’نائن الیون حملوں کا اثر گہرا لیکن مسلسل ہو رہا ہے‘

امریکہ کی بوسٹن یونیورسٹی میں سیاست، دہشت گردی اور عالمی امور کے ماہر پروفیسر عادل نجم کہتے ہیں کہ نائن الیون حملوں کے بعد امریکہ میں جو سوچ تھی وہ انصاف نہیں انتقام پر مبنی تھی۔

11 ستمبر 2001 کی صبح امریکی شہر نیو یارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے مناظر (اے ایف پی فائل)

نائن الیون حملوں کے بعد دنیا کس طرح سے تبدیل ہوئی اور اس کے مسلمانوں پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟

یہ جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے امریکہ کی بوسٹن یونیورسٹی کے ڈین پروفیسر عادل نجم سے کچھ سوالات کیے جو یہاں قارئین کے لیے پیش کیے جا رہے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو نے پروفیسر عادل نجم سے یہ بھی جاننے کی کوشش کی کہ 9/11 کے بعد دنیا خاص طور پر مسلم دنیا کس طرح تبدیل ہوئی اور کیا اس کے اثرات امریکی معاشرے پر بھی مرتب ہوئے یا نہیں؟ اور کیا 9/11 کے نتیجے میں چھڑنے والی جنگیں کامیاب رہیں؟

پروفیسر عادل نجم سیاست، دہشت گردی اور دیگر عالمی امور پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

 

نائن الیون کے اثرات؟

اس خصوصی انٹرویو میں پروفیسر عادل نجم کا کہنا تھا: ’9/11 کا اثر تو بہت گہرا ہوا ہےاور نہ صرف ہوا ہے بلکہ مسلسل ہو رہا ہے۔ یہ ایسی بات نہیں ہے کہ ایک واقع ہوا اور اس کا کوئی اثر ہوا اور اس کے بعد ہم نے وہ اثر دیکھا۔ یہ اثر آہستگی سے ہو رہا ہے اور ہر گزرتے وقت کے ساتھ ہر گزرتے سال کے ساتھ اس کے اثرات اور نمایاں ہوتے ہیں۔ آپ ائیرپورٹ کیسے جاتے ہیں؟ جب آپ ائیرپورٹ جاتے ہیں آپ کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ آپ کو جوتے کیوں اتارنے پڑتے ہیں؟ نئے لفظ آگئے ہیں، جیسے سرویلنس، آپ سے سوال پوچھنے کے۔ ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھنے، تعصب کے لفظ آگئے، ڈر کے لفظ آگئے۔‘

عادل نجم کا کہنا تھا:  ’میرے خیال میں تعصب سے زیادہ جو اس (9/11 ) کا نتیجہ ہوا ہے وہ ڈر ہے۔ ڈر کسی بھی معاشرے کے لیے زہر ہوتا ہے۔ شروع میں جو ڈر تھا وہ دہشت گردی کے نعرے کو مسلمانوں سے منسوب کرنے سے ہوا۔ لیکن پھر ہم نے دیکھا کہ خوف کا زہر معاشرے میں پھیلتا ہے وہ دوسری قسم کے تعصب سے پھیلتا ہے۔ ایک طرح سے آپ کہیں گے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا انتخاب وہ یقیناً صرف 9/11 کی وجہ سے نہیں تھا، لیکن 9/11 کے جو اثرات تھے یا ان کا جو سایہ تھا معاشرے پر ان کا بھی بہت اثر پڑا۔ ان سے جو معاشرے میں دراڑیں پڑیں جو توڑ پھوڑ ہوئی وہ اثر پڑا۔‘

نائن الیون اور اسلاموفوبیا؟

پروفیسر عادل نجم کے مطابق: ’9/11 کا اثر یقیناً دنیا بھر کے مسلمانوں بشمول امریکہ میں بسنے والے مسلمانوں پر بھی ہوا۔ اس حادثے کے بعد امریکہ میں جو کارروائی ہوئی، جو قوانین بنے چاہے وہ سفر کے لحاظ سے ہو چاہے وار آن ٹیرر کے لحاظ سے یا جنگوں کے لحاظ سے، ان سب کا ایک جیسا اثر ہوا، کیونکہ ان میں سے بہت سوں کا ہدف اسلام اور مسلمان بن گئے۔ جو خوف کی فضا پھیلی اس میں جو انگلیاں اٹھیں وہ سب سے زیادہ مسلمانوں پر اٹھیں اور اس کا سایہ اب بھی ہے۔ نہ صرف ان مسلمانوں پر جو امریکہ میں رہتے ہیں بلکہ جو امریکہ سے باہر ہیں ان پر بھی ہے۔ تمام دنیا اس سے تبدیل ہوئی لیکن میں یہ بھی کہوں گا کہ ایک تو اسلاموفوبیا کا یقیناً اثر پڑا لیکن صرف اسلامو فوبیا کا نہیں پڑا بلکہ اگر آپ مسلمان ہیں اور کہیں بھی ہیں تو آپ کا اپنے اوپر جو اثر پڑا، اس کا امریکہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ مسلمان خود سے سوال کرنے لگے کہ وہ جس دین کے پیروکار ہیں اسی سے تعلق رکھنے والوں نے اسی کے نام پر ایک سنگین اور غیر انسانی کارروائی کی جس میں کئی ہزار افراد مارے گئے۔ 

انہوں نے کہا: ’اس میں بہت سارے مسلمان تو انکار کی کیفیت میں چلے گئے کہ نہیں جی یہ تو ہوا ہی نہیں۔ اس قسم کی احمقانہ قسم کی تھیوریز آگئیں اور دوسرے جو تھے ان کی انکار کی کیفیت دوسری طرح کی تھی کہ یہ اصل میں ایسا نہیں ہے۔ یہ دہشت گردی تھی 9/11 تو اس کی علامت تھی دہشت گردی ہم پاکستان میں دیکھتے ہیں دوسرے ممالک میں دیکھتے ہیں۔ پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ کیا ہے اور ہمیں کیا کرنا ہے؟ اپنی حفاظت کے لیے دنیا کی حفاظت کے لیےاور سب سے زیادہ اس نظریے، اس اعتقاد کی حفاظت کے لیےجو ہمارے لیے اتنا اہم ہے؟‘

پروفیسر عادل نجم کے مطابق ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی عمارتیں گرنے کے مناظر ایسے اثرانداز تھے کہ امریکی حکومت کو انصاف سے زیادہ بدلے کی سوچ آئی؟‘

ان کا کہنا ہے کہ ’اس وقت ایک حکومت ایسی تھی اس حکومت میں اوردوسری اسٹیبلشمنٹ میں جب بھی کسی کی ذات یا شناخت پر اتنا بڑا حملہ ہوتا ہے تواس میں بہت سی چیزیں نکلتی ہیں تو اس میں جو انتقام نکلا وہ نہ صرف 9/11 کے حوالے سے تھا۔ بلکہ دوسرے حوالوں سے بھی نکلا۔ امریکہ اس وقت اکیلا سپر پاوور تھا اس نےجب اپنا غصہ دکھانے کی کوشش کی اس سے جو جنگیں شروع ہوئیں ابھی بھی جاری ہیں چاہے وہ افغانستان میں ہوں یا عراق میں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پروفیسر عادل نجم کہتے ہیں ان کے خیال میں ان جنگوں سے دہشت گردی کا کوئی مداوا ہوا ہو یا نہ ہوا ہو لیکن دنیا کےنقشے اور سیاست بدل کر رہ گئی اور امریکہ خود بدل کر رہ گیا۔ 

پروفیسر عادل نجم کے مطابق ’اگر دہشت گردی کی کامیابی یہ ہے کہ دہشت یا خوف پھیل جائے۔ اس کے نتیجے میں آپ بے قابو ہو جائیں تو اس لحاظ سے میرے خیال میں 9/11 کے نتائج ہمیں دہشت کی شکل میں نظر آتے ہیں جس میں بے قابو ہونے کی کیفیت ہمیں جنگوں اور تشدد کی شکل میں نظر آتی ہے۔'

اانہوں نے امریکی ردعمل کے بعد سے آج ہمیں ایسی کئی تنظیمیں دکھائی دیتی ہیں جیسے داعش جن کا وجود نہیں تھا اور اگر تھا تو ہمیں معلوم نہیں تھا۔ ’ایک طرح سے ایک چین ری ایکشن 9/11 سے شروع ہوا اور آج بھی جاری ہے۔‘

وار آن ٹیرر اور امریکی سیاست

پروفیسر عادل نجم کہتے ہیں: ’وار آن ٹیرر جب شروع ہوئی تب بھی ایک بحث یہ تھی کہ یہ لفظ کیا ہے؟ دہشت گردی کا تو مقصد ہی دہشت ہےاگر آپ دہشت پر جنگ بھی دہشت سے کریں گے تو ایک طرح سے نفی ہو جاتی ہے۔ امریکی سیاست کے اندر کی جو دراڑیں تھیں یہ اس کا عروج بھی تھا۔ نہ صرف یہ 9/11 تھا۔ 'لیکن پھر ہم نے دیکھا کہ 9/11 کے دس سال بعد اور آج سے دس سال پہلے دہشت گردی کے لفظ کا استعمال کم ہونا شروع ہو گیا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’خصوصاً اوباما کے دور حکومت میں اسے آفیشل سینکشن نہیں ملی، کیونکہ ایک طرح سے یہ ظاہر ہوگیا کہ یہ جنگ جیتی نہیں جا سکتی اس میں صرف موت ہوسکتی ہے، نقصان ہو سکتا ہے کہ اگر ہم نے دہشت گردی کو اصل میں شکست دینی ہے تو وہ جنگوں سے نہیں ہو سکتا کیونکہ کوئی دوسری فوج آپ کے سامنے نہیں ہے جس سے آپ جنگ لڑ رہے ہیں لیکن جب مسئلہ دہشت گردی کا ہو تو وہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے پھر وہ مسئلہ صرف ہتھیار یا تشدد کا نہیں ہوتا۔ وہ مسئلہ نظریے کا ہوتا ہے۔‘

عادل نجم کے مطابق: ’مسئلہ اس خوف کا ہوتا ہے جس کی وجہ سے آپ ردعمل دے رہے ہیں۔ وہ مسئلہ اس غصے کا ہوتا ہے جس کی وجہ سے دوسری طرف سے ایکشن آرہا ہے۔ جب اس کا ملبہ گرتا ہے وہ تمام دنیا پر گرتا ہے جیسا ہم نے گذشتہ 20 سالوں میں دیکھا۔ یہ ایک غلط آئیڈیا تھا کیونکہ ایک بڑی طاقت جس کے پاس بڑی فوجی قوت ہے اس کا پہلا ردعمل یہ تھا کہ 'اچھا تم نے مجھ سے پنگا لیا ہے میں بتاتا ہوں تمہیں' اور میں کیسے بتاتا ہوں کیونکہ میرے پاس اتنی بڑی فوج ہے میں اس فوج کو تعینات کر دیتا ہوں لیکن ایک طرح سے یہ فوج کی ناکامی نہیں ہےب لکہ ٹول کی ناکامی ہے آئیڈیا کی ناکامی ہے۔‘

اسلام مخالف سوچ کے بڑھنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے پروفیسر عادل نجم کا کہنا تھا:  ’یہ ایک المیہ ہے کہ ایک تھیوری جو دہشت گرد بھی چاہتے تھے اور دوسرے بھی شاید چاہتے تھے کہ یہ اسلام بمقابلہ مغرب اور اسلام بمقابلہ امریکہ کی جنگ بن جائے تو وہ بن گئی اور اس کا ملبہ ہم نے مسلمان ممالک پر بھی دیکھا لیکن اس سے کہیں زیادہ مسلمان افراد پر دیکھا۔ انفرادی سطح پر دیکھا اور دنیا بھر میں دیکھا۔ اور میرے خیال میں یہ بحث اتنی نہیں ہوئی جتنی ہونی چاہیے تھی۔ اسلام و فوبیا پر وہ بحث مغرب میں ہوئی جو ہونی چاہیے تھی کہ ہمارے معاشرے میں اسلام کے خلاف نفرتیں اتنی آسانی سے کیوں بھڑک جاتی ہیں؟‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا