ایک معروف ایرانی سیاسی رہنما اور تجزیہ نگار فائزه ہاشمی نے کہا ہے کہ ایران میں جمعے کو ہونے والے صدارتی انتخابات دراحقیقت ایک ریفرنڈم کے مترادف تھے کیونکہ آدھے سے زیادہ اہل ووٹرز نے ووٹنگ کے عمل میں حصہ ہی نہیں لیا۔
انہوں نے ملک کے عہدیداروں کو مشورہ دیا کہ وہ لوگوں کی شکایات اور ان کے مطالبات پر دھیان دیں جنہوں نے ووٹ نہ ڈال کر ’شہری انداز‘ میں اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔
ایگزیٹ پول کے اعلان کے چند ہی گھنٹوں کے بعد اںڈپینڈنٹ فارسی سے انسٹاگرام پر ایک انٹرویو میں ہاشمی نے ملک کے اندر اور باہر ایرانیوں کے انتخابات کے بائیکاٹ کی مہم کو ’کامیاب‘ قرار دیا۔
’ایک ریفرنڈم‘
فائزه ہاشمی، جو ایران کے اعتدال پسند اعلیٰ عہدیداروں میں سے ایک آیت اللہ اکبر ہاشمی رفسنجانی کی صاحبزادی ہیں، نے مزید کہا: ’ہمیں اپنے مطالبات کے لیے آواز اور احتجاج کو جاری رکھنا چاہیے اور کبھی پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔ اس کوشش کے نتائج برآمد ہوئے ہیں اور آگے بھی ایسا ہی ہو گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے تہران میں اپنے مشاہدات کا حوالہ دیتے ہوئے انتخابات کے سرکاری نتائج پر شکوک کا اظہار بھی کیا۔
ان کے بقول: ’ووٹنگ سٹیشنز دوپہر تک ویران پڑے تھے لیکن اچانک یہ کہا گیا کہ لوگ دھڑا دھڑ ووٹ ڈالنے پہنچ گئے ہیں جو درست بات معلوم نہیں ہوتی۔‘
ہاشمی، جو ایران کی پارلیمنٹ کی ایک سابق رکن بھی رہ چکی ہیں، نے مزید کہا کہ بہت سارے لوگوں نے خالی ووٹ بھی کاسٹ کیے کیونکہ ان کے حامی امیدواروں کو نااہل قرار دے کر انتخابی دوڑ سے باہر کر دیا گیا تھا یا وہ اس خوف سے پولنگ سٹیشنز پہنچ گئے تھے کہ کہیں انہیں ’انقلاب مخالف‘ نہ سمجھ لیا جائے اور انہوں نے خالی ووٹ کاسٹ کرنا ہی بہتر سمجھا۔
’یہ بات معنی خیز ہے کہ جیتنے والے امیدوار کے بعد ووٹوں کی سب سے زیادہ تعداد خالی یا ضائع شدہ ووٹوں کی ہے اور اسٹیبلشمنٹ کو احتجاج کی اس علامت کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔‘
خارجہ پالیسی، علاقائی تعلقات
ہاشمی نے امید ظاہر کی کہ ایران کے اعلیٰ عہدیداروں نے کم ٹرن آؤٹ سے سبق سیکھ لیا ہو گا اور وہ موجودہ جارحانہ خارجہ پالیسی کو ترک کر کے دنیا کے ساتھ ’مناسب، تعمیری اور دوستانہ رابطوں‘ کو جگہ دیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ طاقتور قدامت پسندوں نے تہران کے خلاف امریکی پابندیوں کے خاتمے کے لیے جوہری مذاکرات کے عمل کو طول دیا تاکہ وہ اس کا سیاسی فائدہ اٹھا سکیں۔
علاقائی ممالک بالخصوص سعودی عرب کے ساتھ ایران کے تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے ہاشمی نے اس بات پر زور دیا کہ ابراہیم رئیسی کی نئی حکومت کو تہران اور ریاض کے مابین بات چیت کے عمل کو جاری رکھنا چاہیے۔
ان کے بقول: ’مجھے یقین نہیں ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ بات چیت کا آغاز سبکدوش ہونے والے صدر حسن روحانی کی حکومت نے کیا تھا جو سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای یا پاسداران انقلاب کور کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ لہذا مجھے امید ہے کہ یہ بات چیت جاری رہے گی اور ایران عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات کو بحال کرنے کے لیے درست سمت میں آگے بڑھے گا۔‘