لاہور دھماکے پر پاکستان کا دوٹوک موقف: وجہ کیا ہے؟

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ افغانستان میں بھارت زخم خوردہ بھی ہے اور پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر سکتا ہے۔

 لاہور کے علاقے جوہر آباد میں 23 جون کو ہونے والے دھماکے میں تین افراد ہلاک ہو گئے تھے (اے ایف پی) 

 

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک لیجیے

لاہور دھماکے کے بعد پاکستان کے دوٹوک اور مضبوط موقف کی شان نزول کیا ہے؟ پاکستان کے زیر انتظام کشمیرکے انتخابات؟ دو طرفہ تعلقات کی بے رحم حقیقتیں یا امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں لڑی جانے والی ممکنہ ’سپر پاور وار؟‘ نیز یہ کہ اب پاکستان بھارت تعلقات کا مستقبل کیا ہے؟

پاکستان نے بہت مختصر وقت میں تحقیقات کر کے کسی لگی لپٹی کے بغیر دوٹوک انداز میں بھارت کو اس کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ حکومتی ناقدین کی جانب سے اسے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے انتخابات سے جوڑا جا سکتا ہے۔ کشمیر میں فاروق حیدر نے موجودہ حکومت کے خلاف فرد جرم کھول رکھی ہے۔

یہ تاثر موجود ہے کہ بھارت کے حالیہ اقدامات کے جواب میں تحریک انصاف کی حکومت نے بین الاقوامی سطح پر کسی خاص کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا، چنانچہ ایک رائے یہ ہو سکتی ہے کہ کشمیر کے انتخابات میں عوامی ردعمل سے بچنے کے لیے حکومت نے اپنی تحقیقات کے نتائج سامنے رکھ دیئے ہیں۔

لیکن یہ رائے صائب نہیں۔ موجودہ حالات میں آپ اسے زیادہ سے زیادہ جزوی سچائی کہہ سکتے ہیں۔ کشمیر کے انتخابات میں ایسے بیانیے کی ضرورت ہوتی تو حکومت لاہور دھماکے سے بہت پہلے ایسا کر چکی ہوتی۔ سیاسی ماحول میں گرمی پیدا کرنے کے لیے اہل سیاست کے پاس کہنے سننے کو بہت کچھ ہوتا ہے، اور اس صورت میں کہنے کے لیے معید یوسف جیسے غیر سیاسی چہرے کی بجائے کسی سکہ بند سیاسی چہرے سے بات کرائی جاتی۔

دو طرفہ تعلقات کی بے رحم حقیقتوں کی بھی نفی نہیں کی جا سکتی۔ تاہم اس موقعے پر معاملات زیادہ سنگین ہیں اور اسے روایتی کشمکش کا عنوان دینا بھی زیادہ سے زیادہ جزوی سچائی ہو سکتی ہے۔ یہ محض دو طرفہ معاملہ ہوتا تو اس طرح واضح انداز میں بات کرنے کی بجائے شاید Quid Pro Quo کا آپشن استعمال کیا جاتا، اور تحقیقات کو فوری طور پر دنیا کے سامنے رکھ دینے کی بجائے کچھ وقت بیٹھ کر یہ سوچا جاتا کہ دستیاب شواہد سے کب کہاں اور کتنے فوائد کشید کیے جا سکتے ہیں۔

اب کی بار معاملہ زیادہ سنگین لگ رہا ہے اور اس کا تعلق افغانستان میں لڑی جانے والی اس ’سپر پاور وار‘ سے ہے جس کے خدوخال بہت خطرناک ہیں۔ امریکی افواج کا انخلا کھیل کا اختتام نہیں، یہ ایک نئے کھیل کا نکتۂ آغاز ہے۔ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ ‘ ختم ہو چکی اب ’ سپر پاور وار‘ شروع ہونے کو ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا میدان افغانستان تھا، ’ سپر پاور وار ‘ میں میدان جنگ کو پاکستان تک وسعت دی جا سکتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

معاملات کو کوئی حتمی شکل دیے بغیر امریکی انخلا بتا رہا ہے کہ افغانستان ابلنے جا رہا ہے۔ وار لارڈز ایک دوسرے سے الجھیں گے اور غیر یقینی کی کیفیت علاقے کو گرفت میں لے لے گی۔ بظاہر یہ مقامی معاملہ ہو گا لیکن اثرات بین الاقوامی ہوں گے۔

خطے میں جہاں امریکہ بروئے کار آیا ہے، وہیں چین روس ایران وغیرہ بھی یقینا کچھ سوچ رہے ہوں گے۔ کوئی مسئلے کو الجھانا چاہتا ہو گا تو کوئی حل بھی کرنا چاہتا ہو گا۔ آخر مزاحمت جاری ہے اور وار لارڈز کے پاس بھی اسلحہ ہے تو یہ اسلحہ کہیں سے تو آ رہا ہے۔

فلسطینیوں کی طرح غلیل والی مزاحمت تک تو بات نہیں پہنچی۔ کوئی معشوق تو ہے اس پردہ زنگاری میں۔

 افغانستان میں بدامنی بڑھتی ہے تو پناہ گزینوں کا ایک سیلاب پاکستان کا رخ کرے گا اور خطرہ یہ ہے کہ بات محض ناہ گزینوں تک نہیں رکے گی، بدامنی کے یہ سیلاب بھی ادھر منتقل ہونے کا خطرہ موجود رہے گا۔ اسی خطرے کو بھانپ کر وزیر اعظم عمران خان نے اپنی فالٹ لائنز بھرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ میں بلوچستان میں شر پسندوں سے بات کرنے کا سوچ رہا ہوں۔ صرف منیر نیازی کا نہیں، یہ ہم سب کا مسئلہ ہے کہ ’ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں۔‘

خطے میں اب کشمکش بڑھ چکی ہے۔ اب کچھ بھی محض دو طرفہ نہیں رہا۔ نہ محض پاک بھارت، نہ محض چین بھارت اور نہ ہی صرف چین امریکہ۔ حریف ڈھیر سارے ہیں۔QUAD  کو آپ نظر انداز نہیں کر سکتے۔ پھر یہ کہ نئے بننے والے اتحادوں کا ٹیسٹنگ گراؤنڈ بھی یہی خطہ ہے جس میں اتفاق سے افغانستان کے ساتھ ایران اور چین بھی موجود ہیں۔ جیسے پاکستان چین کے قریب ہے ویسے ہی بھارت امریکہ کی قربت میں ہے۔ ایسے حالات میں آپ براہ راست امریکہ کو کچھ نہ کہہ سکتے ہوں تو آپ اسے بہت کچھ کہہ دیتے ہیں جسے آپ کچھ کہہ سکتے ہیں۔ پیغام پہنچ جاتا ہے۔ پاکستان نے وہی پیغام پہنچایا ہے۔

پاکستان نائن الیون کے بعد کی نفسیاتی کیفیت سے نکل رہا ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان سے اس کے لیے مسائل نہ پیدا کیے جائیں اور وہاں کی چنگاریاں اس کے آنگن تک نہ آئیں۔ چنانچہ ایک طرف وزیر اعظم یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر طالبان افغانستان پر قابض ہو گئے تو ہم اپنی سرحد بند کر دیں گے اور دوسری طرف بھارت کے ساتھ بھی دو ٹوک انداز سے بات کی جا رہی ہے۔

اس وقت افغانستان میں صرف طالبان اور چند وار لارڈز نہیں، بہت سی قوتیں بروئے کار ہیں۔ وقت بدل چکا ہے۔ نان سٹیٹ ایکٹرز کو تو چھوڑ ہی دیں یہاں ریاستیں بھی اب ایک ’ کنسورشیم ‘ کی صورت بروئے کار آ رہی ہیں۔

جناب وزیر اعظم نے کہا بھارت’ لوزر‘ ہے۔ لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ افغانستان میں وہ زخم خوردہ بھی ہے۔ وہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر سکتا ہے اور اس ضمن میں کوئی ’کنسورشیم‘ اس کی حوصلہ افزائی بھی کر سکتا ہے۔ پریشانی کی بات یہ ہے کہ 90 فیصد باڑ مکمل ہو جانے کے باوجود پاکستان میں حملے بڑھ رہے ہیں۔ بالخصوص فاٹا اور بلوچستان میں۔ پاکستان نے اس ’سپر پاور وار‘ کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے اس دفعہ دوٹوک اور سخت رد عمل دیا ہے۔

آئندہ کچھ مدت تک پاک بھارت تعلقات کا انحصار بھی اس بات پر ہو گا کہ افغانستان میں جاری ’سپر پاور وار‘ کیا رخ اختیار کرتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ