تحفے کا سسٹم

جب پارٹی فنڈز، الیکشن فنڈز اور پارٹی لیڈر کو ملنے والے تحائف بے حساب آئیں اور اندھے کنوئیں میں چلے جائیں تو کیسے ریاست کے سب سے بڑے گھر میں آنے والے والے تحائف کا حساب بےباک ہوسکتا ہے؟

تحفہ بزنس مین کی بہترین انشورنس پالیسی ہے(اے ایف پی)

یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں

 


 آپ پتہ نہیں تحفے کو کن معنوں میں لے گئے۔ تحفے کا لفظ اپنے اندر فلسفے کا سمندر رکھتا ہے۔

ہمارے لوگ ان دنوں تحفے سے مراد اس شخص کو لیتے ہیں جو خود آیا نہیں لایا گیا ہو حالانکہ کرارے نوٹ، عشرت کا کچھ سامان، حسرت کی کچھ اشیا، تحفہ تو کسی بھی شکل میں ہو سکتا ہے۔

دنیا میں کوئی ایک شخص ایسا دکھا دیں جسے تحفہ لینا پسند نہ ہو۔ گھر آئی لکشمی کی آرتی اتارتے ہیں، سوال نہیں پوچھے جاتے کہ کہاں سے آئے ہیں یہ جھمکے، کس نے پہنائے ہیں یہ جھمکے۔

آدمی بدنصیب ہونے کے ساتھ بداخلاق بھی ہو تو پھر تحفے نہیں ملتے۔ البتہ تحفہ لینے والوں کی اقسام کئی ہیں۔ جیسے کہ میز کے نیچے سے لینے والے شرمیلے افراد، غرا کر نکلوانے والے غصیلے افراد، ایک ادا سے بٹورنے والے حسین و ہینڈسم لوگ۔

یہ چھوٹے موٹے تحفے ہیں جو بائیک والے سگنل توڑ کر دیتے ہیں، فارما کمپنیاں ڈاکٹرز کو دیتی ہیں، لمبی چھٹی کے لیے سرکاری ملازم اپنے باس کو دیتے ہیں اور ہوٹل والے فوڈ انسسپکٹرز کو دیتے ہیں۔ یہ تحفے وہ تیڑھی انگلی ہوتے ہیں جو گھی نکالنا جانتی ہے۔

 مگر آج ہم تحفہ کلچر کے ثمرات کو بڑے سکیل پہ جانچنے کی کوشش کریں گے۔ تحفہ انسانی تعلقات کے دشوار موڑ پہ ایک ملٹی ڈائمنشن انٹریکشن یعنی کثیرالجہتی رابطہ ہے، جو مطلوبہ نتائج کے حصول کا ثابت شدہ کامیاب ذریعہ ہے۔

تحفہ برائے چھوٹا موٹا مقصد بعض موقعوں پہ نذرانہ کہلاتا ہے جو کہ مزاروں کے گدی نشین، سیاست کے گدی نشین اور نام نہاد صحافت کے گدی نشین شکریے کے ساتھ وصولتے ہیں۔ یہ تحفے کی معمولی قسم ہے، لینے والا اسے فضل ربی سمجھ کر قبول کر لیتا ہے۔

 تحفہ اگر سیاسی پیشکش ہو تو اس کا کوئی نام نہیں، یہ بس دے دیا جاتا ہے۔ جب دیا جا رہا ہو اس وقت مقاصد واضح نہیں ہوتے، اسے سوغات میں چھپی دور اندیشی کہہ لیں۔

نہ اس کا کوئی بینکنگ چینل ہوتا ہے، نہ اسے ٹیکس والوں کے سامنے قانون کے کسی خانے میں رکھا جاسکتا ہے۔ ہاں مگر یہ ہوتا ہے تو سیاست میں اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔

بیرون ملک جائیدادیں، مفت دورے، پرتعیش بنگلے، میلوں پھیلے رقبے، مہنگی گاڑیاں اور نجانے کیا کچھ، ایسے تحفوں کی فہرست میں ہیرے کی انگوٹھی سے ہاتھی تک کچھ بھی ممکن ہے۔

یہ تحفے کا خاموش لین دین ہے، اس کا تب پتہ چلتا ہے جب وفادار کارکن کو چیف فنانسر کے پیچھے والی نسشت ملتی ہے، یہاں تک کہ تحائف کے دم سے پارٹی ٹکٹ بھی مل جاتاہے۔ عوام کو پتہ بھی نہیں چلتا اور یہ تحفے اسمبلیوں تک جا پہنچتے  ہیں۔

تحفہ بزنس مین کی بہترین انشورنس پالیسی ہے، ٹھیکداروں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں کے تحفے بےمقصد نہیں ہوتے۔

یہ تحفے بہت کیلکلویٹد اور ٹارگٹ کے مطابق ہوتے ہیں۔ یہ ایک قسم کی سرمایہ کاری ہی ہوتی ہے جس میں لگانے والا اپنے تحفے سے ڈبل مالیت نکلوانے کا ہنر جانتا ہے۔

بدعنوانی، کمیشن، حصہ، خرچہ، بخشش، رشوت، کِک بیک، بھتہ، پارٹی فنڈز کی خردبرد یہ سب بڑے سخت الفاظ ہیں، انہیں آپ پیار سے تحفے تحائف کہہ سکتے ہیں۔

مجھے یقین ہے جیسے پبلک کی آسانی کے لیے پیٹی بھائیوں نے تحائف کے ریٹ مقرر کر رکھے ہیں ویسے ہی بڑے لوگوں میں تحفوں کی لین دین کا بھی ایک سٹاک ایکسچنج ہوگا۔

تحفوں کا بزنس بھی چڑھتا اترتا ہوگا جہاں ادارے، قومی شخصیات، پراجیکٹ اور مالیت کے اعتبار سے تحفوں کے  ریٹ اور کیٹگری مقرر  ہوتی ہوگی۔

یہ قبضہ مافیا ہاوسنگ سوسائٹیاں، دو نمبر ادویات کی کمپنیاں، ذخیرہ اندوزی کرتی سریے لوہے اور چینی گندم کی فیکٹریاں یوں ہی بے لگام آزادی کے مزے نہیں لوٹ رہیں، تحفے کے اس نظر نہ آنے والے نظام کے تحت انہوں نے ریاست کے ستون اداروں میں بہت سرپرائز گفٹ دیئے ہوتے ہیں۔

تحفوں کے اس انڈر ورلڈ میں دینے والا اور لینے والا دونوں ہی ڈیل کے خوبصورت بندھن میں بندھے ہوتے ہیں، نہ تحفہ لینے والا ہانک کہ دیتا ہے، نہ دینے والا حاتم طائی کسی کو خبر ہونے دیتا ہے۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ جب تحائف کا جام منہ کو لگ جائے تو اسے چھوڑے کون، تحفہ سسٹم میں رازداری اور ریکارڈ نہ رکھنا ہی سب سے اہم ہو تو کیسے اسی سسٹم میں پنپنے والا وزیراعظم ریاست کو ملنے والے تحفوں کا ریکارڈ رکھےگا؟

 تحفوں اور فنڈز کی مالیت اور شفافیت جب پارٹی کی بنیاد ڈالتے ہوئے نہیں رکھی جاتی تو پارٹی کو حکومت ملنے کے بعد ان سے یہ امید کیسے لگائی جاتی ہے کہ وہ پائی پائی کا حساب دیں گے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب ممبران اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز بھی حلقے کی ضرورت اور میرٹ نہیں تحفے کے طور پر دیئے جائیں تو پھر سربراہان مملکت کے تحفے کو تحفہ کیوں نہ سمجھا جائے؟

جب پارٹی فنڈز، الیکشن فنڈز اور پارٹی لیڈر کو ملنے میں والے تحائف بےحساب آئیں اور اندھے کنوئیں میں چلے جائیں تو کیسے ریاست کے سب سے بڑے گھر آنے والے والے تحائف کا حساب بےباک ہوسکتا ہے؟

پھر یہی ہوتا ہے کہ کبھی توشہ خانے سے پاکستان کو تحفے میں ملی گاڑیاں بانٹ دی جاتی ہیں، کبھی ہیروں کا ہار غائب ہو جاتا ہے۔

اب خاں صاحب کی حکومت میں ان تحائف کو منفرد  مقام ملا ہے، یہ تحائف صیغہ راز میں رکھے جائیں گے کیونکہ تحفوں کی لین دین والے ایکسپرٹ تحفہ سسٹم کا قاعدہ نمبر ایک جانتے ہیں کہ ’لینے والا بتاتا نہیں۔‘


نوٹ: یہ تحریر مصنفہ کی ذاتی رائے پر مبنی ہے ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ