پاکستان کے صوبے بلوچستان کے پسماندہ ضلع موسیٰ خیل کے 33 سالہ لطف اللہ مویشیوں کا آن لائن کاروبار کرتے ہیں۔
وہ دوردراز دیہی علاقوں میں جاتے ہیں اور مویشیوں کی تصاویر اور ویڈیوز بنا کر آن لان ان کی قیمتوں سے ساتھ اپلوڈ کرتے ہیں۔ خریدار ان سے رابطہ کرکے اپنی دہلیز پر مطلوبہ جانور وصول کرتے ہیں۔
ڈیجیٹل مارکیٹنگ اور ای کامرس میں ڈپلومہ کرنے والے لطف اللہ نے 2019 میں ضلع موسیٰ خیل میں مویشیوں کی افزائش نسل کے لیے کیٹل فارم کی بنیاد رکھی۔
پھر انہوں نے موسیٰ خیل فارم کے نام سے فیس بک پیج بنا کر مویشیوں کے آن لائن کاروبار کا آغاز کردیا۔
وہ بتاتے ہیں: ’مویشی منڈیوں میں عید قربان کے موقع پر قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں۔ لیکن ہمارے اس آن لائن کاروبار میں نہ صرف قیمتیں مناسب لی جاتی ہیں بلکہ خریداروں کی سہولت کے لیے مویشی مختلف گاہکوں کی دہلیز پر پہنچا دیے جاتے ہیں۔ کیونکہ اس کاروبار میں بیوپاری کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ خریدار گھر بیٹھ کر ارزاں نرخوں پر مویشی پسند اور خرید سکتے ہیں۔‘
سرسبز پہاڑوں، کئی کلومیٹر تک پھیلی قدرتی چراہ گاہوں اور معتدل آب و ہوا کا حامل بلوچستان کی شمال مشرقی سرحد پر واقع ضلع موسیٰ خیل قدرتی حسن کی وجہ سے تو مشہور ہے تاہم یہاں کے مویشی بھی پورے بلوچستان میں منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔ پہاڑوں کے دامن میں چرتے مویشیوں کے گلے میں بندھی گھنٹیوں کی کھنکھناہٹ سے سحرانگیز موسیقی پیدا ہوتی ہے۔
زین اللہ کا تعلق موسیٰ خیل کے ایک دور دراز علاقے نالئی میردازئی سے ہے، ان کے ریوڑ میں 80 بھیڑیں ہیں، اور ان کے گاؤں میں 10 سے 12 ہزار تک بھیڑ بکریاں ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ مویشیوں کو قربانی اور لاندی کے لیے تیار ہونے کے لیے غلہ، گندم، مکئی اور سبز گھاس سے پالا جاتا ہے۔
’ہماری چراہ گاہیں مشترکہ ہیں، یہاں پر زیادہ تر لوگ بھیڑیں پالتے ہیں۔ دو سال کے دنبے کو جس کے دو دانت ہوتے ہیں پشرلئی کہا جاتا جاتا ہے جبکہ چار دانت والے کو مقامی زبان میں دوشرلئی یا لنگ کہا جاتا ہے۔‘
13 سالہ محمد خان توئی سر کے علاقے میں اپنے دو سو دنبے اور 30 بکریاں چراتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ امسال زیادہ بارشیں ہوئیں جس کی وجہ سے علاقہ سرسبز ہے۔ صبح سورج نکلتے ہی لوگ باڑوں سے بھیڑ بکریاں نکالتے ہیں، بھیڑیں اور دنبے الگ کرتے ہیں اور پھر چرائی کے لیے پہاڑوں اور چراہ گاہوں کی طرف لے جاتے ہیں۔ ڈھلتی شام کے وقت واپس مویشی لائے جاتے ہیں، اور باڑوں میں بند کردیے جاتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں: ’ہمارے گاؤں میں سکول نہیں، بچے پڑھنے کے بجائے مال چرائی کرتے ہیں۔ بچے، جوان، بوڑھے اور ہر عمر کے لوگ گلہ بانی کرتے ہیں۔ اور اسی سے گزر بسر کرتے ہیں۔‘
ڈپٹی ڈائریکٹر لائیوسٹاک اینڈ ڈیری ڈویلپمنٹ ڈاکٹر غلام محمود جعفر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ موسیٰ خیل کی 70 فیصد آبادی کا دارومدار شعبہ مالداری پر ہے۔ یہاں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق کل مویشیوں کی تعداد 24 لاکھ ہے اور سب سے زیادہ تعداد بھیڑوں کی ہے، جس میں 12 لاکھ بھیڑیں، سات لاکھ بکرے اور 21 ہزار اونٹ ہیں۔ یہاں بھیڑوں کی موسیٰ خیلی، ببرک، کاکڑی اور وزیری نسلیں جبکہ بکروں میں بربری اور سلیمانی نسلیں موجود ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے بقول: ’وزیر اعظم پروگرام کے تحت ضلع میں دو سو مالداروں کے 50، 50 میمنے منتخب کرکے ان کی ٹیگنگ کی گئی ہے، اور محکمہ کی جانب سے ان کی خوراک کے لیے فیڈز اور علاج معالجے کے لیے ادویات فراہم کی جارہی ہیں۔ وزن بڑھنے یا کم ہونے کو جانچنے کے لیے ہر 15 روز بعد مذکورہ مویشیوں کا وزن کیا جاتا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ اگر لوگ محکمہ حیوانات کو مال چرائی کے لیے زمین فراہم کریں تو اسے فارمنگ کے لیے استعمال کرکے مویشیوں کے دودھ اور اون سے بھی فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ موسیٰ خیل میں عید قربان کے موقع پر سب سے بڑی منڈی جسے مقامی لوگ گنج کہتے ہیں، ہفتہ وار کرکنہ کے علاقے میں لگتی ہے، جہاں ایک دن میں ڈھائی سے تین کروڑ کا کاروبار ہوتا ہے۔ اس تاریخی مویشی منڈی سے بلوچستان سمیت پنجاب اور خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں مویشی بھیجے جاتے ہیں۔
قدرتی چراہ گاہوں کی سرزمین موسیٰ خیل مون سون کے رینج میں واقع ہے۔ اس علاقے کا چھوٹا گوشت (مٹن) صوبے کے دیگر علاقوں سے ذائقے کے لحاظ سے منفرد ہے۔
صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے 450 کلومیٹر کے فاصلے پر خیبرپختونخوا اور پنجاب کے سنگم کے واقع موسیٰ خیل کے قدرتی حسن سے متاثر ہوکر 60 کی دہائی میں صدر ایوب خان کے دور حکومت میں یہاں وفاقی دارالحکومت بنانے کی تجویز بھی پیش کی گئی تھی۔ لیکن موسیٰ خیل کے لوگوں کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔
بہترین آب و ہوا اور 50 لاکھ مویشی رکھنے والے بلوچستان کا یہ ضلع آج بھی مسائل میں گھرا ہے اور یہاں کے لوگ کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
چونکہ صوبے میں شعبہ مالداری کا جدید خطوط پر استوار کرنا محض دفتری فائلوں تک محدود ہے، تو موسیٰ خیل میں ویٹرنری کالج کا قیام، ڈیری اشیا کو درآمد کرنے کا منصوبہ اور جدید وسائل سے آراستہ ویٹرنری ہسپتال کی تعمیر پر تاحال عملدرآمد نہ ہوسکا۔ حتیٰ کہ محکمہ لائیو سٹاک اور ڈیری ڈویلپمنٹ کے دفتر کی خستہ حال عمارت حکومتی بے حسی اور عدم توجہی کی ایک عمدہ مثال ہے۔