کوئٹہ: لڑکوں کے بھیس میں موٹر سائیکل چلاتی 17 سالہ خدیجہ

روز موٹر سائیکل پر اپنے بہن بھائیوں کو سکول چھوڑنے والی خدیجہ کہتی ہیں کہ ڈرائیونگ لڑکیوں کو بااختیار بناتی ہے اور پبلک ٹرانسپوڑت کی کمی یا ہراسانی جیسے مسائل سے بچاتی ہے۔

17 سالہ خدیجہ روز اپنی موٹر سائیکل پر   تقریباً 22 کلومیٹر کا سفر طے کرتی ہیں(عرب نیوز)

خدیجۃ الکبریٰ لڑکوں کے لباس میں موٹرسائیکل پر کوئٹہ کی بھیڑ سے گزرتے ہوئے اپنے بہن بھائیوں کو ہر روز سکول چھوڑنے جاتی ہیں۔

یہ 17 سالہ خدیجہ کی جدوجہد کی کہانی ہے جن کا تعلق ایک ایسے خطے سے ہے جہاں روایتی طور پر خواتین کے گھر سے باہر نکلنے پر پابندی ہے۔

عرب نیوز کے مطابق نقل و حرکت کے حوالے سے صنفی امتیاز پر ’لندن سکول آف اکنامکس‘ کے 2016 میں کیے گئے مطالعے کے مطابق سماجی بندشوں اور تحفظ کے خدشات کے باعث پورے پاکستان میں خواتین کی نقل و حرکت محدود ہو گئی ہے جہاں سفر کی سرگرمیوں میں 80 فیصد کی غالب اکثریت مردوں پر مشتمل ہے۔

رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے اور پسماندہ ترین صوبے بلوچستان میں خواتین کے لیے حالات مزید ابتر ہیں جہاں صوبائی درالحکومت کوئٹہ میں ٹریفک پولیس نے سال 2021 میں 28 ہزار 700 موٹرسائیکل سواروں کو رجسٹر کیا جن میں ایک بھی خاتون شامل نہیں تھی۔

پولیس کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ 1990 کی دہائی سے کوئٹہ میں خواتین ڈرائیوروں کو صرف تین موٹرسائیکل لائسنس جاری کیے گئے ہیں۔

پاکستان کے ادارہ شماریات کے مطابق بلوچستان میں ورکنگ خواتین کا تناسب صوبے میں خواتین کی کل آبادی کا صرف 5.06 فیصد ہے جو پاکستان میں سب سے کم شرح ہے۔

خدیجہ نے اس حوالے سے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا: ’یہاں بہت ساری لڑکیوں کو ٹرانسپورٹ کے مسائل کی وجہ سے اپنی تعلیم چھوڑنا پڑتی ہے۔ سڑکوں پر لوگوں کی توجہ سے بچنے کے لیے مجھے ایک لڑکے کا بھیس بدلنا پڑتا ہے۔ اس کے لیے میں لڑکوں کے لباس کے ساتھ ٹوپی، دستانے، مردانہ جوتے اور سن گلاسز استعمال کرتی ہوں۔‘

خدیجہ 2015 میں ہائی سکول کا امتحان پاس کرنے کے بعد سے موٹر سائیکل چلا رہی ہیں۔ 12 بہن بھائیوں میں تیسری سب سے بڑی بہن خدیجہ پر اب اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو سکول لے جانے کی ذمہ داری ہے۔ بہن بھائیوں کو سکول چھوڑنے کے بعد وہ اپنی یونیورسٹی پڑھنے جاتی ہیں اس طرح انہیں ہر روز اپنی موٹر سائیکل پر تقریباً 22 کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔

خدیجہ کو موٹر سائیکل چلانا ان کے والد غلام قادر بگٹی نے سیکھایا تھا جو کوئٹہ کے سریاب مل بوائز ہائی سکول میں بطور استاد ملازمت کرتے ہیں۔

 

قادر بگٹی نے بتایا: ’خدیجہ کو صرف 10 سال کی عمر سے موٹرسائیکل کی سواری کرنے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ جب مجھے احساس ہوا کہ میں اپنے بچوں کو روز سکول چھوڑنے نہیں جا سکتا تو میں نے خدیجہ کو موٹرسائیکل سکھانے کا فیصلہ کیا۔ میں ہمیشہ اپنے بچوں خصوصاً بیٹیوں کو تعلیم دینا چاہتا تھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

قادر نے کہا: ’خدیجہ کو لڑکے کا بھیس بدلنے کا مشورہ میں نے ہی دیا تھا کیوں کہ مجھے ان کے تحفظ کے حوالے سے خدشات تھے اور میں نہیں چاہتا تھا کہ انہیں منفی تبصرے سننے پڑیں، کسی سے ان کا جھگڑا نہ ہو اور آوارہ لڑکے ان کا تعاقب نہ کریں۔‘

دوسری جانب پولیس کا کہنا ہے کہ اگر خدیجہ جیسی لڑکیاں اور خواتین آگے آئیں تو فورس ان کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہے۔

سینیئر سپرنٹنڈنٹ ٹریفک پولیس گل سید خان آفریدی نے کہا: ’ہم ان کی مدد کریں گے اور ان کی تربیت کا منصوبہ بنائیں گے۔ کوئٹہ میں متعدد مقامات پر خواتین ٹریفک پولیس اہلکار فرائض سرانجام دے رہی ہیں اور وہ خواتین ڈرائیوروں کی مدد کرتی رہی ہیں۔ اگر خواتین موٹرسائیکل سوار سڑکوں پر آئیں گی تو یقینی طور پر ان کے تحفظ اور مدد کے لیے ٹریفک پولیس موجود ہوگی۔‘

لیکن خدیجہ کا کہنا ہے کہ اس کے لیے معاشرے کی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔ ’میں نے اپنی یونیورسٹی کی دوستوں کے والدین سے اپنی بیٹیوں کو گاڑی چلانے کی اجازت دینے سے کہا ہے۔‘

’یہ (ڈرائیونگ) ہمیں بااختیار بناتی ہے۔ اس آسان سواری (موٹر سائیکل) کے ذریعے ہم پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی یا ہراسانی کا سامنا کیے بغیر ہر جگہ پہنچ سکتے ہیں۔‘

ان کے بقول: ’میری خواہش ہے کہ ایک دن میں کوئٹہ کی سڑکوں پر اپنی موٹرسائیکل پر لڑکیوں کے لباس میں سواری کروں۔ میں شہر میں مزید لڑکیوں کو اپنے لباس میں موٹر سائیکل چلاتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہوں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل