’قدرتی گیس کا بحران پاکستان میں اندھیروں کا سبب بن سکتا ہے‘

’پاکستان نے صرف چھ سال پہلے ایل این جی کی درآمد شروع کی تھی لیکن اس کا انتہائی سرد ایندھن پر بڑھتا ہوا انحصار ڈراؤنے خواب میں تبدیل ہونا شروع ہو چکا ہے۔‘

بلومبرگ کے مطابق چھ سال میں پاکستان ایل این جی درآمد کرنے والے 10 بڑے ملکوں میں شامل ہو چکا ہے اور پہلے سے ہی مہنگی ترین ایل این جی خریدنے پر مجبور ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

امریکہ میں قائم مالیاتی، ذرائع ابلاغ اور ڈیٹا کمپنی ’بلومبرگ‘ نے کہا ہے کہ قدرتی گیس کا عالمی بحران پاکستان میں روشنیاں بند ہونے کا سبب بن سکتا ہے۔

بلومبرگ کے مطابق گذشتہ چھ سالوں میں پاکستان لکوڈ نیچرل گیس (ایل این جی) درآمد کرنے والے 10 بڑے ملکوں میں شامل ہو چکا ہے اور پہلے سے ہی مہنگی ترین ایل این جی خریدنے پر مجبور ہے۔

پاکستان نے صرف چھ سال پہلے ایل این جی کی درآمد شروع کی تھی لیکن اس کا انتہائی سرد ایندھن پر بڑھتا ہوا انحصار ڈراؤنے خواب میں تبدیل ہونا شروع ہو چکا ہے۔

یورپ میں قلت کی وجہ سے عالمی سطح پر گیس کی قیمتوں میں اضافے نے ایشیائی ایل این جی کو سال کی ریکارڈ قیمت کی طرف دھکیل دیا ہے۔ اس صورت حال نے پاکستان کو طویل المدتی معاہدوں کے تحت سپلائی بڑھانے کی خاطر سپاٹ شپمنٹس (تمام اخراجات کے ساتھ فراہمی) کے لیے اب تک کی سب سے زیادہ ادائیگی کرنے یا شپمنٹس کو مکمل طور پر چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔

یورپ میں توانائی کا بحران باقی دنیا کو بھی متاثر کرے گا۔ پاکستان میں اہم درآمدی ٹرمنلز میں سے ایک کی مالک کمپنی پاکستان گیس پورٹ کے چیئرمین اقبال زیڈ احمد نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ گیس کی قلت کا لازمی طور پر یہ مطلب ہے کہ سردیوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ہو گی۔

ان کے بقول: ’اس سے ہماری برآمدات، صنعتیں اور سب سے بڑھ کر عوامی حوصلہ متاثر ہوں گے۔ بجلی عیاشی نہیں ہے۔‘

پاکستان کی وزارت توانائی نے تاحال تبصرے کے لیے بلومبرگ کی متعدد درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔

برطانیہ سے لے کر چین تک توانائی کا بحران ابھرتی ہوئی منڈیوں میں بھی ہلچل کا سبب بنے گا جو پہلے ہی ایندھن کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتوں کو کم کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔

وہ معیشتیں جو مہنگے ایندھن کی طاقت نہیں رکھتیں وہ اس وقت بند ہو سکتیں ہیں جب شمالی نصف کرے میں موسم سرما میں حرارت کی طلب بڑھ جاتی ہے اور ایندھن کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گذشتہ دہائی کے دوران  پاکستان سمیت ابھرتی ہوئی قوموں نے ایل این جی کی درآمد کی حکمت عملی اس بنیاد پر بنائی کہ مستقبل کے لیے ایندھن وافر اور سستا ہوگا جیسا کہ پچھلے کئی سال میں تھا۔ لیکن اس سال یہ سلسلہ بند ہو گیا ہے کیونکہ ایشیائی ایل این جی کی قیمتوں میں اضافہ ہو چکا ہے۔

پاکستان کو درکار ایل این جی میں سے آدھی سے زیادہ طویل المدتی معاہدوں کے تحت حاصل ہوتی ہے جو غیر مستحکم سپاٹ مارکیٹ کے خلاف کچھ تحفظ فراہم کرتی ہے۔

مزید برآں شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پرایل این جی کے تاجروں نے بتایا کہ ٹرم ڈیلز کے تحت قطر سپلائی بڑھانے پر رضامند ہو گیا ہے۔ لیکن ملک کو اب بھی سردی کے مہینوں میں سپاٹ شپمنٹس کی ضرورت ہے اور یہ واضح نہیں ہے کہ آیا وہ اس کے اخراجات برداشت کر پائے گا یا نہیں۔

سپاٹ ایل این جی کی زیادہ قیمت نے سیاسی تنازعے کو جنم دیا ہے۔ حزب اختلاف کے سیاست دانوں نے سرکاری درآمد کنندہ کی جانب سے کی گئی خریداری کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

گیس کے زیادہ اخراجات حکومت پر دباؤ ڈال سکتے ہیں کہ وہ جہاں ممکن ہو صارفین کو بجلی استعمال کرنے کی ترغیب دے تا کہ صنعت اور حرارت کی ضروریات کے لیے گیس بچائی جا سکے۔ مہنگی گیس نے اس کے گاڑیوں میں استعمال کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔

اقبال زیڈ احمد کا کہنا ہے کہ ایل این جی کی سپاٹ قیمتیں ’شاندار‘ امر ہیں۔ ان کے بقول: ’یہ رجحان جاری رہا تو اس سے ایل این جی کے کاروبار کو اپنے طور پر شکست ہوگی اور لوگ دوسرے ایندھن کی طرف واپس آنا شروع ہو جائیں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان