سوال تو یقیناً اہم ہیں کیونکہ نیب کا ادارہ اب پاکستان کی سیاست میں نہایت معنی خیز ہے 1999 کی طرح۔ یہ احتساب کا ادارہ آج بھی سیاستدانوں کو کٹہرے میں لا کر کھڑا کرتا ہے۔
یہ بحث اس کے قائم ہونے کے 22 ویں سال میں بھی جاری ہے کہ کیا نیب کا احتساب انصاف پر مبنی ہے یا نہیں؟ کیا یہ یکطرفہ انصاف ہے یا تمام سیاسی رہنماؤں کے ساتھ برابری سے پیش آتا ہے؟ کیا نیب کے چیئرمین اپنے صوابدیدی اختیار کے تحت فیصلہ کرتے ہیں کہ کیا کسی ریفرنس شدہ شخص کو حراست میں لیا جائے یا نہیں؟ کب حراست میں لیا جائے اور کب رہائی دی جائے؟
یہ سوال تو سیاست دانوں اور تجزیہ نگاروں اور صحافیوں سے آگے بڑھ کر پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے بھی متعدد مرتبہ اٹھائے ہیں۔ چاہے وہ سندھ ہائی کورٹ ہو یا سپریم کورٹ آف پاکستان۔ سچ تو یہ ہے کہ سوال اٹھانے سے آگے بڑھ کر اعلیٰ عدلیہ نے کئی مرتبہ نیب کو یکطرفہ پا احتساب کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے، مسلم لیگ ن کے رہنماؤں شاہد خاقان عباسی اور خواجہ سعد رفیق کیس میں متعلقہ جج نے نیب کو اپوزیشن لیڈر کی زبان بندی کے لیے کیسز بنانے کا الزام لگایا ہے، نیب کو ایک سیاسی ہتھکنڈے کی طرح استعمال کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
غرض حکومت کچھ بھی کہے نیب کی ساکھ اور اس کا قد کاٹھ یقیناً متنازع ہے اور یہ معاملات آج کے نہیں 22 سال پہلے جب نیب بنایا گیا تھا، اس وقت سے یہ معاملات، یہ سوالات اور یہ شکایات موجود ہیں۔
یقیناً عمران خان کی حکومت جس میں احتساب کو ایک نہایت رول اور رتبہ ملا ہے اس میں نیب کا ایک کلیدی کردار لازمی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے نیب جو کہ بظاہر صاف اور شفاف احتساب کے لیے بنایا گیا تھا اس کے سسٹم میں ایک بہت بڑا خلا یا پھر خرابی کہیے، اب تک موجود ہے۔
خرابی یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ نیب شفافیت کے ساتھ قوانین کی بنیاد پر چلے اور خاص طور پر کیسز کی انویسٹی گیشن میں شفافیت ہو تاکہ کسی قسم کے تعصب کا شک پیدا نہ ہو۔ نیب کے قوانین ادارے کے چیئرمین کو ایسے صوابدیدی اختیار دیتے ہیں جس کے نتیجے میں انویسٹی گیشن کی شفافیت پر بہت سے سوالات اٹھتے ہیں۔
سب سے بڑا مسئلہ چیئرمین کا لوگوں کی گرفتاری میں اپنا صوابدیدی اختیار استعمال کرنے کا ہے۔کس سیاستدان کو انکوائری کے وقت یا ریفرنس بننے سے پہلے یا بننے کے بعد حراست میں لیا جائے؟ کتنی مدت کے لیے سیاست میں لیا جائے؟ یہ سب وہی فیصلہ کرتے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ حراست میں لینا یا چھوڑنا، اس حساس معاملے پر چیئرمین کے فیصلے کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا، نہ تو زبانی شکایت کرسکتا ہے اور نہ کسی عدالت میں جاکر اس پر سوال اٹھا سکتا ہے۔
یہ اور بہت سے دیگر معاملات جو چیئرمین کی پوزیشن اور اتھارٹی سے منسلک ہیں، چیئرمین کی تعیناتی کو بہت اہمیت کا معاملہ بنا دیتے ہیں اور خاص طور پر جب حکومتِ وقت یہ فیصلہ کرلے کہ تعیناتی کا معاملہ موجودہ قوانین سے شاید ہٹ کر نمٹایا جائے گا۔ اس فیصلے کی نشاندہی حکومت کے مختلف وزیر کر چکے ہیں، مثلاً وزیر اطلاعات فواد چوہدری، وزیر مملکت برائے اطلاعات فرخ حبیب اور وزیر داخلہ شیخ رشید۔
موجودہ نیب آرڈیننس 1999 کے قانون کے تحت نیب کے چیئرمین کی چار سال مدت ملازمت میں توسیع نہیں ہو سکتی اور نئے چیئرمین کی تعیناتی ملک کے صدر، پارلیمانی لیڈر یعنی وزیراعظم اور حزب اختلاف کے پارلیمانی لیڈر کی مشاورت سے کریں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حکومتی وزرا نے ہم تک یہ اطلاع تو پہنچا دی کہ ممکن ہے وزیراعظم موجودہ نیب چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال ہی کو پھر سے نیب کا چیئرمین نامزد کر دیں۔ نمبر دو یہ کہ قائد حزب اختلاف شہباز شریف سے اس معاملے پر ہرگز مشاورت نہیں کی جائے گی کیونکہ نیب نے ان کے خلاف مختلف کیسز میں کارروائی شروع کر رکھی ہے اور تیسرا یہ کہ اگر نئے چیئرمین کی تعیناتی کی جائے گی تو چیئرمین ایسا ہوگا جس پر کسی کو بھی اختلاف نہیں ہوگا۔
ان باتوں سے یہ تو واضح ہو گیا کہ حکومت اپنے آپ کو موجودہ قوانین کا پابند رکھ کر شاید چیئرمین کی تعیناتی نہ کرے۔ اس کا مطلب صاف یہ ہوگا حکومت نئے چیئرمین کی تعیناتی کے لیے ایک آرڈیننس لے کر آئے، بالکل اسی طریقے سے جیسے حکومت نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر طارق بنوری کو موجودہ قانون سے ہٹ کر ایک نئے آرڈیننس کے تحت فارغ کیا تھا۔
حالانکہ کسی کو لانے کا حکومت کے پاس آئینی حق ہے لیکن اگر آرڈیننس بظاہر قانون اور آئین کی روح سے متنازع ہو تو اس کو عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے جیسے کہ طارق بنوری نے حکومت کا آرڈیننس اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہوا ہے۔
اپوزیشن اور خاص طور پر مسلم لیگ ن یہ واضح کر چکی ہے کہ اگر آرڈیننس لایا گیا تو وہ اس کو عدالت میں چیلنج کریں گے۔ ماضی میں بھی اپوزیشن نے بہت سے دعوے کیے جو پورے نہیں کر پائے تو سوال اٹھتا ہے کہ اگر اس مرتبہ نیب کے چیئرمین کے معاملے پر اگر آرڈیننس آیا تو کیا اپوزیشن اسے چیلنج کرے گی یا نہیں؟ شاید چیلنج اس لیے کرے کہ نیب کے چیئرمین کا معاملہ ان کی سیاست پر اور آنے والے دنوں کے الیکشن پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔
موجودہ چیئرمین کی شخصیت، ان کا طرز عمل اور طرز کارروائی سب مسلم لیگ ن کی تمام قیادت کے لیے ایک نہایت اہم مسئلہ ہے۔ آخر ان کے درجن بھر لیڈر نیب کی کارروائی کا نشانہ بنے ہوئے ہیں اور اس نشانے کی نوعیت ایسی ہے کہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ بھی کئی مرتبہ اس کی نشاندہی کر چکی ہے۔
ٹھوس شواہد اور شفاف انکوائری، جو سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق لمبی گھسیٹی نہ جائے، اس سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا اور تنقید بھی ناجائز ہو، لیکن اب معاملات مختلف ہیں اور ان حالات میں نیب کے نئے چیئرمین کی تعیناتی ایک بڑا معاملہ جس کو مسلم لیگ ن نظر انداز ہرگز نہیں کر سکتی۔