ہم کہ ٹھہرے اجنبی

یہ فرض کر لینا کہ عوامی لیگ پاکستان کی دشمن ہے، درست تجزیہ نہیں۔ پاکستان کو بنگلہ دیش سے اپنے تعلقات بہتر اور مضبوط کرنے میں پہل کرنی چاہیے۔

پاکستان میں جماعت اسلامی کے کارکن کوئٹہ میں ستمبر 2016 میں بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کا پتلا نذر آتش کرتے ہوئے۔ اس احتجاج کی وجہ بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے ایک رہنما کی پھانسی تھی۔ (فائل  اے ایف پی)

بنگلہ دیش اور پاکستان کا معاملہ ایسا ہے جیسے ایک گھر میں دو رہنے والے بھائیوں نے علیحدگی اختیار کرلی ہو۔ اگر علیحدگی شدید تلخیوں کے ساتھ ہوئی ہو تو تعلقات کی بحالی میں کافی وقت لگتا ہے۔ تعلقات کی بحالی میں اس بھائی کا کردار اہم ہوتا ہے جس کے نامناسب رویے کی وجہ سے دوسرے بھائی نے علیحدگی اختیار کی ہو۔

اس لیے یہ اہم ہے کہ پاکستان کو بنگلہ دیش سے اپنے تعلقات بہتر اور مضبوط کرنے میں پہل کرنی چاہیے۔ اس سلسلے میں ہمیں شیخ حسینہ کی عوامی لیگ کے ساتھ اپنے روابط کو گہرا کرنا ہو گا۔ ہمارے پالیسی سازوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ بنگلہ دیش کے ساتھ ہمارے تعلقات میں بہتری صرف بیگم خالدہ ضیا کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی دور حکومت میں ہی ہو سکتی ہے۔ یہ سوچ درست نہیں ہے۔ بھارت کے ساتھ عوامی لیگ کے گہرے تعلقات بھی ہمارے شکوک میں اضافہ کرتے ہیں۔ ہمیں اس سوچ کو بھی تبدیل کرنا ہو گا کہ بنگلہ دیش کی حکمران جماعتیں اگر بھارت سے بہتر تعلقات چاہتی ہیں تو پاکستان سے اچھے تعلقات نہیں برقرار رکھنا چاہیں گی۔

جس طرح ہم اپنی حکومت اور سیاسی جماعتوں کو ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات میں آزادی اور ہمارے مفادات کا تحفظ چاہیں گے وہی حق ہمیں ان ملکوں کی حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کو بھی دینا چاہیے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہمیں عوامی لیگ کے ساتھ روابط بڑھانے چاہییں کیونکہ بنگلہ دیش کی موجودہ سیاسی صورتحال کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ عوامی لیگ نے کافی عرصہ حکومت کرنی ہے۔

ہمیں بنگلہ دیش کی سیاست میں بھی جانبداری سے پرہیز کرنا چاہیے۔ عوامی لیگ کی حکومت کو 2014 کے انتخابات جیتنے پر مبارک باد نہ دینے کا پچھلی حکومت کا فیصلہ غیر دانشمندانہ تھا۔ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے خلاف چلنے والے مقدمات پر بھی ہمیں بیانات دینے کی ہرگز ضرورت نہیں تھی۔ یہ ایک آزاد ملک کے فیصلے تھے اور ہمیں ان پر خاموش رہنا ہی بہتر تھا۔ یقیناً ہم بھی اپنے عدالتی فیصلوں پر کسی دوسرے ملک کی تنقید یا مداخلت کو پسند نہیں کریں گے۔

بنگلہ دیشی وزیرِ اعظم پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہاں ہیں: سابق سفیر رفیع الزمان صدیقی


یہ فرض کر لینا کہ عوامی لیگ پاکستان کی دشمن ہے، درست تجزیہ نہیں۔ ہمارے بنگلہ دیش میں آخری سفیر رفیع الزمان صدیقی نے اپنے ایک حالیہ ٹی وی انٹرویو میں بتایا کہ وزیراعظم شیخ حسینہ کے ساتھ ان کی ملاقات جو دس منٹ کے لیے طے تھی تقریباً 70 منٹ تک جاری رہی۔ یہ ملاقات ایک انتہائی مثبت قدم تھا جس سے محسوس ہوتا تھا کہ وزیر اعظم بنگلہ دیش پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے کی خواہش مند تھیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ عوامی لیگ نے پاکستان کے لیے اپنے دروازے مکمل طور پر بند نہیں کیے۔

ہمارے اس رویے کی وجہ سے سے تقریباً 15 مہینوں سے بنگلہ دیش میں ہمارا کوئی سفیر نہیں ہے۔ حکومت پاکستان نے مسز ثقلین سیدہ کو پچھلے سال سفیر نامزد کیا تھا لیکن تقریباً چھ ماہ کے انتظار کے بعد بنگلہ دیشی حکومت نے انہیں قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ دوسرے سفیر کی نامزدگی اب تک نہیں کی گئی ہے۔ میرے خیال میں سابق سفیر رفیع الزمان صدیقی کو ان کے متبادل سفیر کی قبولیت سے قبل واپس بلانے کا فیصلہ درست نہیں تھا۔

وزارت خارجہ کو یہ معلوم تھا کہ موجودہ تعلقات کی نوعیت کی وجہ سے نئے سفیر کی قبولیت میں بہت وقت لگے گا اور ایک اہم سفارت خانہ بغیر سفیر کے کام کر رہا ہو گا۔ اس کے باوجود رفیع الزمان صدیقی کو واپس بلا لیا گیا۔ حالانکہ کئی مثالیں موجود ہیں کہ سفیروں کو ریٹائرمنٹ کے باوجود مخصوص حالات کے پیش نظر اپنی ذمہ داریاں نبھاتے رہنے کے لیے کیا جاتا رہا ہے۔ ہمارے بیجنگ اور ماسکو میں سفرا ریٹائرمنٹ کے باوجود اپنی ذمہ داریاں اب تک ادا کر رہے ہیں۔ اب بھی ممکن ہے کہ بنگلہ دیشی حکومت نئی نامزدگی کو قبول نہ کرے یا اسے قبول کرنے میں بہت دیر لگا دے جس سے مزید وقت ضائع ہو گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ وزارت خارجہ ایسے اہم فیصلے کرنے میں تدبر سے کام لے۔

پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں دو بڑی رکاوٹیں ہیں۔ یہ رکاوٹیں عوامی لیگ کی حکومت میں اور اہمیت اختیار کر جاتی ہیں۔ بنگلہ دیشی حکومت کا مطالبہ یہ ہے کہ حکومت پاکستان 1971 میں پیش آنے والے واقعات کی معافی مانگے اور تاوان ادا کرنے کے ساتھ ساتھ مبینہ ’مجرموں‘ کو سزا بھی دے۔ مختلف وجوہات کے باعث کسی بھی پاکستانی حکومت کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں رہا۔ جنرل مشرف نے البتہ 2002 میں بنگلہ دیش کے دورے میں 1971 کے واقعات پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔ لیکن یہ بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت کے لیے کافی نہیں ہے۔

ہمارے باہمی تعلقات کی بہتری کے لیے ضروری ہے کہ ان معاملات پر مذاکرات کیے جائیں گے اور عوامی لیگ کی قیادت کو باور کرایا جائے کہ اس مشق کا دونوں ملکوں کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اس سلسلے میں دوست ممالک کی خدمات بھی حاصل کی جا سکتی ہیں۔ چند بنگالی رہنما جو پاکستان میں مقیم ہیں ان سے بھی رجوع کیا جا سکتا ہے۔ مذاکرات کا آغاز کسی غیر جانبدار جگہ پر کیا جا سکتا ہے۔

ہماری نئی حکومت پچھلی حکومت کے فیصلوں سے ہٹ کر تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے پہل کر سکتی ہے کیونکہ موجودہ حکومت کے بارے میں بنگلہ دیشی حکومت کو کم بدگمانیاں ہوں گی۔ عین ممکن ہے کہ باہمی تعلقات بہتر بنانے میں کامیاب پیش قدمی ہو سکے۔

باہمی تعلقات میں بہتری دونوں ملکوں کے لیے سیاسی اور معاشی طور پر فائدہ مند ہو گی۔ اچھے تعلقات خصوصاََ سارک کا تناظر بہت اہم ہیں۔ کیوںکہ یہ تنظیم اس وقت تقریباً ایک غیر ضروری اور ناکام ادارہ بن چکی ہے اور اس کی مکمل بحالی علاقائی تعاون کے لیے ازحد ضروری ہے۔ اچھے تعلقات اس لیے بھی مفید ہوں گے کہ اس سے دونوں ملکوں کے شہریوں کے سفر میں بھی آسانی ہو گی جو کہ اس وقت کافی مشکلات کا شکار ہیں۔ سب سے اہم ہمارے تاریخی اور جذباتی تعلقات ہیں جو کبھی بھی ختم نہیں ہو سکتے۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر