سید علی گیلانی کی تدفین: ’اہل خانہ کو جنازے میں شامل نہیں ہونے دیا گیا‘

حریت پسند کشمیری رہنما سید علی گیلانی کے بیٹے کا کہنا ہے کہ گذشتہ رات ان کے انتقال کے بعد حکام نے خود ان کی تدفین کر دی اور خاندان کو جنازے میں شامل نہیں ہونے دیا۔

سید علی گیلانی نے مجموعی طور پر اپنی زندگی کا 14 سال سے زیادہ کا عرصہ جموں و کشمیر اور بھارت کی مختلف جیلوں میں گزارا (فائل فوٹو:اے ایف پی )

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بدھ کو حریت پسند رہنما سید علی گیلانی کے انتقال کے بعد حکام نے احتیاطی طور پر رات گئے سری نگر میں مزید فوجی تعینات کرتے ہوئے انٹرنیٹ بند کردیا جبکہ اہل خانہ کے مطابق حکام نے ان کی تدفین خاموشی سے سخت سکیورٹی میں کر دی۔

سید علی گیلانی کے صاحب زادے نسیم گیلانی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ان کی تدفین جمعرات کی صبح ساڑھے چار بجے ایک قریبی قبرستان میں کر دی گئی اور اہل خانہ کو جنازے میں شامل بھی نہیں ہونے دیا گیا۔

نسیم گیلانی نے کہا کہ والد کی وفات کے بعد صبح تین بجے پولیس ان کے گھر میں گھس آئی اور ان کی میت اٹھا لے گئی۔ ’ہم نے اصرار کیا کہ ہم فجر کی نماز کے بعد ان کا جنازہ پڑھائیں گے اور شہدا قبرستان میں دفنائیں گے مگر پولیس افسران نے ان کی میت چھین لی اور اہل خانہ میں سے کسی کو بھی جنازے میں شرکت نہیں کرنے دی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ انہیں بعد میں پتہ چلا کہ پولیس نے انہیں غسل دے کر دفنا دیا ہے۔

پولیس ذرائع کے مطابق گیلانی کی خواہش تھی کہ انہیں دیگر علیحدگی پسند رہنماؤں کی طرح سری نگر کے شہدا قبرستان میں دفنایا جائے مگر حکام نے اس سے انکار کر دیا۔ ذرائع نے مزید کہا کہ سکیورٹی فورسز نے ’تمام انتظامات سنبھال لیے۔‘

پولیس کے مطابق سید علی گیلانی کے دو بیٹے جنازے میں شامل تھے مگر ان کا نام نہیں بتایا گیا۔

سکیورٹی انتظامات سخت

ایک پولیس اہلکار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ گذشتہ رات سید علی گیلانی کے انتقال کے بعد فوجی ’سری نگر میں حساس جگہوں پر تعینات کیے گئے ہیں اور گاڑیوں کی نقل و حرکت کی اجازت نہیں۔‘

پولیس کے سربراہ وجے کمار نے بتایا کہ امن و امان کو مد نظر رکھتے ہوئے احتیاطی طور پر وادی میں انٹرنیٹ کو بند کر دیا گیا ہے اور دیگر پابندیاں نافذ کر دی گئی ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سید علی گیلانی کے انتقال کی خبر کے بعد سری نگر میں ان کے گھر کی جانب جانے والی سڑکوں کو خاردار تاریں اور رکاوٹیں لگا کر بند کر دیا گیا۔

سید علی گیلانی کے گھر کے قریب مرکزی مسجد سے اعلانات میں لوگوں کو کہا گیا کہ وہ ان کی رہائش گاہ کی جانب جائیں، تاہم بکتربند گاڑیاں اور ٹرک علاقے میں مرکزی سڑکوں پر گشت کرتے رہے۔ پولیس نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ باہر نہ نکلیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

92 سالہ سید علی گیلانی کچھ عرصے سے بیمار اور مختلف جسمانی عوارض میں مبتلا تھے۔ ان کے دل کے ساتھ پیس میکر لگا ہوا تھا۔ ان کا پِتہ اور ایک گردہ نکالا جاچکا تھا جبکہ دوسرے گردے کا بھی تیسرا حصہ آپریشن کر کے نکالا جاچکا تھا۔

نیوز ایجنسی کشمیر نیوز آبزرور (کے این او) کے مطابق سید علی گیلانی کی بدھ کی سہ پہر طبیعت خراب ہوئی اور رات ساڑھے 10 بجے ان کا انتقال ہوگیا۔ انہیں سینے میں جکڑن اور سانس لینے میں دشواری کا سامنا تھا۔

تعزیت کا سلسلہ 

سید علی گیلانی کے انتقال پر پاکستانی سیاست دانوں سمیت دیگر اہم شخصیات کی جانب سے سوشل میڈیا پر تعزیتی پیغامات کا سلسلہ جاری ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے سید علی گیلانی کے انتقال پر گہرے دکھ اور غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’انہوں نے قابض بھارتی ریاست کی قید و بند کی اذیتیں برداشت کیں لیکن ہمیشہ پرعزم رہے۔‘

وزیراعظم نے سید علی گیلانی کی جرات مندانہ جدوجہد کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کا پرچم سرنگوں رہے گا اور سرکاری سطح پر یوم سوگ منایا جائے گا۔‘

پارلیمانی کمیٹی برائے کشمیر کے چیئرمین شہریار آفریدی نے سید علی گیلانی کے انتقال پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ ان کے مشن کو آگے لے کر جایا جائے گا۔

حریت رہنما یاسین ملک کی اہلیہ مشعل حسین ملک نے بھی اپنے ٹوئٹر پیغام میں سید علی گیلانی کی وفات پر دکھ اور غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ان کی زندگی جبر اور پیشہ ورانہ طاقتوں کے خلاف ثابت قدم رہنے کے سلسلے میں ہمارے لیے ایک مثال ہے۔‘

سید علی گیلانی کون ہیں؟

سید علی گیلانی 29 ستمبر 1929 کو شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ میں پیدا ہوئے اور 1950 میں ان کے والدین نے پڑوسی ضلع بارہمولہ کے قصبہ سوپور ہجرت کی۔

گیلانی نے اورینٹل کالج لاہور سے ادیب عالم اور کشمیر یونیورسٹی سے ادیب فاضل اور منشی فاضل کی ڈگریاں حاصل کیں۔

1949 میں ان کا بحیثیت استاد تقرر ہوا اور مستعفی ہونے سے پہلے 12 سال تک وہ کشمیر کے مختلف سکولوں میں خدمات انجام دیتے رہے۔

1953 میں وہ جماعت اسلامی کے رکن بن گئے۔ وہ پہلی بار 28 اگست 1962 کو گرفتار ہوئے اور 13 مہینے کے بعد جیل سے رہا کیے گئے۔ 

مجموعی طور پر انہوں نے اپنی زندگی کا 14 سال سے زیادہ کا عرصہ جموں و کشمیر اور بھارت کی مختلف جیلوں میں گزارا جبکہ گذشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے وہ اپنے گھر میں نظربند تھے۔

گیلانی کشمیر میں 15 سال تک اسمبلی کے رکن رہے۔ وہ اسمبلی کے لیے تین بار 1972، 1977 اور 1987 میں سوپور کے حلقے سے جماعت اسلامی کے مینڈیٹ پر منتخب ہوئے تھے۔ انہوں نے 30 اگست 1989 کو اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دیا۔

سید علی گیلانی نے جماعت اسلامی میں مختلف مناصب بشمول امیر ضلع، ایڈیٹر اذان، قائم جماعت اور قائم مقام امیر جماعت کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دیں۔ وہ 30 سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں۔

جماعت اسلامی کے بعد سید علی گیلانی نے تحریک حریت میں شمولیت اختیار کرلی۔

انہوں نے جموں و کشمیر میں مزاحمتی حامی جماعتوں کی ایک جماعت ’کل جماعتی حریت کانفرنس‘ کے ایک دھڑے کے چیئرمین کی حیثیت سے خدمات انجام دیں، تاہم گذشتہ برس جون میں انہوں نے اس فورم سے مکمل علیحدگی کا اعلان کردیا تھا۔

واضح رہے کہ ’حریت کانفرنس‘ کے دو دھڑے ہیں۔ ایک دھڑا جو حریت کانفرنس (گ) کہلاتا ہے اس کی باگ ڈور سید علی گیلانی کے ہاتھوں میں تھی جبکہ دوسرا دھڑا جو حریت کانفرنس (ع) کہلاتا ہے، کی قیادت میرواعظ مولوی عمر فاروق کر رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا