لاہور میں ایکسپائرڈ سٹنٹ کا سکینڈل: ’یہ اتنا بڑا معاملہ نہیں‘

یہ معاملہ منظرعام پر آنے کے بعد حکام نے تحقیقات کے لیے انکوائری ٹیم تشکیل دے دی جس کے بارے میں سربراہ پی آئی سی کا کہنا ہے کہ تحقیقات انتظامیہ کے خلاف ہیں اس لیے وہ خود بھی اپنے آپ کو کمیٹی کے سامنے پیش کریں گے۔

(تصویر: پی آئی سی ویب سائٹ)

پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں ایک اور سکینڈل سامنے آیا ہے جس میں امراض قلب کے مریضوں کو مبینہ طور پر زائد المیعاد سٹنٹ ڈالے گئے ہیں۔

یہ معاملہ منظرعام پر آنے کے بعد حکام نے تحقیقات کے لیے انکوائری ٹیم تشکیل دے دی جس کے بارے میں سربراہ پی آئی سی کا کہنا ہے کہ تحقیقات انتظامیہ کے خلاف ہیں اس لیے وہ خود بھی اپنے آپ کو کمیٹی کے سامنے پیش کریں گے۔

تاہم ساتھ میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’یہ اتنا بڑا معاملہ نہیں کیونکہ ڈالے گئے سٹنٹ چند دن زائد المیعاد تھے۔‘

پنجاب کے امراض قلب کے بڑے ہسپتال میں یہ پہلا واقعہ نہیں اس سے قبل بھی ناقص سٹنٹ ڈالنے اور زائد المیعاد ادویات کے استعمال کے سکینڈل سامنے آچکے ہیں لیکن اس بارے میں کوئی ٹھوس حکمت عملی تیار نہیں ہوسکی ہے۔

زائد المیعاد سٹنٹ مریضوں کو ڈالے کیسے گئے؟

پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) کے چیف ایگزیکٹو آفیسر( سی ای او) ثاقب شفیع نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پی آئی سی میں مریضوں کو 12 سے14 تک زائد المیعاد سٹنٹ ڈالے گئے ہیں۔

’ان سٹنٹس کی قابل استعمال معیاد کو ختم ہوئے پانچ سے چھ دن ہوئے تھے جن سے کوئی خطرہ نظر نہیں آتا، تاہم جن مریضوں کو ڈالے گئے ہیں ان کی میڈیکل ہسٹری کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کا خیال رکھا جا رہا ہے تاکہ کوئی مسئلہ ہو تو فوری طبی امداد فراہم کی جا سکے۔‘

ڈاکٹر ثاقب شفیع کا کہنا تھا کہ پی آئی سی کی فارمیسی میں سٹنٹ موجود ہوتے ہیں جنہیں چیک کرنے کا نظام بھی موجود ہے۔

انہوں نے بتایا کہ سینکڑوں سٹنٹ خریدے لیے جاتے ہیں جن میں سے ایکسپائر ہو جانے والے سٹنٹ کمپنی کو واپس کرنے کا معاہدہ ہوتا ہے۔

ان کے مطابق جون سے اگست تک تین ماہ کے دوران 12 سے 14 مریضوں کو ایکسپائرڈ سٹنٹ ڈالے گئے ہیں۔ یہ سنگین لاپرواہی ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اسی لیے حکومت نے جو انکوائری کمیٹی تشکیل دی ہے اس کے سامنے میں بطور ہسپتال انتظامی سربراہ پیش ہوں گا۔

زائد المیعاد سٹنٹ ڈالنے کا کیسے معلوم ہوا اور کارروائی کیا کی جا رہی ہے؟

پی آئی سی میں مریضوں کو زائد المیعاد سٹنٹ ڈالنے کا دورانیہ تین ماہ ہے لیکن اس بارے میں مریضوں، ان کے لواحقین یا ڈاکٹروں نے کوئی بات نہیں کی۔

جب بدھ کو میڈیا پر خبریں چلنا شروع ہوئیں تو انتظامیہ بھی حرکت میں آگئی اور معاملے کی ابتدائی تحقیق سے معلوم ہوا کہ واقعی امراض قلب میں مبتلا کئی مریضوں کو زائد المیعاد سٹنٹ ڈال دیے گئے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ترجمان محکمہ صحت پنجاب محمد حماد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس بارے میں انکوائری ٹیم چھان بین کر رہی ہے اور جب وہ اپنی رپورٹ پیش کریں گے تو ذمہ داران کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

خیال رہے کہ یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ 2017 میں بھی لاہور کے بڑے ہسپتالوں میں دل کے امراض میں مبتلا مریضوں کو ناقص سٹںت ڈالنے کا سکینڈل سامنے آیا تھا۔

ایف آئی اے کی انکوائری میں میو ہسپتال لاہور میں 5700 روپے والا ناقص سٹنٹ تین لاکھ روپے میں مریضوں کو دینے اورغیر رجسٹرڈ سٹنٹ کلو کے حساب سے منگوائے جانے کا انکشاف ہوا تھا۔

یہی نہیں اس سے قبل پی آئی سی میں ہی دل کے مریضوں کو زائد المیعاد ادویات دینے سے 50 سے زائد مریض ہلاک ہو گئے تھے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان