پاکستان میڈیا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کو ڈریکونین قانون کیوں کہا جا رہا ہے؟

اشتہار میں جن نکات کی نشاندہی کی گئی ہے ان کے مطابق پی ایم ڈی اے کا مجوزہ قانون سینسرشپ کے ذریعے میڈیا میں موجود تنقیدی آوازوں کو دبانے کے مقصد سے لایا جا رہا ہے۔

28 اکتوبر 2017 کو کراچی میں ہونے والے ایک مظاہرے میں شریک صحافی اور سول سوسائٹی کے ارکان(فائل فوٹو: اے ایف پی)

سنیچر کو پاکستان کے تقریباً تمام بڑے اخبارات میں حکومت کی مجوزہ پاکستان میڈیا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) کے حوالے سے چھپنے والے اشتہارات میں اس اتھارٹی کو پاکستان میں میڈیا اور پریس کی آواز کو دبانے کی ’سخت ترین کوشش‘ قرار دیا گیا ہے۔

یہ اشتہارات آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی، پاکستان براڈکاسٹنگ ایسوسی ایشن، کونسل آف پاکستان نیوزپیپرز ایڈیٹرز اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی جانب سے چھپوائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ایسوسی ایشن آف الیکٹرانک میڈیا ایڈیٹرز اینڈ نیوز ڈائریکٹرز بھی ان اشتہارات کے تشیہر کندگان میں شامل ہے۔

اشتہار کے مطابق ’پاکستان پہلے ہی رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس کے مطابق دنیا بھر میں 145 درجے پر ہے اور یہ مجوزہ قانون عالمی برادری کی نظر میں پاکستان کی ساکھ کو خراب کرنے کی وجہ بنے گا۔‘

اشتہار میں جن نکات کی نشاندہی کی گئی ہے ان کے مطابق ’پی ایم ڈی اے کا مجوزہ قانون سینسرشپ کے ذریعے ذرائع ابلاغ میں موجود تنقیدی آوازوں کو دبانے کے مقصد سے لایا جا رہا ہے۔‘

اشتہار کے مطابق ’پاکستان تحریک انصاف نے اپنے منشور میں آزادی اظہار اور ایک آزاد میڈیا کی ضمانت دی ہے، اس وعدے سے پھر جانا پاکستان کے ایک جمہوری معاشرے کے تشخص کو بری طرح متاثر کرے گا۔‘

اشتہار میں اس مجوزہ قانون کو ’کالا قانون‘ قرار دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ’وہ وزارت اطلاعات کو انہیں گمراہ کرنے کی اجازت نہ دیں۔‘

اس کے علاوہ وزیر اعطم عمران خان سے اس قانون کو نافذ نہ کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔

صحافتی تنظیموں کی جانب سے چھپنے والے اس اشتہار میں کہا گیا ہے کہ آئین میں دی جانے والی جمہوری آزادیوں کو سلب کرنے سے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔

صحافتی تنظیموں کے علاوہ حزب اختلاف کی جماعتوں نے بھی اس مجوزہ قانون کے حوالے سے اپنے موقف کا اظہار کیا ہے۔

پاکستان کے بڑے میڈیا گروپ جنگ سے وابستہ جیو نیوزکے مینیجنگ ڈائریکٹر اور سینیئر صحافی اظہر عباس نے انگریزی روزنامے میں ایک کالم لکھا ہے جس میں انہوں نے اس اتھارٹی کے قیام کے نقصانات کا جائزہ لیا ہے۔

اس کالم میں اظہر عباس نے پی ایم ڈی اے کے قیام کو ڈریکونین قانون کے مترادف قرار دیا جو پاکستان کو سابق فوجی حکمران ضیا الحق کے دور میں واپس لے جائے گا۔

ان کے مطابق اس اتھارٹی کے قیام سے حکومت ذرائع ابلاغ پر اپنا مکمل کنٹرول حاصل کرنا چاہتی ہے۔

صرف صحافتی حلقے ہی نہیں بلکہ سیاسی جماعتیں بھی پی ایم ڈی اے کے قیام کی مخالفت کر رہی ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما اور رکن قومی اسمبلی شازیہ مری نے اپنے ایک بیان میں حکومت پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس قانون کے ذریعے ’حکومت اپنے جرائم پر پر پردہ ڈالنا چاہتی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کا اس قانون کے ذریعے فیک نیوز پر قابو پانے کا دعوی غلط ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پیپلز پارٹی کے علاوہ مسلم لیگ ن بھی اس مجوزہ قانون کی مخالفت کر چکی ہے اور مسلم لیگ کی رہنما اور سابق وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے اس قانون کو نامنظور اور مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’حکومت یہ قانون اس لیے لا رہی ہے کہ کوئی الیکشن چوری کرنے پر اسے سلیکٹڈ، کرپٹ اور چور نہ کہے۔‘

انہوں نے حکومت پر الزام عائد کیا کہ ’آپ ملک میں بی جے پی اور نازی پارٹی کی فسطائیت پر مبنی سوچ مسلط کرنا چاہتے ہیں۔‘

انہوں نے وزیر اعظم عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ’اس قانون کے تحت عمران خان سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بننا چاہتے ہیں۔‘

تاہم وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اپنی ٹویٹس میں پی ایم ڈی اے کے حوالے سے لکھا کہ ’میڈیا ڈویلپمنٹ ااتھارٹی میں میڈیا ورکرز کے اپنی آرگنائزیشن کے ساتھ معاہدے پر عملداری کے لیے میڈیا ٹریبونلز سے رجوع کرنے کے حق اور فیک نیوز پر جرمانے کی شقوں کے علاوہ مجوزہ قانون میں ہر تبدیلی منظور ہے لیکن غریب میڈیا کارکنان کوقانونی داد رسی کا حق دینا ہمارا فرض ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’فیک نیوز کو کیسے میڈیا سیٹھ کا حق مانا جا سکتا ہے؟ ہمارے موجودہ میڈیا ماڈل میں عام آدمی۔ غریب میڈیا کارکن اور پبلک انٹرسٹ تینوں کا تحفظ نہیں بلیک میلنگ کو اپنا حق قرار دینا اور اشتہار دینا صرف پاکستان میں ہی ممکن ہے۔‘

یاد رہے فواد چوہدری اس سے قبل بھی پاکستان میڈیا اتھارٹی کے ذریعے فیک نیوز پر قابو پانے اور صحافیوں کو تنخواہوں کی ادائیگی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری قرار دے چکے ہیں۔

پاکستان اس بات کی مثال کم ہی ملتی ہے کہ ذرائع ابلاغ کے مالکان، مدیران اور صحافتی تنظیمیں کسی معاملے پر یک زبان ہوں اور ایک ہی مطالبہ کر رہی ہوں۔

ہفتے کو ذرائع ابلاغ میں ہی چھپنے والے ان اشتہارات کے حوالے سے راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس کے صدر عامر سجاد سید کا انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’اس مجوزہ قانون کے خلاف ان کی تنظیم نے احتجاجی تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان