’گیلانی مرا نہیں زندہ ہوگیا‘

’جس طرح ان کی زندگی گذشتہ چار دہائیوں سے ہندوستان جیسے بڑے ملک پر حاوی رہی اس سے زیادہ ان کی موت اگلے دسیوں دہائیوں تک پورے بر صغیر پر حاوی رہے گی۔‘

’گیلانی کی زندگی موت سے کئی گنا بھاری، ہندوستان سے کئی گنا وسیع اور پاکستان سے کئی گنا شاطر ہے۔ ان کی زندگی بھارت کے لیے اتنی اذیت نہیں تھی جتنی ان کی موت جو اس پر صدیوں تک عذاب بن کر رہے گی۔

گیلانی نے زندگی بھر کی سختیاں، جیل اور انٹروگیشن اسی امید میں برداشت کیں کہ انہیں عوام شیخ عبداللہ نہیں بلکہ عمر مختار یا ارطغرل کی طرح ایک پرعزم، پروقار اور ایک موقف پر ڈٹے رہنے والا ہیرو تصور کریں۔ ایسا ہی ہوا جو وہ چاہتے تھے۔ وہ زندگی میں صرف ہیرو تھے لیکن موت کے بعد سپر ہیرو۔‘

یہ خیالات ہیں 15 برس کے بشارت کے جو ایک پرائیویٹ میشنری سکول میں دسویں کلاس میں زیر تعلیم ہیں۔ والد مین سٹریم پارٹی نیشنل کانفرنس کے سرگرم کارکن ہیں اور ماں سماجی ورکر جو بچے کو سیاست سے دور رکھنے کے لیے اپنے خاندان اور اپنے شوہر کو چھوڑ کر دور ایک ہجرے میں رہائش پر مجبور ہوگیں۔

سال 1947 میں بھارت پاکستان بننے کے بعد بشارت کشمیر کی چوتھی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ اس ایک بڑے طبقے کی ترجمانی کرتے ہیں جس کے بارے میں بھارت کی ڈیفنس کمانڈ نے کہا تھا کہ انہیں ڈی ریڈکلازیشن کرنے کے لیے حراستی مراکز میں رکھنے کی ضرورت ہے حالانکہ گیلانی سمیت بیشتر آزادی پسند رہنماؤں کے خلاف عوام کو بدظن کرنے کی ایک بڑی مہم بھی چلائی گئی ہے۔ گیلانی کے لیے ہر کشمیری کے دل میں کہیں ایسا کونہ ضرور موجود ہے جہاں وہ عزت کا مقام رکھتے ہیں۔

سید علی گیلانی سن 1929 کے ستمبر میں شمالی کشمیر کے ایک گاؤں بانڈی پورہ کے نزدیک پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم سوپور سے حاصل کی اور بعد میں لاہور کے اورینٹل کالج میں سیکنڈری تعلیم کے لیے داخلہ لیا۔

انہوں نے تین بار ریاستی اسمبلی کے لیے انتخابات لڑا۔ انیس سو بہتر، انیس سو ستتر اور انیس سو ستاسی میں ممبر اسمبلی رہے ہیں۔ وہ جماعت اسلامی کشمیر کے سرکردہ کارکنوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے بعد میں تحریک حریت کی تنظیم بنائی اور علیحدگی پسند تنظیموں کے اتحاد کے جماعتی حریت کانفرنس کے کئی برس تک سربراہ بھی رہ چکے ہیں جس میں بعد میں اعتدال گروپ سے تعلق رکھنے والے بعض لیڈروں سے اختلاف کی وجہ سے الگ ہوگئے۔

گیلانی نے کشمیر کی صورت حال، اپنی اسیری اور بھارت کی کشمیر پالیسی پر درجنوں تصنیفات لکھی ہیں جن میں روداد قفس، نواے حریت، بھارت کے استعماری حربے، مقتل سے واپسی اور ولر کنارے کافی مقبول عام بن گئیں ہیں۔

سید علی شاہ گیلانی کے بارے میں ان کی پاکستان نواز سیاست پر بعض اہم سوال ہر دور میں اٹھائے گئے ہیں۔

ان میں سے ایک یہ کہ اگر وہ 1947 میں پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد جموں و کشمیر کا الحاق پاکستان سے کرنے کے خواہش مند تھے تو انہوں نے ہندوستان کے آئین کے تحت ریاستی انتخابات میں حصہ کیوں لیا؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر وہ پکے پاکستان نواز تھے تو 1979 میں جب مکمل آزادی کی خواہش مند تنظیم جے کے ایل ایف نے عسکری تحریک شروع کی تو انہوں نے اس تحریک کی حمایت کرکے یہ تاثر کیوں دیا کہ وہ الحاق پاکستان نہیں بلکہ مکمل آزادی کے خواہاں ہیں۔

میں نے چند برس پہلے علی گیلانی سے کئی بار یہ سوالات پوچھے ہیں جن کی ریکارڈنگ شاید بی بی سی کے آرکایوز میں موجود بھی ہوں۔ گیلانی صاحب نے پہلے سوال کے جواب میں ہمیشہ کہا کہ ’انتخابات میں شامل ہونا ہماری مجبوری تھی کیونکہ مقامی سطح پر عوام کو بنیادی سہولیات تک میسر نہیں ہوتی تھیں، عوام کو بنیادی سہولیات پہنچانے کا صرف یہی راستہ تھا۔ ہمارا مقصد یہ بھی تھا کہ جمہوری طور پر اسمبلی کے فلور پر کشمیر تنازعہ اٹھائیں جیسے سکاٹ لینڈ والے اٹھاتے ہیں۔ قومی دھارے میں آ کر ہمیں ہندوستان کی نیت کا بھرپور انداز بھی ہوگیا کہ وہ اصل میں جموں و کشمیر کے عوام سے کوئی ہمدردی نہیں رکھتا بلکہ یہاں کی زمین پر قبضہ جمائے رکھنا چاہتا ہے۔ میں راے شماری کے حق میں 1960 میں بھی جیل چلا گیا تھا۔ ہم نے ہندوستان کو کئی بار موقعہ دے دیا کہ جموری طور پر بھی اس تنازعے کا حل ڈھونڈا جاسکتا ہے مگر اس کو نہ ہمارا جمہوری طریقہ پسند آیا اور نہ ہمارا آزادی پسند بننا۔ ہار تو اس بڑے ملک کی ہے کہ جس نے ہماری قوم پر شب خون مار کر ہماری آنے والی نسلوں کو برباد کرنے کا منصوبہ بنایا ہے مگر ہماری جنگ تب تک ختم نہیں ہوگی جب تک نہ ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوتے ہیں، یہ ایک فرد کی جنگ نہیں پوری قوم کی ہے اور میں اس قوم کا ایک ادنی فرد ہوں۔‘

سید علی گیلانی نے دوسرے سوال کا جواب سیاست دان کی طرح ہمیشہ گول مول میں دیا ہے۔ ’جے کے ایل ایف ہو یا حزب المجاہدین یا اور کوئی اور تنظیم، ہم سب کا ایک مقصد ہے کہ ہندوستان کی فوج کو اپنی رہاست سے باہر نکالنا اور آزادی یا الحاق پاکستان پر ہم بعد میں غور کرسکتے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ ہمارا مذہبی اور ثقافتی رشتہ ہے اور اس رشتے کو کسی بھی صورت میں ہمیں قائم ودائم رکھنا ہے۔ راستے مختلف ہوسکتے ہیں مگر ہم سب کی ایک منزل ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گیلانی کی پاکستان پسندی اس وقت بہت مہنگی بھی پڑی جب سابق فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف نے چار نکاتی فارمولا پیش کرکے انہیں خاموش رہنے کی تلقین کی۔ بعض ذرائع کے مطابق مشرف نے گیلانی سے سارے تعلقات منقطع کرنے کی ہدایات بھی دی تھیں جس کے فورا بعد گیلانی نے ان کے خلاف سخت بیانات جاری کرنا شروع کیا۔ اس کا فائدہ بھارت نے خوب اٹھایا تھا۔

گیلانی کا پاسپورٹ بھارت مخالف سرگرمیوں پر 1981 سے ضبط کیا گیا ہے جس کے باعث وہ علاج کرنے باہر نہیں جاسکے حالانکہ انہوں نے کئی بار حکومت سے اس کی اجازت بھی مانگی تھی۔

گیلانی پر غداری کے علاوہ کئی مقدمات چل رہے ہیں جن میں وہ معاملہ بھی شامل ہے جو حال ہی میں اینفورسمینٹ ڈائریکٹوریٹ نے درج کیا جس میں انہیں غیرملکی کرنسی رکھنے پر جرمانہ بھی عائد کردیا گیا تھا۔

گیلانی صاحب نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ جیلوں میں گزارا جبکہ گذشتہ تقریباً دس برسوں سے اپنے مکان میں نظر بند رہے ہیں۔

دوران اسیری انہیں صحت کے سنگین مسائل پیدا ہوئے لیکن قرآن کی تلاوت یا نماز کو کبھی نہیں چھوڑا۔

سن نوے کے بعد وہ حکومت بھارت اور ان کی پالیسیوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹے رہے جس کی وجہ سے انہیں آزادی پسند رہنماؤں میں سب سے زیادہ عزت حاصل ہے۔ ہڑتال کی بار بار کی کال دینے پر بعض کشمیری انہیں ہڑتالی بب (بابا) بھی پکارتے تھے اور بیشتر کشمیری ان کے خلاف کچھ بولنے پر جنونی ہوتے ہیں۔

گیلانی صاحب سے سیاسی اختلافات کتنے رہے ہوں مگر جب وہ کسی پر شفقت کا ہاتھ رکھتے ہیں تو کبھی اس سے محروم نہیں کرتے۔ میرے لیے گیلانی صاحب کی شفقت ایک بڑا سرمایہ ہے۔ انہوں نے کئی محفلوں میں میری کتاب دہشت زادی پر تبصرے کیے اور کتاب تلاش کرنے کے لیے خود ایک کتابی میلے میں چلے گئے تھے گوکہ انہیں لفظ دہشت زادی پر اعتراض تھا۔

میں نے اپنے خاندان کے بزرگوں سے اکثر سنا ہے کہ ’گیلانی کے خلاف شیخ عبداللہ سے زیادہ پروپیگینڈا کیا گیا مگر گیلانی چونکہ صوم وصلوات اوراپنے موقف پر قائم رہے ہیں لہذا ان پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا اور وہ ناصرف اب تک دشمن کو مات دیتے گئے بلکہ قوم کے ہر دلعزیز رہنما بھی بن گئے جس کی انہوں نے تمنا کی تھی۔ بقول ایک تجزیہ نگار ’جس طرح ان کی زندگی گذشتہ چار دہائیوں سے ہندوستان جیسے بڑے ملک پر حاوی رہی اس سے زیادہ ان کی موت اگلے دسیوں دہائیوں تک پورے بر صغیر پر حاوی رہے گی۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ