینگل کے اوپر سے گزرتا ہے، وہ کبھی واپس لوٹ کر نہیں آتا (تصویر: pixabay.com)

گذشتہ دنوں ٹیلی ویژن چینلوں کی معتبر ہستی ڈاکٹرعامر لیاقت حسین نے ایک چینل پر رمضان ٹرانسمیشن کے روشن لمحات کو اپنی علمیت سے مزید منور کرتے ہوئے برمودا ٹرائینگل کو موضوع بنایا اور دعویٰ کیا کہ یہ دراصل دجال کی آنکھ ہے جہاں جو گیا وہ واپس نہ آیا۔

انہوں نے کہا کہ یہاں قطب نما کام کرنا چھوڑ دیتا ہے، جو سمندری جہاز اس علاقے میں جاتا ہے، غرقاب ہو جاتا ہے، جو ہوائی جہاز اس کے اوپر سے گزرتا ہے، پٹ سے نیچے گر کر تباہ ہو جاتا ہے، نہ اس کا ملبہ ملتا ہے اور نہ کوئی شخص بچ کر کبھی واپس آیا۔

برمودا ٹرائینگل کیا ہے اوراس میں کیا خاصیت ہے کہ اس کا نام سنتے ہی ذہن پر اسرار کی دھند چھا جاتی ہے اور لوگ یہ سوچنے لگتے ہیں کہ دنیا میں ایسے کئی معمے ہیں جو ابھی حل طلب ہیں؟

عامر لیاقت اکیلے نہیں ہیں، عوام کی بڑی اکثریت کے برمودا ٹرائینگل کے بارے میں ایسے ہی خیالات کی حامل ہے۔ اس سلسلے میں کئی نظریات گردش کر رہے ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں:

  • یہاں خلائی مخلوق کا گڑھ ہے جو لوگوں کو اغوا کر لیتی ہے اور ان پر تجربات کیے جاتے ہیں
  • یہاں مقناطیسی میدان اتنا طاقتور ہے کہ اس کے شکنجے سے قریب آنے والی کسی دھاتی شے کا بچ نکلنا ناممکن ہے
  • بعض کا دعویٰ ہے کہ یہاں چوتھی جہت (فورتھ ڈائمنشن) موجود ہے، اس لیے یہاں جو پہنچتا ہے، کائنات کی حدیں پھلانگ کر پار نکل جاتا ہے
  • یہاں کوئی مِنی بلیک ہول منہ کھولے تیار بیٹھا ہے جو ہر شے ہڑپ کر جاتا ہے، اور ظاہر ہے بلیک ہول اور ملکِ عدم سے آج تک کوئی پلٹ کر نہیں آیا

حقیقت کیا ہے؟ کیا واقعی دنیا میں کوئی ایسی جگہ موجود ہے جہاں انسانی عقل ہاتھ جوڑ دیتی ہے اور سیٹلائٹ ٹیکنالوجی، سپر کمپیوٹر اور مصنوعی ذہانت سے لیس سائنس گھٹنے ٹیک دیتی ہے؟

ہو سکتا ہے کہ آپ کو جواب سن کر مایوسی ہو، کیوں کہ سچ کڑوا ہونے کے ساتھ ساتھ اکثر اوقات غیر دلچسپ بھی ہوتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ برمودا ٹرائینگل میں کوئی طلسم، کوئی پراسراریت، کوئی بھید نہیں۔

اس میں شک نہیں کہ برمودا ٹرائینگل کے علاقے میں بڑے پیمانے پر بحری حادثے ہوئے، لیکن اس کی وجہ کوئی پراسرار طاقت نہیں بلکہ سادہ سی بات یہ ہے کہ یہاں سے زیادہ بحری ٹریفک گزرتی ہے اس لیے یہاں اسی تناسب سے زیادہ حادثے ہوتے ہیں۔

اس کی مثال یوں سمجھ لیجیے جیسے کسی بڑے شہر کے مصروف چوک میں گاڑیوں کے حادثات کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں بہ نسبت کسی دور دراز گاؤں کی خاموش سڑک کے۔

جب ماہرین نے برمودا ٹرائینگل میں بحری ٹریفک کے تناسب سے حادثات کی شرح نکالی تو معلوم ہوا کہ یہ دنیا کے کسی بھی دوسرے علاقے سے مختلف نہیں۔

تو پھر برمودا ٹرائینگل کا مفروضہ اتنا مشہور کیسے ہو گیا؟

اس کا سہرا جاسوسی مصنف ونسٹ گیڈس کے سر جاتا ہے جنہوں نے 1964 میں آرگوسی نامی میگزین میں ایک آرٹیکل لکھا، ’قاتل برمودا ٹرائینگل‘ جو جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا۔

بعد میں گیڈس نے اسی آرٹیکل کو پھیلا کر کتاب کی شکل میں شائع کروا دیا۔ اس میں انہوں نے بڑے سنسنی خیز انداز میں پانچ جہازوں پر مشتمل امریکی فضائی سکواڈرن کے گم ہونے کا ذکر کیا جو 1945 میں برمودا ٹرائینگل کے اوپر پرواز کرتے ہوئے لاپتہ ہو گیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ ان کی تلاش میں جانے والے ہوائی جہاز فلائیٹ 19 اور اس کے عملے کا بھی سراغ نہیں ملا۔

گیڈس نے لکھا: ’اس المناک تکون میں جو بھی خطرہ منڈلا رہا ہے وہ فضائی تاریخ کے سب سے حیرت انگیز بھید کا ذمہ دار ہے۔۔۔ اس محدود علاقے میں اتنے جہاز غائب ہو چکے ہیں کہ جو اتفاق کا نتیجہ نہیں ہو سکتے۔ بلکہ اس کی تاریخ کولمبس تک جاتی ہے جب وہ پہلی بار بہاماس کے علاقے میں پہنچا تھا۔‘

انسانی ذہن کو ہمیشہ سے پراسرار چیزوں میں کشش محسوس ہوتی ہے اس لیے گیڈس کی کتاب نے فروخت کے ریکارڈ توڑ دیے۔ دنیا بھر میں اس کے دو کروڑ نسخے فروخت ہوئے اور اس کا 30 زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔

راتوں رات ہی اس موضوع پر کتابوں، مضامین، دستاویزی فلموں، کہانیوں اور ناولوں کی پوری صنعت وجود میں آ گئی اور برمودا ٹرائینگل کا بھید دنیا بھر کے لوگوں کے ذہنوں میں رچ بس گیا۔

برمودا ٹرائینگل کا علاقہ امریکہ سے قریب ہونے کی وجہ سے مصروف سمندری گزرگاہ ہے اور یہاں سے روزانہ بحری جہاز اور کشتیاں گزرتی ہیں


گیڈس نے تو لکھا تھا کہ یہ واقعات یکسر پرسکون موسم میں پیش آئے تاہم بعد میں معلوم ہوا اُس وقت اس علاقے میں شدید سمندری طوفان تھا اور 50 فٹ بلند لہریں سطح سے سر پٹخ رہی تھیں۔

اس خوفناک موسم میں کسی جہاز کا ڈوب جانا حیرت کی بات نہیں بلکہ اگر وہ بچ کے واپس آ جاتا تو حیرت کی بات ہوتی۔ مزید یہ کہ فلائیٹ 19 کا ہواباز کچھ زیادہ ماہر نہیں تھا اور کئی بار پہلے بھی راستہ گم کر چکا تھا۔ مزید یہ کہ جہاز تباہ ہو جانا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہوتی، ایسا آئے دن ہوتا رہتا ہے، لیکن اس کی وجوہات فطری اور معمولی ہوتی ہیں۔

برمودا ٹرائینگل کے اسرار کا بھانڈا کئی بار پھوڑا جا چکا ہے۔ ماہرین نے بھرپور تحقیق کے بعد یہاں ہونے والے حادثات کی سادہ اور عام فہم وجوہات تلاش کی ہیں، جن میں موسم کی خرابی، عملے کی غلطی، قطب نما کے رخ میں تبدیلی وغیرہ جیسے عوامل شامل ہیں۔ لیکن یہ بےرنگ اور پھیکی توجیہات میں اتنی کشش کہاں کہ میڈیا کے نقارخانے کی توجہ اپنی طرف کھینچ سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ برمودا ٹرائینگل کے اسرار کا جادو آج بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔

برمودا ٹرائینگل میں کسی قسم کا اضافی خطرہ، کوئی پراسراریت، کوئی مافوق الفطرت خاصیت موجود نہیں۔ اگر اوپر کی گئی بحث سے یہ بات واضح نہیں ہوئی تو یہ دو نقشے دیکھ لیجیے۔ پہلا فلائیٹ ریکارڈ کا ہے جس میں اس وقت (یعنی لائیو) ہوائی ٹریفک ڈیٹا دکھایا گیا ہے۔ ہماری گنتی کے مطابق اس وقت برمودا ٹرائینگل کے اوپر سے دو درجن سے زیادہ جہاز پرواز کر رہے ہیں۔ 

دوسری تصویر بحری ٹریفک کی ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس وقت اس خوفناک، خطرناک اور پراسرار علاقے سے کتنے بحری جہاز اور بجرے اور کشتیاں گزر رہی ہیں۔ ان کی تعداد آپ خود ہی گن لیجیے۔

آخری ثبوت سن لیجیے کہ انشورنس کمپنی سے بڑھ کر کوئی ادارہ نقصان کے بارے میں زیادہ حساس نہیں ہوتا۔ برمودا ٹرائینگل سے ہر ماہ گزرنے والے سینکڑوں جہازوں کی انشورنس کرنے والے ادارے معمول کی انشورنس ہی کرتے ہیں اور ان سے کوئی اضافی پریمیئم نہیں لیا جاتا۔

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین