فلسطین زرخیز ہلال کا چھوٹا سا لیکن نہایت اہم ٹکڑا ہے۔ زرخیز مٹی اور بحیرہ روم کی آب و ہوا سے مالامال مشرق وسطیٰ کا یہ ملک تہذیب کا گہوارہ سمجھا جاتا ہے، ایک ایسا خطہ جہاں آج سے تقریباً دس ہزار سال پہلے اپنی مرضی کے پودے لگانے اور جانوروں کو سدھانے سے انسانوں کو یہاں آباد ہونے اور تہذیب کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔
یورپ، ایشیا اور افریقہ کے درمیان واقع ہونے اور مختلف قسم کے ماحول کے سبب مقبوضہ فلسطین بحیرہ روم کے حیاتیاتی نظام میں تنوع کا ایک معروف مرکز بن چکا ہے۔
ادارہ برائے ماحولیاتی معیار کے مطابق حیاتیاتی نظام میں تنوع کے اعتبار سے یہ خطہ دنیا کی تین فیصد شرح کا مالک ہے اور گندم، جو، انگور، زیتون، پیاز اور دالوں کی جنگل کے عہد سے چلی آتی مختلف اقسام کی فصلوں کے جینیاتی تنوع کا اہم مرکز ہے۔
مختلف مقامات سے نقل مکانی کرکے آنے والے پرندوں جیسے سارس اور پیلیکان کے لیے بھی یہ خطہ بہت اہمیت رکھتا ہے جہاں پرندوں کی 520، ممالیہ جانوروں کی 70 سے زائد اور پودوں کی 2700 نسلوں کے علاوہ رینگنے والے جانوروں، خشکی اور پانی دونوں جگہ پر زندہ رہ سکنے والے جانوروں اور کیڑوں مکوڑوں کی ہزاروں اقسام پائی جاتی ہیں۔
اگرچہ آبادی کا نصف فلسطینیوں پر مشتمل ہے لیکن اس کے باوجود وہ اپنی تاریخی سرزمین کا 15 فیصد سے بھی کم حصہ استعمال کر رہے ہیں اور مسلسل اسرائیلی قبضے کی بدولت کئی دہائیوں سے اپنی سرحدوں اور قدرتی وسائل تک رسائی اور اختیار سے محروم رکھے جا رہے ہیں۔
ایک ایسا خطہ جہاں پہلے ہی بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور کم ہوتی بارشوں کی صورت میں موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات محسوس کیے جا رہے ہیں وہاں ان اختیارات کی کمی سے نہ صرف مقبوضہ زمینیں بلکہ فطری حیات بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔
خود اس زمین، حیاتیاتی نظام کے تنوع اور دو ریاستی حل کو بھی اس زمین کی ضبطگی سے خطرات لاحق ہیں جہاں دنیا بھر سے آنے والے یہودی مہاجرین کی بستیاں بنتی جا رہی ہیں۔
زرعی زمین کے ہزاروں ہیکٹرز باہر سے آنے والے آبادکاروں کی بستیوں اور دیگر متعلقہ تعمیرات کے لیے ہتھیا لیے گئے ہیں اور یہ دونوں کام عالمی قوانین کے تحت غیر قانونی ہیں۔ بعض اوقات فطرت کو نقصان سے بچانے یا ’فائرنگ زون‘ بن جانے کا بہانہ بنا کر بعد میں آبادکاروں کی بستیوں کے لیے جگہ فراہم کر دی جاتی ہے۔
یہ بستیاں اور ان میں بسنے والے آبادکاروں کو چیک پوائنٹس، خاردار تاروں اور بھاری اسلحے سے لیس اسرائیلی فوج کے ذریعے تحفظ فراہم کیا جاتا ہے جو فلسطینیوں کو ان حفاظتی انتظامات والی جگہوں کے آس پاس آنے سے روکتے ہیں اور اس طرح ان علاقوں میں قابل کاشت زمین ویسے ہی پڑی رہ جاتی ہے۔
بستیاں قائم کرنے کا منصوبہ اس وقت شروع ہوا جب 1967 میں اسرائیل نے فلسطین کی تاریخی یادگاریں مغربی کنارے، مشرقی بیت المقدس اور غزہ پر قبضہ کیا اور اب آبادکاروں کی تعداد چھ لاکھ 80 ہزار سے متجاوز ہو چکی ہے۔ ان کی تعداد بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے جس کے متعلق دائیں بازو کا اسرائیلی سیاسی طبقہ پرامید ہے کہ یہ آبادی ایک ملین تک پہنچ جائے گی۔
یہ بے لگام توسیع فلسطین کے محدود قدرتی وسائل پر شدید دباؤ کے علاوہ ماحولیاتی نظام اور جنگلی حیات کے لیے بھی خطرہ ہے، تاہم اس میں کمی کے آثار نظر نہیں آتے جیسا کہ محض 2020 میں 12 ہزار نئی بستیوں کے منصوبوں کا اعلان کیا گیا۔ 2014 میں مقبوضہ فلسطین کے 160 مربع کلومیٹر جنگلی رقبے پر بستیاں آباد کر دی گئی تھیں۔ تیز رفتار نئی بستیوں کی وجہ سے بلاشبہ ان اعداد و شمار میں اضافہ ہوا ہو گا لیکن حالیہ اعداد و شمار دستیاب نہیں۔
جبل ابو غنیم 1996 سے پہلے جنگلی پہاڑی چوٹی اور مشہور فلسطینی سیاحتی مقام تھا۔ اب یہاں فلسطینوں کے داخلے پر پابندی ہے اور یہ علاقہ درختوں سے خالی ہے۔ اس کی جگہ اب ہار ہوما بن چکی ہے جو تقریباً 15 ہزار آبادکاروں پر مشتمل یہودی بستی ہے۔ بیت اللحم کے شمالی جانب مزید توسیع کی منصوبہ بندی ابھی جاری ہے تاکہ اس شہر کا رابطہ بیت المقدس سے منقطع کر دیا جائے۔
آلودگی میں اضافے کا ایک اہم سبب یہ بستیاں بھی ہیں۔ بہت سوں کے پاس گندا پانی صاف کرنے والی مشینیں پرانی ہیں یا سرے سے ہیں ہی نہیں، اس کی جگہ غیر قانونی طریقے سے جزوی صاف یا گندے پانی کی بھاری مقدار بہائی جاتی ہے جس کا اثر فلسطینی لوگوں اور زمینوں پر ہوتا ہے۔
آبادکاروں کی بستیوں سے آنے والا آلودہ پانی مغربی سرحد کو گندا کرنے کی سب سے بڑی وجہ ہے جس میں ڈیٹرجنٹس، بلیچ پروڈکٹس اور کیڑے مار ادویات جیسے نقصان دہ مادے اور اکثر اوقات کثیر مقدار میں فضلہ بھی شامل ہو سکتا ہے۔
مصنوعات میں شامل غیر ضروری بیکٹیریا اور دیگر کیمیائی عناصر پانی کے ذخائر کو آلودہ کرتے اور سطح زمین کو بری طرح تباہ کرتے ہوئے اس کی پیداوار کو متاثر اور یہاں تک کہ فصلوں کو ختم کر دیتے ہیں۔
اسرائیلیوں کو فائدہ پہنچانے والی ذیلی سڑکوں کی تعمیر کے نام پر فلسطینیوں سے مزید زمین لی جا رہی ہے جو ان بستیوں کو آپس میں اور اسرائیل کے ساتھ ملاتی ہیں۔ ماحولیاتی نظام کی تباہی کے باوجود چونکہ ان سڑکوں کا اضافہ آبادکاروں کی بستیوں کے لیے انتہائی ضروری ہے سو اسرائیلی حکومت مغربی کنارے پر سینکڑوں کلومیٹر سڑکوں کی تعمیر کے منصوبوں کی بڑھ چڑھ کر حمایت کر رہی ہے۔
اگرچہ غزہ میں بستیاں قائم نہیں کی گئیں لیکن گندے پانی سے پھیلنے والی آلودگی کا مسئلہ یہاں بھی اچھا خاصا ہے۔
غزہ واٹر اینڈ انوائرمنٹ کوالٹی اتھارٹی کے سربراہ بہا الاغہ کہتے ہیں کہ ’غزہ پر ایک دہائی سے زائد عرصے پر محیط محاصرہ آلودہ پانی کی صفائی کے عمل میں رکاوٹ کا باعث ہے، سو ہمیں اسے ویسے ہی خام یا جزوی صاف حالت میں خارج کرنا پڑتا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر غزہ میں ایک لاکھ 60 ہزار کیوبک میٹر گندا پانی ہوتا ہے، جس میں سے تقریباً تین چوتھائی صحیح طرح صاف نہیں کیا جاتا۔‘
وہ کہتے ہیں: ’حالیہ جارحیت کے سبب گندے پانی کو اکٹھا کرنے، پمپنگ، صفائی اور توانائی پہنچانے والی تاریں بری طرح متاثر ہوئی ہیں، جس کے بعد اب یہ آلودہ پانی خام حالت میں ہی غزہ کے ساحل پر چھوڑ دیا جاتا ہے جو جارحیت سے پہلے جزوی طور پر صاف کیا جاتا تھا۔‘
’یہ عمل لوگوں کی صحت خطرے میں ڈال دیتا ہے خاص طور پر جب آپ جانتے ہوں کہ گرمیوں میں غزہ کے زیادہ تر افراد کے لیے لمحہ بھر فرصت گزارنے کا واحد مقام یہی ساحل ہے۔‘
آلودگی پھیلانے والی کمپنیوں کو اسرائیل میں سخت قانونی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن مقبوضہ علاقوں میں ایسا نہیں ہے، جہاں ایک طرف اسرائیل ٹیکسوں میں چھوٹ اور حکومتی سبسڈی جیسی فراخ دلانہ اقتصادی ترغیبات پیش کرتا ہے تاکہ وہ نئی بستیوں میں صنعتیں لگائیں وہیں دوسری طرف ان آلودگی پھیلانے والی کمپنیوں کو زیادہ آسان اور منافع بخش سہولیات اسرائیل کے بجائے مغربی کنارے میں مہیا کی جاتی ہیں تاکہ یہ ایسی صنعتیں یہاں لگائیں اور چلائیں۔
اس وقت فلسطینی سرزمین پر مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس میں 19 اسرائیلی صنعتی مراکز قائم ہیں جو عالمی قوانین کے تحت قائم کرنا اور چلانا غیر قانونی سمجھا جاتا ہے۔ ان صنعتوں کی بدولت مختلف قسم کے خطرناک کچرے اور سیوریج کے پانی کے علاہ بیماریاں پھیلاتا طبی کچرا، دھاتیں، بیٹریاں، سالوینٹس (مادوں کو گلانے والے اجزا) اور استعمال شدہ آئل جیسا کچرا پیدا ہوتا ہے، جو اسرائیل سے مغربی کنارے پہنچتا ہے جہاں وہ لوگوں اور ماحول دونوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔ یہ جینیوا کنونشن اور باسل کنونشن کی خلاف ورزی ہے جن کے اسرائیل اور فلسطین دونوں فریق ہیں۔
ای کچرا یا الیکٹرانکس کچرا آلودگی کا ایک اور بڑا سبب ہے۔ اسرائیل میں تقریباً 57 ہزار سے 69 ہزار ٹن سالانہ کچرا پیدا ہوتا ہے جسے فلسطینی دیہاتوں میں صاف کیا جاتا ہے جس سے بھاری دھاتیں اور آلودہ اشیا پانی اور مٹی میں شامل ہو جاتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی لائحہ عمل کے مطابق 2023 سے پہلے اس الیکٹرونکس کچرے سے فلسطین کو ترجیحاتی بنیادوں پر بچانے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ مقامی جانوروں، پودوں اور انسانوں کی صحت کے لیے شدید نقصان دہ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی مرکز برائے انسانی حقوق ’بتسلیم‘ کے جائزے کے مطابق آلودگی پھیلانے والے پلانٹس کو کسی ضابطے کے تحت لانے کے معاملے پر عدم مساوات برتا جاتا ہے جس میں کچرے کو صاف کرنے والی فیکٹریاں بھی شامل ہیں۔
پہلی چیز فضائی آلودگی ہے۔ اسرائیل میں موجود فضائی آلودگی کے سخت قوانین مقبوضہ فلسطین کے ان علاقوں پر لاگو نہیں ہوتے جہاں آبادکاروں کی بستیوں میں صنعتی مراکز ہیں۔
دوسرا، جب خطرناک کچرے کو اسرائیل میں صاف کیا جاتا ہے تو اس کی نوعیت اور مقدار، صفائی کا طریقہ کار، آلودہ پانی کی منزل اور اشیا کی مقدار اور خطرے کے امکانات سب ریکارڈ کیے جاتے ہیں جبکہ مغربی کنارے میں ان میں سے ایک چیز کا حساب بھی نہیں رکھا جاتا اور سرکاری سطح پر ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں پہنچنے والے کچرے کے اعداد و شمار بھی میسر نہیں۔
عدم مساوات کی اس روش کی بدولت اسرائیل کی سب سے زیادہ آلودگی کا سبب بنے والی صنعتیں فلسطینی علاقوں میں منتقل ہو گئی ہیں۔ زرعی استعمال کے لیے کیمیائی مرکبات تیار کرنے والی گیشری انڈسٹریز زہریلے مواد کے اخراج کے سبب عدالتی حکم پر اسرائیل میں بند کر دی گئی تھی لیکن جگہ تبدیل کرتے ہوئے یہ مغربی کنارے میں دوبارہ لگا دی گئی جہاں یہ ماحول اور انسانی صحت پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔
حالیہ برسوں میں فلسطینی سرزمین پر تابکاری عناصر ملے ہیں جو دنیا بھر میں پائے جانے والے ان عناصر کی بلند ترین سطح میں شامل ہیں۔ اسرائیل کا ایٹمی ری ایکٹر ڈیمونا مشرق وسطیٰ کے بڑے ری ایکٹرز میں سے ایک ہے اور مزید پھیل رہا ہے۔ اگرچہ یہ اپنی متوقع مدت حیات سے پہلے ہی 20 برس زیادہ نکال چکا ہے۔
فرینڈز آف دی ارتھ پیلسٹائن اینڈ پینگون (Friends of the Earth Palestine and Pengon) کی شائع کردہ ’جوہری آلودگی ارض فلسطین کو زہریلا کر رہی ہے‘ نامی تحقیق کے مطابق کئی جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل کی جوہری اور کیمیائی صنعتیں غزہ اور مغربی کنارے میں تابکاری مواد اور خطرناک کیمیکلز کا سبب بن رہی ہیں۔
ہیبرون کے آس پاس کے علاقوں میں مٹی، چٹانیں، پودے اور پانی انتہائی شدید تابکاری کے سبب آلودگی سے بھرے ہیں جو بعض واقعات میں عالمی درجہ بندی میں بلند ترین سطح پر ہیں۔ اس قدر شدید درجے کی تابکاری کا تعلق اسرائیل کے ایٹمی ری ایکٹر سے خارج ہونے والے مواد اور عسکری سرگرمیوں سے ہے لیکن جوہری کچرے کو زمین دوز کرنے کا عمل بھی مشکوک ہے۔ چشموں کے پانی میں انتہائی شدید تابکار عناصر کی موجودگی اس بات پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہے۔ لوگوں سے سنی سنائی باتیں اس نتیجے پر پہنچنے میں مدد کرتی ہیں کہ مغربی کنارے اور غزہ کے ارد گرد کوڑا کرکٹ پھینکے جانے والی تقریباً 50 جگہوں پر یہی ہو رہا ہے۔ مشتبہ علاقوں کے لوگوں بالخصوص بچوں میں معذوری، اعضا کا بگاڑ اور کینسر بھی بڑھ رہا ہے۔
مقبوضہ فلسطین کے تمام آبی ذخائر اور پانی سے وابستہ ادارے اسرائیلی فوج کے اختیار میں ہیں۔ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے زیر استعمال پانی کا سب سے اہم زمینی خزانہ ماؤنٹین ایکویفر (پہاڑی آب اندوخت) ہے۔ اگرچہ اس کو بھرنے والا 80 فیصد علاقہ مغربی کنارے کی حدوں میں آتا ہے لیکن پانی کی تقریباً 90 فیصد مقدار اسرائیلی استعمال کرتے ہیں۔
فلسطینیوں کے لیے نئے کنویں کھودنے یا موجودہ کنوؤں کی مرمت کرنے کے لیے درکار اجازت نامے حاصل کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔ اگر کبھی اجازت مل بھی جائے تو ہر چیز کا تعین اسرائیل کرتا ہے جس میں اس کی گہرائی پر اختیار اور کنوؤں سے کس قدر پانی لیا جا سکتا ہے، کا کوٹہ تک شامل ہے۔
اگرچہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر پانی کی مقدار کم سے کم فی کس سو لیٹر ہونی چاہیے لیکن مقبوضہ علاقوں میں فلسطینی فی کس کے حساب سے اوسطاً 88 لیٹر پانی ہی استعمال کر پاتے ہیں جبکہ اس کے برعکس اسرائیل میں فی کس پانی کا استعمال تقریباً 260 لیٹر ہے۔
بتسلیم کے ترجمان امت گلٹز کہتے ہیں کہ ’اسرائیلی حکومت کے بدترین نسلی تعصبات کا اہم ترین جزو خطے کے وسیع ذخائر کو ہتھیا کر انہیں اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا ہے، یعنی براہ راست فلسطینیوں کے خرچے پر یہودیوں کی بالادستی کا قیام اور اس کا تسلسل برقرار رکھنا۔ ‘
وہ کہتے ہیں: ’ماؤنٹین ایکویفر اور دیگر چشموں سمیت مغربی کنارے کے اہم ترین پانی کے وسائل پر اسرائیل نے قبضہ کرلیا اور انہیں غیر قانونی بستیوں کے صنعتی، زرعی اور سیاحتی شعبوں سمیت مالی مفادات پہنچانے کے لیے استعمال کر رہا ہے جبکہ دوسری طرف مغربی کنارے میں رہائش پذیر تمام فلسطینیوں کے لیے پانی کی کمی کا بحران پیدا کرتا ہے جس کی شدت معمولی سے انتہا درجے تک کچھ بھی ہو سکتی ہے۔‘
زراعت پیشہ بھیڑ بکریاں پالنے والی درجنوں فلسطینی برادریاں جو پورے مغربی کنارے پر پھیلی ہوئی ہیں، ان پر اسرائیل پانی کی رسائی روکنے میں اس حد تک چلا جاتا ہے کہ مقامی لوگوں کا قائم کردہ نظام آب اور نالیاں باقاعدگی سے تباہ کرتا ہے تاکہ وہ مجبوراً یہ جگہ چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں۔ خطے کی غریب ترین ایسی بعض برادریوں کا روزانہ کی بنیاد پر پانی کا استعمال 20 لیٹر فی کس تک پہنچ سکتا ہے جو عالمی ادارہ برائے صحت کی تجاویز کا محض پانچ گنا بنتا ہے۔
وہ کہتے ہیں: ’بمباری سے تباہی کا شکار ہونے والے غزہ کے پانی اور اسے صاف کرنے والے نظام کی مرمت اسرائیل کی 14 سالہ ناکہ بندی کے سبب بالکل رکی ہوئی ہے۔ ایسا سامان جسے اسرائیل دہرے مقاصد یعنی سول اور عسکری دونوں طرح کے استعمال کے قابل سمجھتا ہے، جس میں بنیادی تعمیراتی سامان بھی شامل ہے، اسے سخت پابندی اور کڑی جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کے سبب مرمت تاخیر کا شکار ہوتی ہے بلکہ بعض اوقات تو ناممکن ہو جاتی ہے جبکہ ایکویفر (آب اندوخت) سے حاصل کردہ 97 فیصد پانی پینے کے لیے مناسب نہیں اور خود آب اندوختیں بھی تباہی کے دہانے پر ہیں۔‘
مزید برآں اردن دریا کا وہ پانی جو کچھ وقت کے لیے سطح زمین پر جمع ہو جاتا ہے، اسے اسرائیلی قابض قوتوں نے 1967 سے فلسطینیوں کے لیے ممنوع کر رکھا ہے اور اس کا رخ مغربی کنارے سے متضاد سمت میں موڑ دیا گیا ہے۔ وادی اردن اور بحیرہ مردار کے ماحول پر اس کے دور رس اثرات مرتب ہوئے ہیں جو سالانہ ایک میٹر سطح آب کی کمی کے ساتھ انیسویں صدی میں حاصل ہونے والے پانی کی 90 فیصد مقدار سے محروم ہو چکے ہیں۔
2002 سے اسرائیل دیوار علیحدگی تعمیر کر رہا ہے جو آٹھ میٹر بلندی اور سات سو کلومیٹر کی چوڑائی تک پہنچ چکی ہے۔ فلسطینی سرزمین کو بری طرح تقسیم کرتے ہوئے یہ بے ترتیب انداز میں گرین لائن سے شروع ہوتی ہے جس کی زیادہ تر تعمیر ماؤنٹین ایکویفر کے قریب ہوئی جہاں زرخیز ترین زرعی زمین پائی جاتی ہے۔
فلسطین ہائیڈرولوجی گروپ کے بانی اور ڈائریکٹر ڈاکٹرایمن ربی کے بقول: ’مغربی کنارے میں اسرائیل کی تعمیر کردہ دیوار علیحدگی اسے پانی کے 11 کنوؤں سے محروم کرتی ہے جو سالانہ 1.2ملین کیوبک میٹر پانی پیدا کرتے ہیں۔ اس کی تعمیر کے بعد 18 سال سے یہ دیوار فلسطینی کسانوں کو اپنی زرعی زمینوں اور کنوؤں تک رسائی سے محروم کر رہی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں: ’ایک اندازے کے مطابق دوہزار دونم (ایک دونم ہزار مربع میٹر کے برابر) زمین جہاں ترش پھل ، امرود اور سبزیاں کاشت کی جاتی تھیں، اب محروم پڑی ہے، جس کے نتیجے میں زرعی زمینوں اور کنوؤں پر روزگار کے لیے انحصار کرنے والے کسانوں کو شدید معاشی نقصان کا سامنا ہے۔ ‘
اس کی تعمیر نے ہزاروں ایکڑ فلسطینی زمین کو ناقابل زراعت اور زیتون کے ہزاروں درختوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے جن میں سے بعض چھ سو سال پرانے تھے اور عالمی ثقافتی ورثے کے قانون کے تحت جنہیں تحفظ حاصل تھا۔
اس رکاوٹ کی تعمیر اور تادیر قیام نے فطری حیات پر گہرا اثر چھوڑا ہے۔ جانوروں کے ٹھکانوں کی تباہی اور حرکت و نقل پر حد بندی نے پودوں اور جانوروں، دونوں کی جینیاتی تنوع میں کمی اور زندگی کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ ممالیہ جانور بالخصوص لومڑیاں، ہرن، بجو اور پہاڑی بکرے خاص طور پر متاثر ہوئے ہیں جو پہلے آزادی سے مختلف رقبوں میں پھرا کرتے تھے لیکن اب خوراک اور پانی مہیا کے مواقع محدود ہو گئے ہیں۔
ادارہ برائے ماحولیاتی معیار اس رکاوٹ کو مغربی کنارے میں حیاتیاتی تنوع کے لیے سنگین ترین خطرات میں سے ایک شمار کرتا ہے۔
گرین لائن اور دیوار علیحدگی کے درمیان ’بند علاقہ‘ (seam zone)ہے جو بلاشبہ سبزیوں اور درختوں کے سلسلے کی بیخ کنی اور مغربی کنارے کی مزید دس فیصد زمین میں کمی کا باعث بنا ہے۔ فلسطینیوں کے لیے یہ حصہ بند عسکری علاقہ قرار دیا گیا ہے، سوائے یہ کہ ان کا گھر یہاں ہو جس کے لیے انہیں تصدیق نامہ رکھنا ضروری ہے۔
عسکری مراکز، بستیوں اور فطری ذخائر کے نام پر ضبط شدہ کئی زمینیوں پر جانوروں کے چرنے کے لیے نہایت مناسب گھاس موجود ہے لیکن فلسطینیوں کو وہاں داخلے کی اجازت نہیں۔ نتیجتاً میسر زمینوں کو ضرورت سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے جس سے وہ روئیدگی میں کمی اور سطح زمین کے کٹاؤ کا شکار ہو کر بالآخر ویران ہو جاتی ہیں۔
درختوں اور زمینوں کی تباہی 1967 کے بعد روزمرہ کا ایک معمول بن چکا ہے جس کے بعد ابھی تک 2.5 ملین درخت کاٹے جا چکے ہیں۔
مغربی کنارے کے مقام دئیر بالوت میں فلسطینی معلمہ اور کسان خاتم اسماعیل یعقوب کو اپنے خاندان سے وراثت میں زمین ملی لیکن موجودہ برس کے اوائل میں ایسے دعوؤں کے بعد کہ یہ درخت حکومتی زمین پر لگائے گئے ہیں، اسرائیلی سپاہیوں اور سات بل ڈوزروں نے سب کچھ تہس نہس کرتے ہوئے زیتون، انجیر، بادام اور انگور کے تمام ساڑھے سات سو درخت گرا دیے اور ان کی زمین پر کیمائی سپرے چھڑک دیا گیا۔ سپاہیوں نے صرف انہی کے نہیں بلکہ علاقے میں تقریباً 3500 درخت گرائے۔ درختوں کے گرائے جانے کے بعد زیتون (Zaytoun) کمپنی نے شہریوں کی ایک شجرکاری منصوبے سے مدد کی اور اس طرح خاتم کی زمین پر دوبارہ درخت لگے۔
زمین تک رسائی محدود کرنے کی طرح درخت گرانے کا مقصد بھی ایک منصوبے کے تحت تھا تاکہ فلسطینیوں اور ان کی زمین کے درمیان وابستگی کو کم کیا جائے اور ان کے حوصلے پست کیے جائیں۔ اس سے محض یہی نہیں ہوا کہ زمین کٹاؤ کا شکار ہو کر ویران ہوئی بلکہ ہزاروں فلسطینی روزگار سے محروم ہو گئے۔
اقوام متحدہ کے لائحہ عمل برائے ماحولیات کے مطابق: ’انسانی حقوق کا احترام کیے بغیر پائیدار ماحولیاتی انتظامات نہیں پنپ سکتے۔‘
ماحولیاتی تحفظ اور حقوق انسانی آپس میں جڑے ہوئے ہیں لیکن ابھی تک مقبوضہ فلسطین کے علاقوں میں دونوں حقیقت کا روپ نہیں دھار سکے، جہاں قبضہ گیری فلسطینیوں اور ان کی گزر بسر کے لیے موجود وسائل دونوں سے لگان وصول کرتی ہے۔
بہا وضاحت کرتے ہیں کہ پچھلے مہینے غزہ پر حملے نے اسرائیل کی پہلے سے جاری پالیسوں اور گذشتہ عملی اقدامات کے نتیجے میں ہونے والی خرابیوں میں اضافہ کرتے ہوئے غزہ کا ماحول مزید بھیانک کر دیا ہے۔
وہ اس وقت جس مسئلے کے حل کی کوشش کر رہے ہیں وہ اس خطرناک کچرے کے ’بڑے‘ ڈھیر کو ٹھکانے لگانا ہے جو بمباری کی وجہ سے کیڑے مار ادویات اور دیگر زرعی سامان سے لیس ایک گودام کے جلنے سے پیدا ہوا ہے۔
فلسطینیوں کے پاس اپنے قابض گروہ سے انصاف حاصل کرنے کا کوئی موثر راستہ نہیں، انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک فلسطینی تنظیم الحق کے جائزے کے مطابق: ’مقامی نظام انصاف میں انصاف کے حصول کی راہ میں ناقابل تسخیر رکاوٹیں ہیں۔ ‘
بطور قابض گروہ اسرائیل پر عالمی قوانین کے تحت لوگوں اور ماحول کے بارے میں کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ عالمی برادری اور اس کی عدالتیں مزید دباؤ بڑھائیں اور اسرائیل کو جواب دہ بنائیں۔
© The Independent