افغانستان: پنج شیر میں آخر ہو کیا رہا ہے؟

افغان طالبان ملک کے بیشتر اضلاع پر کنٹرول حاصل کے بعد اب حکومت بنانے کے لیے مشاورت کر رہے ہیں لیکن صوبہ پنج شیر کا مسئلہ ابھی تک جوں کا توں ہے اور وہاں سے آنے والی رپورٹس کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو پارہی۔

ماضی میں بھی پنج شیر سے مختلف قوتوں کے خلاف مزاحمت ہوئی، خصوصاً سویت یونین کی فورسز کو پنج شیر میں داخل ہونے نہیں دیا گیا تھا(فوٹو: اےا یف پی)

 افغان طالبان ملک کے بیشتر اضلاع پر کنٹرول حاصل کے بعد اب حکومت بنانے کے لیے مشاورت کر رہے ہیں لیکن صوبہ پنج شیر کا مسئلہ ابھی تک جوں کا توں ہے اور طالبان اور پنج شیر میں احمد مسعود کی سربراہی میں بنائے گئے’مزاحمتی فرنٹ‘ کی جانب سے ایک دوسرے کے جانی نقصان کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔

ابھی تک پنج شیر کی صورت حال کے حوالے سے کسی آزاد ادارے کی رپورٹ سامنے نہیں آئی ہے کہ وہاں حقیقی صورت حال کیا ہے۔ اگرچہ بین الاقوامی میڈیا پر مختلف رپورٹس سامنے آرہی  ہیں لیکن ان میں بھی زیادہ تر خبریں ذرائع کے حوالے سے دی جارہی ہیں، جن کی آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں ہے۔

پنج شیر افغان دارالحکومت کابل سے تقریباً 80 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ صوبہ پہاڑوں کے درمیان گھری ایک وادی ہے۔ ماضی میں بھی پنج شیر سے مختلف قوتوں کے خلاف مزاحمت ہوئی، خصوصاً سویت یونین کی فورسز کو پنج شیر میں داخل ہونے نہیں دیا گیا تھا اور پنج شیر  کے احمد شاہ مسعود، جنہیں ’شیر پنج شیر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، کی جانب سے ان کا راستہ روکا گیا تھا۔

اسی طرح  90 کی دہائی میں بھی طالبان کی حکومت کو پنج شیر پر قبضہ نہیں کرنے دیا گیا اور احمد شاہ مسعود کی فورسز کی جانب سے طالبان کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور ابھی دوبارہ وہی صورت حال ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کی آج (تین ستمبر) کی خبر کے مطابق پنج شیر مزاحمتی ملیشیا میں سابق افغان فوج اور پنج شیر کی مقامی ملیشیا شامل ہے۔ افغان فوج کی طالبان کے ساتھ جنگ کے دوران سابق صدر اشرف غنی کی جانب سے بنائے گئے آرمی چیف سمیع سادات بھی پنج شیر مزاحمتی فور س کا حصہ ہیں جبکہ فوج ہی کے سابق جرنیل بھی طالبان کے خلاف لڑ رہے ہیں۔

اے ایف پی کے مطابق افغان طالبان کے دعوت کمیشن کے سربراہ امیر خان متقی نے ایک آڈیو پیغام میں گذشتہ روز بتایا تھا: ’ہم نے بہت کوشش کی کہ پنج شیر کا مسئلہ بات چیت سے حل کریں لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ اب جب مذاکرات ناکام ہوگئے ہیں اور طالبان نے پنج شیر کا محاصرہ کرلیا ہے، لیکن اب بھی کچھ لوگ پر امن طریقے سے اس مسئلے کو حل نہیں کرنا چاہتے۔‘

امیر متقی نے پنج شیر کے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب یہ پنج شیر کے لوگوں پر منحصر ہے کہ وہ مزاحمت کرنے والوں سے بات کریں (تاکہ یہ مسئلہ پر امن طریقے سے حل ہو سکے۔)

دوسری جانب اشرف غنی حکومت میں وزیر دفاع بسم اللہ محمدی نے بتایا کہ منگل کو طالبان نے پنج شیر پر چڑھائی شروع کی، لیکن انہیں وہاں پر شکست ہوئی ہے اور طالبان کے 34جنگجو ہلاک کردیے گئے۔ تاہم طالبان کو پیچھے دھکیلنے اور انہیں ہونے والے جانی نقصان کی کسی آزاد ذرائع سے تصدیق  نہیں ہوسکی۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے سیکرٹری بلال کریمی نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو ایک پیغام میں دعویٰ کیا کہ طالبان نے گذشتہ رات پنج شیر میں پیش رفت کی اور ضلع خاک مکمل طور پر ان کے قبضے میں آگیا ہے جبکہ طالبان نے مزید سامان اور اسلحہ بھی قبضے میں لے لیا ہے۔

بلال کریمی نے بتایا کہ پنج شیر کے مرکزی دروازے پر بھی طالبان نے قبضہ کرلیا ہے اور گذشتہ تین گھنٹوں کے دوران تین کمانڈروں سمیت فرنٹ کے سات سے زائد ارکان مارے گئے جبکہ سات طالبان ہلاک اور دو زخمی ہوئے ہیں۔

طالبان ترجمان کے سیکرٹری بلال کریمی نے مزید کہا کہ پنج شیر میں کئی مقامات پر محاصرہ سخت کر دیا گیا تھا اور کچھ لوگ ان سے ہتھیار ڈالنے کے بارے میں رابطہ کر رہے ہیں۔

دوسری جانب طالبان مخالف فورسز کا کہنا ہے کہ ان کے پاس پنج شیر کے تمام راستوں کا کنٹرول ہے اور انہوں نے ’سینکڑوں طالبان کو ہلاک کیا ہے۔‘

طالبان تبدیل نہیں ہوئے: احمد مسعود

امریکی نشریاتی ادارے سی این این پر گذشتہ روز احمد مسعود کے پیٹر برگن کو دیے گئے انٹرویو میں پنج شیر کے معاملے پر بات چیت کی گئی۔ انٹرویو کے دوران احمد مسعود نے سی این این کو بتایا کہ ’ہم اس لیے لڑ رہے ہیں کہ ایک گروپ نے زیادہ آبادی پر قبضہ کیا ہوا ہے اور اس گروپ میں تمام اقوام کی نمائندگی موجود نہیں ہے۔‘

انٹرویو میں جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ طالبان کے خلاف کیوں لڑ رہے ہیں؟ تو احمد مسعود نے بتایا کہ بد قسمتی سے طالبان تبدیل نہیں ہوئے اور اب بھی ملک پر قبضے کا سوچ رہے  ہیں اور ملک میں رہنے والی باقی نسلوں سے پوچھتے بھی نہیں۔ ’ہم اس طرح طالبان کو ملک پر قبضہ کرنے نہیں دیں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں انسانی حقوق کی پاسداری، جمہوریت اور ہر شہری کو ہر قسم کی آزادی ہو۔‘

احمد مسعود نے بتایا کہ وہ اب بھی مذاکرات کے حق میں ہیں لیکن جس طرح ان کے والد کی   جانب سے مذاکرات کی پیشکش کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا تھا ،اسی طرح اب ان کی پیشکش کو بھی سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا، یہی وجہ ہے کہ طالبان کے ساتھ ان کے مذاکرات بے معنی ثابت ہوئے ہیں۔

دونوں جانب سے مختلف دعوؤں کے باوجود ابھی تک پنج شیر کی صورت حال واضح نہیں ہے کہ وہاں زمینی حقائق کیا ہیں۔ طالبان نے لڑنے کا اعلان تو کیا ہے لیکن ان کی جانب سے بھی مستند طور پر ایسی خبریں نہیں آرہیں، جس طرح دیگر صوبوں کا کنٹرول حاصل کرنے کے دوران وہاں سے پل پل کی خبریں آیا کرتی تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حقیقی صورت حال کے حوالے سے معلومات نہ ہونے کی وجہ سے سوشل میڈیا سمیت بھارتی میڈیا کی جانب سے ’پروپیگنڈہ‘ خبریں بھی چلائی جارہی ہیں، جن کی کسی قسم کی تصدیق ممکن نہیں ہے۔ بھارت کے میڈیا میں یہ خبریں چلائی جارہی ہیں کہ افغان طالبان کو شدید مزاحمت کا سامنا ہے جبکہ پنج شیر مزاحمت تحریک کی جانب سے طالبان کو شدید جانی نقصان بھی ہوا ہے تاہم اس کی کسی قسم کی تصدیق آزاد ذرائع سے  نہیں ہوسکی۔

ابھی تک طالبان ترجمان کی جانب سے پنج شیر کی صورت حال پر بھی واضح موقف سامنے نہیں آیا ہے اور نہ ہی انہوں نے وہاں کی موجودہ صورت حال پر کچھ کہا ہے۔ انڈپینڈنٹ اردو نے افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد اور قطر میں افغان طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان ڈاکٹر نعیم کے ساتھ رابطہ کرنے کی کوشش کی اور ان کو موقف کے لیے پیغام بھی بھیجا، لیکن اس رپورٹ کو فائل کرنے تک ان کا کوئی جواب سامنے نہیں آیا۔

پاکستانی چینل جیو نیوز کے رپورٹر اعزاز سید نے  کئی ہفتے افغانستان میں گزارے اور گذشتہ روز وہ ملک واپس لوٹے۔ اعزاز سید نے پنج شیر کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پنج شیر کو طالبان نے چاروں طرف سے گھیرلیا ہے اور دو علاقے  بدخشاں اور اندراب ایسے ہیں، جہاں طالبان کی جانب سے حملہ کرنے کا راستہ ہے۔

تاہم انہوں نے بتایا کہ لڑائی سمیت طالبان کی جانب سے  وہاں پر دو گروپوں کے ساتھ مذاکرات کی کوشش بھی ہورہی ہے، جس میں ایک گروپ کی سربراہی احمد مسعود کر رہے ہیں، لیکن وہ مذاکرات 30 اگست سے منقطع ہیں جبکہ پنج شیر کے معززین کے ساتھ بھی طالبان کی جانب سے مذاکرات ہورہے ہیں لیکن ابھی تک کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔

اعزاز سید نے بتایا: ’ہلاکتوں کی اگر بات کی جائے تو دونوں اطراف کو نقصان پہنچا ہے تاہم اگر یہ پوچھا جائے کہ کمزور پوزیشن پر کون ہے، تو وہ پنج شیر ہو سکتا ہے کیونکہ وہاں خوراک کی سپلائی وغیرہ بند کردی گئی ہے اور اتنی بڑی کوئی مزاحمت نہیں دیکھی گئی ہے  لیکن جو آواز ہے وہ بہت بڑی ہے کیونکہ دہشت گردی کے فرنٹ پر طالبان کو داعش کا سامنا ہے اور سیاسی فرنٹ پر پنج شیر ایک توانا آواز کی صورت میں موجود ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا