عکس پر اترانے والوں کا انجام

افغانستان میں طالبان کا طلوع واشنگٹن کی شکست فاش ہے۔ جلد ہی امریکہ کو احساس ہو جائے گا کہ فلسطین میں صہیونی قبضہ بھی ایک گناہ بے لذت ہے، جس میں انکل سام کو رو سیاہی کے سوا کچھ نہیں ملنا!

18 مئی 2006 میں  غزہ شہر میں حماس کی قیادت والی حکومت کی جانب سے تشکیل دی گئی سکیورٹی فورسز کے ساتھ فورس 17 یونٹ کے اہلکار نگرانی کر رہے ہیں۔ محمود عباس کی سربراہی میں آج سے 14 برس پہلے امریکی سرمائے سے قائم کی جانے والی سکیورٹی فورس بھی افغانستان کی طرح اتاری گئی جس کا شیرازہ بھی تاش کے پتوں کی طرح بکھرا (اے ایف پی)

امریکیوں کو قدرے تاخیر اور پس وپیش کے بعد یہ حقیقت معلوم ہوگئی ہے کہ کسی قابض طاقت کے مفادات کا تحفظ کرنے والی فوج یا سکیورٹی اداروں کی تشکیل جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ افغانستان میں رونما ہونے والے حالیہ واقعات نے ہماری اس بات پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔

محمود عباس کی سربراہی میں آج سے 14 برس پہلے امریکی سرمائے سے قائم کی جانے والی سکیورٹی فورس کو غزہ میں اتارا گیا۔ افغانستان کی طرح فلسطین میں اتاری گئی اس فوج کا شیرازہ بھی تاش کے پتوں کی طرح بکھرا اور مزاحمت کرنے والے غزہ کے باسیوں نے اس فوج کو شکست فاش سے دوچار کیا۔

فلسطین اور افغانستان کی جداگانہ تاریخ اور جغرافیائی حالات کے باوجود ان دنوں ملکوں میں رونما ہونے والے واقعات میں کافی حد تک مماثلت پائی جاتی ہے، جس سے فلسطین اور افغانستان میں امریکی تجربات کی ناکامی کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ آیئے! عکس پر اترانے والے امریکہ بہادر کو حقائق کی روشنی میں آئنیہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

یادش بخیر! اکتوبر 2001 میں طالبان نے اس وقت کی امریکی انتظامیہ (بش جونیئر) کے سامنے متعدد بار سیاسی عمل میں اپنی شمولیت کی خواہش کا اظہار کیا، جسے انہوں نے کمال نخوت سے دھتکار دیا۔

پھر اسی سال (2001) دسمبر کے مہینے میں امریکی کوششوں سے افغانستان میں اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھائے جانے والے حامد کرزئی سے سینیئر طالبان قیادت نے ملاقات کی، جس میں جنگجو گروپ نے ہتھیار چھوڑ کر سیاسی عمل میں شرکت کی خواہش کا اعادہ کیا۔

اس وقت کے امریکی وزیر دفاع ڈونلڈ رمزفیلڈ نے طالبان کی کرزئی حکومت کے سامنے پیش کی گئی تجویز کو بھی درخو اعتنا نہ جانا۔ طالبان نے حوصلہ نہیں ہارا اور وہ 2002 سے 2004 تک سیاسی عمل میں اپنی شرکت کے لیے کھلے اور چھپے اندار میں حامد کرزئی پر زور ڈالتے رہے۔

کرزئی نے اپنے تیئں نیم دلانہ کوشش کرکے امریکہ سے طالبان کو سیاسی عمل میں شریک کروانے کی منظوری چاہی، لیکن شنوائی نہ ہوئی اور سیاسی عمل میں شرکت کی تمام خواہشات کو مستقل بنیادوں پر مسدود کرنے کے لیے بالآخر امریکہ نے طالبان پر پابندی لگا دی۔

ادھر فلسطین میں بش انتظامیہ کا کچھ ایسا ہی رویہ مزاحمت، بالخصوص اسلامی تحریکِ مزاحمت (حماس) کے ساتھ رہا۔ فلسطین میں حماس نے 2006 میں مغربی جمہوری معیار کے مطابق انتخاب میں نمایاں کامیابی حاصل کی تو امید کی جا رہی تھی کہ ان کی یہ کامیابی جمہوری پراسیس میں عمل انگیز کا کام کرے گی مگر امریکہ کا رویہ حماس کے خلاف مزید سخت ہو گیا۔

حامد کرزئی حکومت کی طرح، امریکہ نے فلسطینی اتھارٹی کو بھی حماس سے راہ و رسم بڑھانے کی اجازت نہ دی۔ فلسطینی مجلس قانون ساز میں دو تہائی اکثریت کے باوجود حماس نے اپنی حریف جماعت ’فتح‘ کو اتفاق رائے کی قومی حکومت میں شامل کرنا چاہا، لیکن بظاہر امریکی ایما پر فلسطینی اتھارٹی نے یہ پیش کش مسترد کر دی۔

ایسے میں اعلیٰ ظرفی کا تقاضا ہے کہ آج امریکہ افغانستان اور فلسطین میں جمہوری عمل کو ناکامی سے دوچار کرنے کی ذمہ داری قبول کرے۔ دونوں ملکوں میں سیاسی مخالفین کو امریکی بیساکھیوں پر کھڑی حکومتوں کے قریب نہ پھٹنکے دینے کی امریکی پالیسی نے قومی اتحاد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور سکیورٹی فورسز کو سیاسی مخالفین کا سر کچلنے کے لیے استعمال کرنے کی پالیسی نے تقسیم کی خلیج کو مزید وسیع کیا۔

فلسطین میں امریکہ کے پہلے سکیورٹی کو آرڈی نیٹر لیفٹیننٹ جنرل ولیم وارڈ نے امریکی سینیٹ میں خارجہ تعلقات کی کمیٹی کو بتایا کہ ’فلسطینی اتھارٹی کا سکیورٹی کا شعبہ اپنے فرائض کماحقہ ادا نہیں کر رہا۔ اس کا سربراہ حکومت کی بجائے انفرادی طور پر وفاداری کا دم زیادہ بھرتا ہے۔ وہ مرکزی کمان کے احکام بجا لانے کے بجائے افراد کی تابعداری کرتا ہے۔‘

افغانستان کی کمبائنڈ جوائنٹ ٹاسک فورس کے چیف آف سٹاف جنرل (ریٹائرڈ) سٹین لے میک کرسٹل بھی کابل کے سکیورٹی آپریٹس سے متعلق ایسے ہی خیالات رکھتے تھے: ’افغانستان کی قومی فوج کو امریکی ساز وسامان اور تربیت دی گئی لیکن انہیں افغانستان کے طول وعرض میں ایسے مستقل ناکوں پر کھڑا کیا جاتا جہاں وہ طالبان کے لیے تر نوالہ ثابت ہوتے۔‘

افغانستان کی قومی پولیس سروس کا ذکر کرتے ہوئے جنرل سٹینلے کہتے ہیں ’کہ کمزور قیادت اور کرپشن اس کا بنیادی خاصہ تھے۔ اس فورس کو مجلس قانون ساز کے ارکان کے تحفظ اور پروٹوکول کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ قانون کی عمل داری میں اس فورس کا کردار خال خال ہی دکھائی دیتا ہے۔‘

فلسطین اور افغانستان کی نوازئیدہ سکیورٹی فورسز کا یہ مشترکہ مخمصہ رہا ہے کہ انہیں غلط استعمال کیا گیا۔ یعنی جس مقصد کے لیے انہیں ترییت دے کر کھڑا کیا گیا، اس کے بجز ان سے ہر کام لیا جاتا رہا۔

فلسطینی سکیورٹی فورسز کو ایک ہی  وقت میں اسرائیل اور اپنے ہم وطنوں کے مفاد کے تحفظ جیسے متضاد کام سونپے گیے تھے۔ اسی طرح افغان سکیورٹی فورسز کو باغیوں کے مقابلے میں منشیات فروشوں کا قلع قمع کرنے اور افیون کی کاشت رکوانے جیسی ڈیوٹی سونپی گئی۔ افغان سکیورٹی فورسز کو پشتون علاقوں میں القاعدہ کا پیچھا کرنے میں امریکی فورسز کو تعاون فراہم کرنے کا بھی پابند بنایا گیا۔

برسوں سے جاری جنگ میں ہونے والی ہلاکتوں اور تباہی کے باوجود امریکیوں کو یہ بات آج بھی واضح طور پر معلوم نہیں ہوسکی کہ انہیں ایسی سکیورٹی فورس سے کون سا اہم کام لینا تھا؟

صدر بش نے نائن الیون کے بعد نومبر 2003 میں وائٹ ہاؤس میں ہونے والے تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’جمہوریت سے متعلق ہماری کمٹمنٹ کا امتحان مشرق وسطی میں لیا جا رہا ہے۔‘ انہوں نے جمہوریت کو اگلے کئی برسوں تک اپنا فوکس قرار دیتے ہوئے شرکا پر زور دیا کہ وہ بھی اسے حرز جاں بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اب دو دہائیاں گزرنے کے بعد طالبان نے افغانستان کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرلیا ہے۔ صدر جو بائیڈن امریکیوں کو مشکوک انداز میں بتا رہے ہیں کہ ’افغانستان میں متحدہ جمہوریت کا قیام کبھی ہماری منزل نہیں رہی۔‘

جنرل میک کریسٹل کو کیا مشن سونپا گیا تھا، اس کا عقدہ بھی حالیہ دنوں میں افغانستان کے اندر سامنے والی پیش رفت میں کھل گیا ہے۔ امریکی جریدہ ’فارن افیئرز‘ میں وہ لکھتے ہیں کہ ’ہم نے افغانستان پر حملہ القاعدہ اور اس کی میزبان طالبان رجیم کو تباہ کرنے کے لیے کیا۔‘

اگلے ہی سانس میں وہ کہتے ہیں کہ ’مشن کے مطابق انہیں اپنی آزادی کا دفاع کرنے والی افغان قوم تشکیل دینا تھی۔ اس قوم کا اوڑھنا بچھونا جمہوریت، خواتین کی تعلیم اور افیون کی پیدوار کا خاتمہ قرار دیا گیا تھا۔‘

دنیا میں فوجی طاقت کے ذریعے قبضے جمانے والی سپاہ جس ملک سے بھی تعلق رکھتی ہو، بالیقین آزادی اور ترقی کی دشمن ہوگی۔ ایسی فوج اگر اپنے تصرفات میں انتہائی سخاوت کا مظاہرہ بھی کرے تب بھی وہ جمہوریت کو کبھی فروغ نہیں دے گی۔

فلسطین اور افغانستان ایسی فوج کی نمایاں مثالیں ہیں۔ پوری تاریخ میں ان ملکوں کے عوام نے کئی حملہ آور اور قبضے دیکھے۔ اب دو دہائیوں بعد امریکہ کا سانس پھولنا شروع ہو گیا ہے۔

افغانستان میں طالبان کا دوبارہ ظہور واشنگٹن کی شکست فاش ہے۔ انہیں جلد ہی احساس ہو جائے گا کہ فلسطین میں صہیونی قبضہ بھی ایک گناہ بے لذت ہے، جس میں روسیاہی کے علاوہ ان کے حصے میں کچھ نہیں آئے گا!

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ