اپنے بچے کو مارنے کی کوشش کرنے والی ماں کے خلاف مقدمہ

راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے آئی سی یو وارڈ کی ایک وائرل ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ خاتون ہسپتال کے بستر پر موجود اپنے بچے کی سانس بند کرنے کے لیے زور لگا رہی ہیں، جس سے بچہ تڑپنے لگتا ہے اور پھر وہ بے سدھ ہو جاتا ہے۔

راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے ایم ایس ڈاکٹر سہیل نے بتایا کہ یہ واقعہ 13 اگست کی رات کو پیش آیا  (فوٹو: چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو)

 

راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی (آر آئی سی) میں اپنے بچے کو جان سے مارنے کی کوشش کرنے والی خاتون کے خلاف سرکار کی مدعیت میں تھانہ وارث خان راولپنڈی میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

چند روز قبل راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے آئی سی یو وارڈ کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک چھوٹا بچہ ہسپتال کے بستر پر لیٹا ہوا ہے اور اس کے قریب بیٹھی خاتون (جو بچے کی والدہ ہیں) اسے سہلا رہی ہے اور کچھ ہی دیر بعد وہ خاتون اس بچے کا منہ اپنے ڈوپٹے سے ڈھانپ دیتی ہیں۔ ان کا ایک ہاتھ بچے کے سر پر ہے جبکہ دوسرا ڈوپٹے کے اندر ہے۔

سی سی ٹی وی کیمرے سے حاصل کی گئی اس فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ خاتون بچے کی سانس بند کرنے کے لیے زور لگا رہی ہیں، جس سے بچہ تڑپنے لگتا ہے اور پھر وہ بے سدھ ہو جاتا ہے۔ اسی اثنا میں ہسپتال کا عملہ وارڈ میں اس خاتون کی جانب بھاگتا ہے اور وہ بچے کو چھوڑ دیتی ہے

 آر آئی سی کے ایم ایس ڈاکٹر محمد سہیل نے انڈپینڈنٹ اردو کو اس واقعے کے حوالے سے بتایا: 'ویڈیو میں دیکھی جانے والی خاتون اس بچے کی والدہ ہیں۔ ان کے پانچ بچے ہیں جن میں سے دو کا انتقال ہو چکا ہے۔ یہ خاتون آٹھ یا نو اگست کو ہمارے پاس بچے کو لے کر آئیں۔ اس بچے کو دل کی ایک بیماری تھی جس میں دل سے نکلنے والی خون کی مرکزی شریان تنگ تھی۔'

'اس خاتون نے ہسپتال میں آکر شور مچایا کہ بچے کو داخل کریں۔ ہم نے انہیں بتایا بھی کہ بچے کا آپریشن اگلے ایک دو ہفتے میں کر دیا جائے گا لیکن خاتون نے اصرار کیا کہ وہ بچے کو واپس نہیں لے کر جائیں گی اور ہم اسے ہسپتال میں داخل کریں، لہذا ہم نے بچے کو داخل کرلیا۔'

ایم ایس نے بتایا کہ 'بچے کو دن میں دو سے تین مرتبہ سانس بند ہونے کے اٹیک ہونے شروع ہو گئے۔ ہمارے ڈاکٹرز کو یہ صورت حال غیر معمولی لگی کیونکہ بچے کو جو بیماری تھی اس کا سانس بند ہونے سے کوئی تعلق نہیں۔ ہمارے ڈاکٹرز کو خاتون پر شک ہوا اور انہوں نے بچے کو انتہائی نگھداشت کے وارڈ میں منتقل کر دیا جہاں ڈاکٹروں نے بچے کی کیمروں کے ذریعے نگرانی شروع کی۔ وہاں مانیٹرنگ کے دوران ہمیں معلوم ہوا کہ اس کی والدہ بچے کے منہ پر کپڑا ڈال کر اس کا ناک بند کر دیتی تھی جس سے بچے کی آکسیجن سیچوریشن کم اور دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی تھی، جس سے مانیٹرنگ پر لگا الارم بج جاتا تھا۔'

'جب آئی سی یو میں الارم بجا تو ہماری نرسوں کو سی سی ٹی وی مانیٹرنگ والوں نے بتایا کہ فوری وارڈ میں جائیں اور اس طرح ہم نے بچے کی جان بچائی۔'

ڈاکٹر سہیل نے بتایا کہ یہ واقعہ 13 اگست کی رات کو پیش آیا اور بچے کو بچانے کے بعد ہم نے خاتون کو پولیس کے حوالے کردیا۔

ان کا کہنا تھا: 'میری خاتون کے شوہر سے بھی بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ انہیں نہیں معلوم کہ ان کی بیوی بچے کے ساتھ کسی ہسپتال میں ہے بلکہ شوہر نے بتایا کہ ان کی اہلیہ جہلم جانے کا کہہ کر بچے سمیت گھر سے نکلی تھیں۔'

ڈاکٹر سہیل نے بتایا کہ 'خاتون کے شوہر سے بات کرکے محسوس ہوا کہ وہ کوئی ذمہ دار شخص نہیں ہیں کیونکہ ان کا کہنا تھا وہ اب اکیلے کہاں کہاں جائیں؟'

انڈپینڈنٹ اردو نے بچے کے والد سے متعدد بار رابطے کی کوشش کی لیکن ان کا فون مسلسل بند ملا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خاتون کی ذہنی حالت سے متعلق سوال کے جواب میں ڈاکٹر سہیل نے بتایا: 'بظاہر ایسا نہیں لگتا کیونکہ ہم نے بچے کو داخل کرلیا تھا، اس کے آپریشن کی تاریخ ہم انہیں دے چکے تھے، بچے کا سارا علاج مفت ہورہا تھا اس لیے یہ نہیں ہو سکتا کہ بچے کی بیماری کا علاج نہ ہونے کی وجہ سے وہ کسی ذہنی دباؤ کا شکار تھیں۔'

انہوں نے بتایا کہ خاتون کو پولیس کے حوالے کرنے کے بعد ہم نے ہسپتال کی سکیورٹی سخت کی اور بچے سے کسی کے بھی ملنے پر پابندی لگا دی۔

دوسری جانب آر آئی سی نے بچے کے حوالے سے چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کو مطلع کیا، جس کے بعد بیورو نے عدالت کے ذریعے بچے کو اپنی تحویل میں لے لیا۔

چائلڈ پروٹیکشن کے اہلکار علی عابد نقوی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'بچہ اب قانونی طور پر بیورو کے تحویل میں ہے لیکن فی الحال وہ علاج کی غرض سے ہسپتال میں ہی ہے۔ جب وہ بہتر ہوگا اسے بیورو منتقل کردیا جائے گا۔ اس کے بعد بچے اور اس کے والدین کوایڈیشنل سیشن جج کے سامنے پیش کیا جائے گا اور وہ حالات کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کریں گے کہ بچہ بیورو میں رہے گا یا والدین کے پاس۔ والدین کے پاس بچہ تب تک منتقل نہیں کیا جائے گا جب تک اس کی حفاظت کے بارے میں خدشات دور نہیں ہوں گے۔'

راولپنڈی سٹی پولیس آفس کے ترجمان سجاد الحسن نے اس واقعے کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'جب یہ واقعہ رپورٹ ہوا تو ہم نے فوری طور پر کارروائی کا آغاز کیا، لیکن بچے کے والد نے کہا کہ ان کی اہلیہ یعنی بچے کی والدہ پہلے بچے کی وفات کی وجہ سے ذہنی طور پر ٹھیک نہیں ہیں، اس لیے میں اس پر کوئی کارروائی نہیں کروانا چاہتا۔ جس پر ہم نے ایک رپورٹ لکھ دی ہے، لیکن پھر ہم نے سرکار کی مدعیت میں خاتون کے خلاف اقدام قتل کی ایف آئی آر درج کر کے تفتیش شروع کر دی ہے اور تفتیش کے دوران ہمیں لگا کہ خاتون قصور وار ہیں تو انہیں حراست میں لے لیا جائے گا۔'

کیا خاتون ذہنی طور پر بیمار ہیں؟

اس واقعے کے بعد چائلڈ پرٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کی سائیکالوجسٹ عطرت زہرہ نے بچے کی والدہ سے ملاقات کی۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'پہلے تو وہ انکار کرتی رہیں کہ انہوں نے ایسا نہیں کیا ہے لیکن پھر جب ویڈیو دکھائی تو کہنے لگیں کہ مجھے نہیں پتہ چلا کہ میں نے ایسا کیا اور کیوں کیا۔'

'ان کا کہنا تھا کہ گھر میں غربت ہے، خاوند کے پاس کبھی کام ہوتا ہے کبھی نہیں۔ پھر بچے بھی مر گئے اس لیے مجھے سمجھ نہیں آئی کہ میں نے کیوں ایسا کیا۔ البتہ یہ بات تو واضح ہے کہ وہ غربت، بے روز گاری، گھریلو ناچاقیوں اور بچوں کے مرنے کے دکھ سے گزر رہی ہیں، لیکن خاتون کے ساتھ ایک نشست میں سب کچھ جاننا ممکن نہیں۔ میرے خیال میں ان کے ساتھ مزید نشستوں کی اشد ضرورت ہے۔'

عطرت کا کہنا تھا کہ بظاہر خاتون سمجھدار اور چالاک دکھائی دیتی ہیں۔ اپنے شوہر کو بتائے بغیر بچے کو ہسپتال لے کر آجانا اسی بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ان کے شوہر کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں ہیں اور اگر یہ ویڈیو نہ بنتی تو انہوں نے اس عمل سے انکار کرنا تھا کہ انہوں نے بچے کو مارنے کی کوشش نہیں کی، اس لیے ان کے ساتھ کسی نفسیاتی مسائل کے ماہر کو مزید بات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تفصیلاً یہ جانا جاسکے کہ انہیں واقعی میں کوئی ذہنی مسائل ہیں یا نہیں۔'

آر آئی سی کے ایم ایس ڈاکٹر سہیل نے بتایا کہ منگل کو بچے کے دل کا کامیاب آپریشن کیا جا چکا ہے اور بچہ بالکل ٹھیک ہے اور اگلے دو سے تین روز میں اسے ہسپتال سے چھٹی دے کر چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کے حوالے کر دیا جائے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان