حکومتی میڈیا ادارے ’بے ہنگم اخراجات، غیر تسلی بخش کارکردگی‘

وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات کے مطابق اس غیر تسلی بخش کارکردگی کی وجہ سے میڈیا کی تمام شاخوں کو ایک چھتری کے نیچے لانے کے لیے پاکستان میڈیا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) کا قیام تجویز کیا گیا ہے۔ 

’قوانین اور ادارے ہونے کے باوجود پاکستان میں میڈیا ورکرز اور جھوٹی خبروں کے مسائل جوں کے توں موجود ہیں۔‘ (تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)

پاکستان میں میڈیا سے متعلق تمام حکومتی اداروں کی کارکردگی ’بے ہنگم اخراجات کے باوجود غیر تسلی بخش‘ رہی ہے، اس لیے میڈیا کی تمام شاخوں کو ایک چھتری کے نیچے لانے کی غرض سے پاکستان میڈیا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) کا قیام تجویز کیا گیا ہے۔ 

یہ کہنا تھا تحریک انصاف کی وفاقی حکومت میں وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات فرخ حبیب کا، جو منگل کی شام ان کی وزارت سے متعلق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو مجوزہ پی ڈی ایم اے پر بریفنگ دے رہے تھے۔ 

انہوں نے کہا کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے متعلق قوانین اور ادارے ملک میں موجود ہیں لیکن سوشل میڈیا ایک بالکل نیا میدان ہے، جس سے متعلق پاکستان میں خاطر خواہ قانون سازی نہیں ہو پائی ہے۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ قوانین اور ادارے ہونے کے باوجود پاکستان میں میڈیا ورکرز اور جھوٹی خبروں کے مسائل جوں کے توں موجود ہیں۔ 

’سوشل میڈیا سے پیدا ہونے والی جھوٹی خبریں معاشرے کے لیے سب سے بڑی تشویش کا باعث بن رہی ہیں، اور اس کا سدباب بہت ضروری ہے۔‘ 

فرخ حبیب نے اپنی بریفینگ کے دوران ملک میں موجود میڈیا سے متعلق اداروں کا ذکر کرتے ہوئے ایمپلیمینٹیشن ٹریبونل فار نیوز پیپرز ایمپلائز (آئی ٹی این ای)، پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) اور پریس کونسل آف پاکستان کے خصوصا نام لیے۔ 

انہوں نے کہا کہ آئی ٹی این ای کا سالانہ پانچ کروڑ روپے کا بجٹ ہے، لیکن اب تک دس ہزار میں محض چند سو درخواستوں کا فیصلہ ہو پایا ہے۔ 

مسلم لیگ نواز کے سینیٹر عرفان صدیقی نے دریافت کیا کہ آئی ٹی این ای کے چئیرمین کون ہیں؟ جس پر حکومتی اراکین کی طرف سے بتایا گیا کہ اس سال مارچ سے کوئی تعیناتی نہیں ہو پائی ہے۔ 

اس موقع پر عرفان صدیقی کا کہنا تھا: ’اگر حکومت میڈیا اور میڈیا ورکرز کی اتنی ہی ہمدرد ہے تو موجود اداروں میں بھرتیاں تو ہو جانا چاہیے تھیں۔‘  

حکومتی اراکین نے دریافت کرنے پر بتایا کہ پریس کونسل آف پاکستان کے چئیرمین کی تعیناتی بھی تاخیر کا شکار ہے۔ 

کمیٹی کے چئیرمین فیصل جاوید خان نے اس موقع پر کہا کہ حکومت کو پیمرا کے معاملے کو بھی دیکھنا چاہیے۔ ’آپ پیمرا کو بھی تھوڑا سا تگڑا کر لیں۔‘ 

ایک دوسرے موقع پر فیصل جاوید خان نے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی جلسے سے تقریر نشر کرنے پر پاکستان ٹیلی ویژن کے خلاف کارروائی کا مشورہ بھی دیا۔  

انہوں نے کہا کہ پی ٹی وی ریاستی ادارہ ہے اور اسے ریاست کی خبریں چلانا چاہیے نہ کہ قائد حزب اختلاف کے عوامی جلسے، اور اس سلسلے میں پی ٹی وی کے خلاف کارروائی ہونا چاہیے۔ 

فیصل جاوید نے کہا کہ اس سے پاکستان میں میڈیا کی آذادی کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے، جس پر عرفان صدیقی نے لقمہ دیتے ہوئے کہا کہ کسی روز نواز شریف کی تقریر بھی دکھا دیں۔ 

حزب اختلاف کے سینیٹر کی طرف سے طنز پر وزیر مملکت فرخ حبیب نے کہا کہ نواز شریف ملک واپس آ جائیں اور اپنی سزا مکمل کر لیں تو ان کی تقریر بھی دکھائی جا سکتی ہے۔ 

مجوزہ پی ایم ڈی اے پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان میں میڈیا کے لیے ایک خوف کی فضا ہے، جو ماضی میں مارشل لا کے ادوار میں بھی نہیں دیکھی گئی۔ 

انہوں نے کہا: ’ہو سکتا ہے میڈیا پر پابندیاں حکومت کی طرف سے نہ ہوں تاہم ایک فضا ایسی بنی ہوئی ہے کہ میڈیا آزادی محسوس نہیں کر رہا اور اسے سانس لینے میں بھی دشواری ہو رہی ہے۔‘ 

اس سلسلے میں عرفان صدیقی نے کچھ عرصہ قبل کی ایک کال کا ذکر کیا جس میں انہوں نے بعض سابق فوجی جرنیلوں کا نام لیا تھا، جسے اخبار نے چھاپنے سے انکار کر دیا۔ ’اور وہی کالم سوشل میڈیا پر ڈیڑھ لاکھ مرتبہ پڑھا گیا۔‘ 

کمیٹی چئیرمین فیصل جاوید نے کہا کہ آج پاکستان میں میڈیا جتنا آزاد ہے ایسا کبھی نہیں تھا، اور انہوں نے اس سلسلے میں تحریک انصاف کے دھرنوں کی مثال دی جنہیں پی ٹی وی نہیں دکھاتا تھا۔ 

پی ایم ڈی اے کیا ہے؟ 

فرخ حبیب نے کمیٹی کے اجلاس کو بتایا کہ پاکستان میں موجود میڈیا سے متعلق تمام اداروں کو پی ایم ڈی اے میں ضم کر دیا جائے گا، اور میڈیا کی ہر قسم کے لیے ایک ڈائریکٹوریٹ کام کرے گا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا پی ایم ڈی اے بارہ اراکین پر مشتمل ہو گی، جن میں سے چھ وفاقی حکومت کے باقی چھ اراکین چار صوبائی اور جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان حکومتوں کی طرف سے تعینات کیے جائیں گے۔ 

انہوں نے بتایا کہ بارہ رکنی اتھارٹی کے علاوہ پی ایم ڈی اے کمپلینٹ کمیشن اور ٹریبونل پر مشتمل ہو گی، جہاں ہر درخواست پر فیصلہ اکیس روز میں کیا جائے گا۔ 

فرخ حبیب نے کہا کہ کمیٹی اراکین کو دیکھنا ہو گا کہ کیا میڈیا خصوصا سوشل میڈیا اور جھوٹی خبروں سے متعلق کوئی قانون سازی کا ہونا ضروری ہے یا نہیں؟ کیا کارکن صحافیوں کی بہبود کے لیے اقدامات ضروری ہیں یا نہیں؟  

کارکن صحافیوں کی نمائندہ تنظیموں اور میڈیا اداروں کے مالکان کی تنظیموں نے پی ایم ڈی اے کے قیام کی تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا ہے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان