بڑی عید کے بڑے بڑے کام

عید مناتے ہوئے کرونا کو نہ بھولیں۔ وہ ابھی بھی ہمارے درمیان موجود ہے۔ ہم نے اس سے بچاؤ کی احتیاط نہ کی تو وہ تو یہیں رہے گا، ہم کہیں اور پہنچ جائیں گے۔

کراچی میں قربانی کا اونٹ (اے ایف پی)

عید الاضحیٰ یعنی بڑی عید کے کام بھی بڑے بڑے ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے تو قربانی کے لیے مناسب سا جانور ڈھونڈنا جو جیب پر ہلکا پڑے اور رشتے داروں پر بھاری۔

ہر سال جانوروں کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کی وجہ سے یہ گیم الٹی پڑتی جا رہی ہے۔ اب رشتے دار سڑیں نہ سڑیں، جیب ضرور سڑ بلکہ سکڑ جاتی ہے۔

جانور آ جائے تو قربانی کے وقت تک اس کے کھانے پینے کا سامان اور قربانی والے دن قصائی کا خرچہ اور گھر بھر کے کپڑے، جوتے، اور دیگر چیزوں کی خریداری میں بھی اچھے خاصے پیسے صرف ہو جاتے ہیں۔

بڑی عید پر کھانے بھی شاندار بنتے ہیں۔ ان کے لیے  پیاز، ٹماٹر، لہسن، ادرک، دودھ، دہی اور مصالحہ جات کے علاوہ مشروبات اور کئی طرح کے سنیکس کا ان لمیٹڈ سٹاک خریدنا جس کی قیمت عید کے قریب دگنی تگنی ہو جاتی ہے۔

ان اخراجات میں نہ نہ کر کے بھی لاکھوں روپے خرچ ہو ہی جاتے ہیں۔ جو کچھ سال پہلے تک استطاعت رکھتے تھے اب ان کی استطاعت ان کے ہاتھوں سے نکلتی جا رہی ہے۔

ملک کی معیشت کا حال کچھ ایسا ہو گیا ہے کہ نظر اٹھا کر دیکھ لو تو دو درجے نیچے گر جاتی ہے۔ جو آج استطاعت رکھتے ہیں وہ اگلے سالوں کی طرف ڈرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں کہ کیا پتہ تب اس قابل ہوں یا نہ ہوں، پھر بھی کسی نہ کسی طرح عیدِ قربان کا حصہ بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اب آتے ہیں قربانی کی کھال کی طرف جس کو صحیح جگہ پر عطیہ کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

عید کے قریب ہر جگہ ’قربانی اللہ کے لیے، اور کھال ہمارے لیے‘ لکھا نظر آتا ہے۔ جس کی جہاں مذہبی وابستگی ہو، وہ وہیں کھال پہنچا آتا ہے۔

کچھ لوگ اس معاملے میں کافی محتاط ہو چکے ہیں۔ ایسے لوگ کھال عطیہ کرتے ہوئے تسلی کرتے ہیں کہ جسے وہ کھال دے رہے ہیں وہ اس کا صحیح جگہ استعمال کرے گا بھی یا نہیں۔ آپ بھی کھال عطیہ کرتے ہوئے اس بات کا دھیان ضرور رکھیں۔

عید الضحیٰ پر گھر کے کاموں بھی بھی دگنا تگنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ قصائی کے جانے کے بعد گوشت کے حصے کرنا، رشتے داروں اور ضرورت مندوں کے لیے علیحدہ علیحدہ پیکٹ بنانا، گھر کا گوشت دھو کر سنبھالنا، گھر کی دوبارہ سے صفائی کرنا اور پھر عید کی مناسبت سے تین چار اقسام کے کھانے بنانا۔

مرد عموماً گوشت بنانے یا قصائی سے بنوانے کے بعد ایک طرف ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد کے کام ’خواتین کے کام‘ تصور کیے جاتے ہیں۔ حالانکہ کام تو کام ہوتا ہے، اس میں صنفی تفریق کیسی۔ مردوں کو قربانی کے بعد کے کاموں میں بھی حصہ لینا چاہیے تاکہ کاموں کا بوجھ صرف ایک فریق پر نہ پڑے اور سب مل کر عید منا سکیں۔

یہ سب لکھتے ہوئے ہمیں اندازہ ہو رہا ہے کہ بڑی عید بڑے خطرے کا دعوت نامہ بھی ہے۔ جانور کی خریداری سے لے کر، اس کا گوشت بانٹنے اور کھال عطیہ کرنے تک لاکھوں انسانوں کا آپس میں میل جول ہو گا جس سے ملک بھر  میں کرونا کیسوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔

حکومت کو عید الاضحیٰ کے لیے واضح پلان بنانا چاہیے تھا۔ ملک بھر میں سجی مویشی منڈیوں میں جانوروں کی خرید و فروخت کے ساتھ کرونا ایس او پیز کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔

آج، کل اور پرسوں قربانی کرنے والے ہر گھر میں قصائی سمیت کئی انجان افراد کا آنا جانا ہو گا۔ رشتے داروں اور دوست احباب کی آمد و رفت اس کے علاوہ ہو گی۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

غربا میں گوشت کی تقسیم اور کھال دینے کے عمل میں بھی کئی انجان لوگوں سے براہِ راست رابطہ ہوگا۔ پتہ نہیں کس سے کس کو کرونا وائرس منتقل ہو گا اور کتنے لوگ اس بیماری کا شکار ہوں گے۔

اس لیے عید مناتے ہوئے کرونا کو نہ بھولیں۔ وہ ابھی بھی ہمارے درمیان موجود ہے۔ ہم نے اس سے بچاؤ کی احتیاط نہ کی تو وہ تو یہیں رہے گا، ہم کہیں اور پہنچ جائیں گے۔

عید پر پلاؤ بنائیں یا بریانی، آپ کی مرضی ہے۔ اگلی عید اور اس کے بعد آنے والی عیدین پر بھی اپنی من پسند ڈش کھانا چاہتے ہیں تو اس عید پر کرونا سے بچاؤ کے حفاظتی اقدامات کی پیروی کریں۔

 گھر سے باہر کم سے کم جائیں، جانا ہو تو ماسک پہن کر جائیں۔ کسی سے ہاتھ ملانے یا گلنے ملنے سے گریز کریں۔ گھر آ کر اچھی طرح ہاتھ اور منہ دھوئیں۔

اگر آپ کے گھر قصائی نے آنا ہے تو اسے گھر کے ایک حصے تک ہی محدود رکھیں۔ انہیں ماسک پہننے کا کہیں اور خود بھی ان کے پاس بیٹھنا ہو تو ماسک پہن کر اور فاصلہ رکھ کر بیٹھیں۔

اسی طرح مہمانوں سے بھی چپک چپک کر ملنے کی بجائے تھوڑے فاصلے سے ملیں۔ اسی میں آپ کی بھی بھلائی ہے اور آپ کے گھر آنے والے مہمانوں کی بھی۔

جاتے جاتے پھر سے عید مبارک!

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی