سید علی گیلانی کے غسل، نماز جنازہ اور تدفین کی ویڈیوز جاری

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی پولیس کو بزرگ رہنما کی میت کو زبردستی اپنی تحویل میں لے کر رات کی تاریکی میں دفن کرنے کی وجہ سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

 92 سالہ بزرگ کشمیری رہنما سید علی گیلانی یکم ستمبر کی رات اپنی رہائش گاہ پر انتقال کر گئے تھے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی پولیس نے بزرگ مزاحمتی رہنما سید علی گیلانی کے انتقال کے ایک ہفتے بعد ان کے غسل، نماز جنازہ اور دفنانے کی ویڈیوز جاری کر دی ہیں۔

ویڈیوز جاری کرنے کی ظاہری وجہ یہ ہے کہ پولیس بزرگ رہنما کی میت کو زبردستی اپنی تحویل میں لے کر رات کی تاریکی میں دفن کرنے کی وجہ سے شدید تنقید کی زد میں ہے۔

سید علی گیلانی کے لواحقین نے بعض نامہ نگاروں کو بتایا تھا کہ وہ نہیں جانتے کہ ’گیلانی صاحب کو غسل دیا گیا ہے یا نہیں۔‘

کشمیر پولیس نے ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ یکم ستمبر کو سید علی گیلانی کے انتقال کے فوراً بعد انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی پی) کشمیر وجے کمار اور دیگر پولیس عہدیدار ان کی رہائش گاہ پر پہنچے اور وہاں سید علی گیلانی کے دونوں بیٹوں کے ساتھ تعزیت کا اظہار کیا۔

’امن و امان کی صورت حال بگڑنے کے خدشے کے پیش نظر ان سے گزارش کی گئی کہ علی گیلانی کو رات کے وقت ہی سپرد خاک کرنا ہوگا۔ دونوں نے رضامندی ظاہر کی اور دو گھنٹوں کی مہلت مانگی تاکہ رشتہ دار بھی آخری رسومات میں شامل ہو سکیں۔‘

مزید کہا گیا: ’آئی جی پی نے بذات خود کئی رشتے داروں سے بات کی اور انہیں محفوظ راہداری فراہم کرنے کا یقین دلایا، لیکن تین گھنٹے بعد لواحقین نے شاید پاکستان اور شرپسندوں کے دباؤ میں آکر اپنا ارادہ بدل لیا اور بھارت مخالف نعرے بازی کرنے لگے۔‘

کشمیر پولیس کے بیان کے مطابق:’انہوں نے میت کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ لیا۔ اونچی آواز میں پاکستان کے حق میں نعرے لگانے لگے۔ پڑوسیوں کو اپنے گھروں سے باہر آنے پر اکسایا، لیکن بعد ازاں قائل کرنے پر رشتہ دار میت قبرستان لائے اور پورے عزت و احترام کے ساتھ تدفین انجام دی۔‘

’یہ پورا عمل مقامی انتظامیہ کمیٹی کے اراکین اور مقامی امام کی موجودگی میں عمل میں آیا۔ سید علی گیلانی کے بیٹوں کا قبرستان نہ آنا ان کی پاکستانی ایجنڈے کے تئیں وفاداری کا ثبوت ہے نہ کہ انتقال کرنے والے والد کے تئیں احترام۔‘

پولیس نے علی گیلانی کی میت کو پاکستانی پرچم میں لپیٹنے اور بھارت مخالف نعرے بازی کرنے کے الزام میں ان کے اہل خانہ اور دیگر لواحقین کے خلاف پہلے ہی مقدمہ درج کر رکھا ہے۔

لواحقین کیا کہتے ہیں؟

پولیس کے بیان کے برعکس سید علی گیلانی کے لواحقین کا الزام ہے کہ پولیس نے مرحوم کی میت زبردستی اپنی تحویل میں لے کر انہیں ان کی وصیت کے برخلاف حیدرپورہ سری نگر، جہاں وہ رہائش پذیر تھے، کی جامع مسجد کے احاطے میں سپرد خاک کر دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بزرگ مزاحمتی رہنما نے وصیت کی تھی کہ انہیں سری نگر کے تاریخی ’مزار شہدا‘ میں دفنایا جائے۔

سید علی گیلانی کے صاحبزادے ڈاکٹر نسیم گیلانی کہتے ہیں: ’گیلانی صاحب نے وصیت کی تھی کہ انہیں مزار شہدا میں دفن کیا جائے لیکن پولیس نے ہم سے ان کی میت چھین کر انہیں زبردستی قریبی قبرستان میں دفن کیا۔‘

ڈاکٹر نسیم کے مطابق: ’ہم نے پولیس اور انتظامیہ کے عہدیداروں سے کہا تھا کہ ہمارے رشتے داروں کو دور دراز علاقوں سے آنا ہے لہٰذا ہمیں گیلانی صاحب کی تدفین صبح دس بجے کرنے کی اجازت دی جائے، لیکن انتظامیہ نے رات کے تین بجے میت کو زبردستی اپنی تحویل میں لے کر ہم میں سے کسی کو بھی جنازے میں شرکت کرنے کی اجازت نہیں دی۔ انہوں نے خواتین کی فریادیں بھی نہیں سنیں، انہیں دھکے دیے اور میت کو لے کر چلے گئے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’ہمیں دو ستمبر کی صبح دس بجے گیلانی صاحب کی قبر پر جانے کی اجازت دی گئی جہاں ہم نے فاتحہ پڑھی۔‘

 92 سالہ بزرگ کشمیری رہنما سید علی گیلانی یکم ستمبر کی رات اپنی رہائش گاہ پر انتقال کر گئے تھے۔ وہ طویل عرصے سے علیل اور ایک دہائی سے زائد عرصے سے اپنی رہائش گاہ پر نظربند تھے۔

پولیس نے سید علی گیلانی کی رہائش گاہ اور ان کی قبر کی طرف جانے والے راستوں کو ہنوز بند رکھا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا