یہ تحریر آپ مصنف کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں:
چیئرمین نیب کی مدت ملازمت آٹھ اکتوبر کو ختم ہو رہی ہے۔ سوال یہ ہے کیا اس بات کا کوئی اخلاقی اور قانونی جواز موجود ہے کہ انہیں ملازمت میں توسیع دے دی جائے؟
یہ منصب چونکہ اس وقت جسٹس (ر) جاوید اقبال صاحب کے پاس ہے اور وہ سپریم کورٹ کے جج رہ چکے ہیں اس لیے مدت ملازمت میں کسی امکانی توسیع کے سوال سے بھی پہلے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی جج کو ریٹائر منٹ کے بعد کوئی سرکاری عہدہ دینے کا کوئی اخلاقی اور منطقی جواز موجود ہے؟
جج نے بہت سارے مقدمات سننا ہوتے ہیں اور ان میں سے کچھ مقدمات ایسے بھی ہو سکتے ہیں جو حکومت کی طبع نازک پر گراں گزرتے ہوں۔ اب اگر انصاف کی قابل احترام مسند پر بیٹھے شخص کے سامنے ریٹائرمنٹ کے بعد کسی اور پر کشش ملازمت کے امکانات موجود ہوں تو اس بات کا خطرہ بھی موجود رہے گا کہ وہ امکانات ریٹائرمنٹ سے پہلے کے فیصلوں پر اثر انداز ہو نے لگیں اور حکومتی ہرکارے بین السطور منادی کرتے رہیں کہ جو آج ہمارا خیال رکھے گا، ریٹائرمنٹ کے بعد ہم اس کا خیال رکھیں گے۔
چنانچہ منطق، اخلاق اور اصول اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ریٹائر منٹ کے بعد کسی بھی جج کو کوئی بھی عہدہ نہ دیا جائے۔ نہ چیئرمین کرکٹ بورڈ نہ چیئرمین نیب نہ کوئی اور۔ غریب قوم کے خزانے سے غیر معمولی تنخواہ اور مراعات کے بعد ریٹائر منٹ کے ساتھ پر کشش پنشن شاید اسی لیے دی جاتی ہے کہ مستقبل کا کوئی اندیشہ کسی معزز جج کو دامن گیر نہ ہو اور وہ ریٹائرمنٹ کے بعد حکومتی عہدوں سے بے نیاز ہو کر پرسکون زندگی گزار سکیں۔
مشرف صاحب کے دور میں جب نیب کا قانون بنا تو اس کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ پرویز مشرف جب جو اور جیسا چاہیں گے سب ویسا ہی ہو گا۔ چنانچہ اس میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین نیب کی مدت ملازمت کی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی بلکہ لکھا گیا کہ چیئرمین کا تعین اتنی مدت تک کے لیے ہو گا جتنا چیف ایگزیکٹو یعنی مشرف صاحب مناسب اور ضروری خیال کریں گے۔
بعد میں پیپلز پارٹی کے دور میں اس قانون میں ترمیم کی گئی اور تین اصول طے کر دیے گئے۔ پہلا اصول یہ تھا کہ چیئرمین کی مدت ملازمت چار سال کے لیے ہو گی۔ دوسرا اصول یہ تھا کہ اس میں کوئی توسیع نہیں ہو سکے گی۔ تیسرا اصول یہ تھا کہ صدر پاکستان وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے چیئرمین نیب کا انتخاب کرے گا۔ اس میں اسفند یار ولی کیس میں سپریم کورٹ نے لکھا کہ چیف جسٹس سے بھی مشاورت کر لی جائے۔ یہی قانون اس وقت نافذ العمل ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چنانچہ ہم نے دیکھا کہ جب پیپلز پارٹی کے دور میں فصیح بخاری صاحب کو چیئرمین نیب بنایا گیا تو مسلم لیگ ن نے اس کو اسی بنیاد پر سپریم کورٹ میں چیلنج کیا کہ قائد حزب اختلاف اور چیف جسٹس سے مشاورت نہیں کی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سپریم کورٹ نے اس تعیناتی کو کالعدم قرار دے دیا۔ سوال اب یہ ہے کہ اگر مشاورت کے بغیر تعیناتی کالعدم ہو جاتی ہے تو قانون کی صریحا پامالی کرتے ہوئے ملازمت میں توسیع کیسے ہو سکتی ہے؟
قانون اس لیے بنایا جاتا ہے کہ حاکم وقت اپنی طاقت کے خمار میں اپنی خواہشات کے کوڑے سے معاشرے کی کمر نہ ادھیڑ سکے۔ بلکہ وہ ایک ضابطے کا پابند رہے۔ یہی چیز مہذب معاشروں کو قدیم بادشاہتوں سے ممتاز کرتی ہے۔ موجودہ حکومت کا مزاج البتہ اتنا نازک اور شاہانہ ہے کہ جہاں کوئی قانون یا ضابطہ اس کی راہ میں حائل ہوتا ہے تو بذریعہ آرڈیننس اس قانون کو روند دیتی ہے۔ ایچ ای سی کے چیئرمین کے معاملے میں بھی یہی ہوا۔ امکان موجود ہے کہ نیب کے معاملے میں بھی اکچھ ایسا ہی ہو جائے۔
حکومت واضح طور پر ایسے کسی آرڈیننس کی تردید کر چکی ہے لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہی کہانی سنا رہے ہیں۔ چند چیزیں قابل توجہ ہیں۔ نیب کا قانون کہہ رہا ہے کہ چیئرمین نیب کی تعیناتی کے لیے قائد حزب اختلاف سے مشاورت ضروری ہے اور سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ یہ مشاورت با معنی ہونی چاہیے۔ حکومتی کیمپ مگر کہہ رہا ہے کہ شہباز شریف سے مشاورت نہیں ہو گی۔ سوال یہ ہے کہ مشاورت نہیں ہو گی تو نئے چیئرمین کا انتخاب کیسے ہو گا؟
یہ عذر تو انتہائی کمزور ہے کہ چونکہ شہباز شریف پر مقدمات ہیں اس لیے ان سے مشاورت نہیں کی جا سکتی۔ حزب اختلاف کے رہنماؤں پر مقدمات تو ہمیشہ رہتے ہیں۔ قانون نے ایسے کوئی شرط نہیں رکھی کہ قائد حزب اختلاف ایسا ہو کہ دامن نچوڑ دے تو فرشتے وضو کریں۔
آٹھ اکتوبر کو تو چیئرمین نیب کی مدت ختم ہو رہی ہے۔ اب ان دس دنوں میں حکومت قائد حزب اختلاف اور جناب چیف جسٹس سے بامعنی مشاورت کیسے کرے گی؟ ایسی کوئی مشاورت مقصود ہوتی تو حکومت ہفتوں پہلے کر چکی ہوتی۔ یہ تاخیر بتا رہی ہے کہ معاملات اتنے سادہ نہیں ہیں ۔ یہی پیچیدگی پھر اس سوال کو جنم دیتی ہے کہ موجودہ چیئرمین نیب پر اتنا اصرار کیوں؟ اگر پی ٹی وی جیسے ادارے میں نعیم بخاری کی عمر کا سوال اٹھ کھڑا ہوتا ہے تو نیب جیسے ادارے کے چیئرمین کی عمر کا سوال کیوں نہیں اٹھتا؟
ایک اور معاملہ اس سے بھی زیادہ سنگین ہے اور وہ چیئرمین نیب کی مبینہ ویڈیو ہے جس کی بنیاد پر ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر ہو چکا ہے اور وہ زیر سماعت ہے۔ جناب چیف جسٹس نے گذشتہ سماعت پر اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ حکومت سے پوچھ کر آئیں کہ چیئرمین نیب کو عہدے سے ہٹانے کی کارروائی کا طریقہ کار کیا ہو گا۔ اس ریفرنس کے مندرجات کی معنویت کو تو چھوڑ ہی دیجیے، اس ریفرنس کا زیر سماعت ہونا ہی کوئی معمولی بات نہیں ہے۔
توسیع ہو گی یا نہیں اور آرڈیننس تیار ہو چکا یا نہیں ، ہر معاملے میں ایک سے زیادہ آرا ہو سکتی ہیں لیکن اس باب میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ سودا کے محبوب کی طرح یہ حکومت بھی کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتی ہے۔ اس کا دست ہنر زلف یار کی طرح دراز اور خم دار ہے۔