کے پی حکومت کا تعلیمی بجٹ کا 70 فیصد لڑکیوں پر خرچ کرنے کا اعلان

خیبر پختونخوا حکومت نے شرح خواندگی میں اضافے کے لیے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ابتدائی و ثانوی تعلیم کے لیے 166 ارب روپے مختص کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے۔

سیمنار میں پیش کیا جانے والا ایک بینر۔ (بلو وینز)

خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ کے مشیر برائے ابتدائی و ثانوی تعلیم ضیاء اللہ بنگش نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت نے شرح خواندگی میں اضافے اور اصلاحات کے لیے آئندہ مالی سال کے ترقیاتی و غیر ترقیاتی بجٹ میں ابتدائی و ثانوی تعلیم کے لیے 166 ارب روپے مختص کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس مرتبہ ترقیاتی بجٹ کا 70 فیصد حصہ لڑکیوں کی تعلیم جبکہ 30 فیصد لڑکوں کے لیے رکھا جائے گا۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو پشاور میں سماجی تنظیم بلووینز کے زیر اہتمام خیبرپختونخوا میں لڑکیوں کے تعلیمی بجٹ کے حوالے سے ایک سمینار میں کیا۔

سیمینار کا مقصد آنے والے مالی سال 20-2019 کے بجٹ میں لڑکیوں کے تعلیمی بجٹ کا جائزہ لینا تھا۔ سیمینار میں بتایا گیا کہ آئین پاکستان کہ آرٹیکل 25 اے کے مطابق پانچ سے 16 سال تک کی عمر کے تمام بچوں کے لیے لازمی اور مفت تعلیم کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے جس کو یقینی بنانے کے لیے مرکز اور صوبائی حکومتوں نے قانون سازی بھی کر رکھی ہے۔ سیمینار میں بتایا گیا کہ تعلیمی بجٹ میں رقم مختص کرنے کے حوالے سے خیبر پختونخواہ باقی تمام صوبوں سے آگے ہے اور اقوام متحدہ کا تجویز کردہ 20 فیصد سے زائد سالانہ بجٹ کا حصہ تعلیم کی مد میں خرچ کرتا ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت کے دعوؤں کے برعکس ایک غیرسرکاری تنظیم الف اعلان نے گذشتہ برس اکتوبر میں پانچ سالہ کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے اسے غیرتسلی بخش بتایا تھا۔ پاکستان ایجوکیشن سٹیٹسٹکس 16-2015 کے حوالے سے اس تنظیم کا کہنا تھا کہ صوبے کی 51 فیصد لڑکیاں سکول ہی نہیں جاتی، تاہم اس نے 30 ارب روپے کی لاگت سے سکولوں میں سہولتیں فراہم کرنے کے اقدام کو ضرور سراہا۔

وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی نے سیمینار کے دوران بتایا کہ خیبرپختونخوا میں تعلیمی اصلاحات، غربت کا خاتمہ اور صحت کی بہتر سہولیات کی فراہمی تحریک انصاف حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے اور ان کو یقینی بنانے کے لیے منصوبے متعارف کرائے گئے ہیں جن کو ملکی اور غیر ملکی سطح پر نہایت پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔

بلووینز کے کوآرڈینیٹر قمر نسیم نے محکمہ تعلیم میں اصلاحات بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے خیبر پختونخوا حکومت کی پالیسیوں اور اقدامات کو سراہا اور کہا کہ دیگر صوبوں کو تعلیم میں صنفی تفاوت ختم کرنے کے لیے خیبرپختونخوا کی تعلیمی پالیسیوں سے استفادہ حاصل کرنا ہوگا۔ قمر نسیم نے یہ بھی کہا کہ تعلیمی بجٹ کے حوالے سے مزید مباحثوں کی ضرورت ہے کہ بجٹ کا ایک بڑا حصہ صرف تنخواہوں کی مد میں ہی خرچ نہ ہو جائے بلکہ مختص رقوم کو متعین کردہ اہداف کے مطابق خرچ بھی کیا جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والی رکن صوبائی اسمبلی شگفتہ ملک نے کہا کہ انہوں نے لڑکیوں کی تعلیم میں بجٹ کے اضافہ کے حوالے سے صوبائی اسمبلی میں قرارداد بھی پیش کر رکھی ہے۔ اگر پاکستان کو تعلیمی بحران سے نمٹنا ہے تو مجموعی ملکی پیداوار کا 6 فیصد حصہ تعلیم کے لیے خرچ کرنا ہوگا۔ لڑکیوں کی ثانوی تعلیم کی تکمیل کی راہ میں کئی دشواریاں حائل ہیں جس کی وجہ سے بیشتر لڑکیاں ثانوی تعلیم مکمل نہیں کر پاتیں لہذا لڑکیوں کی ثانوی تعلیم پر بجٹ کا بڑا حصہ خرچ ہونا چاہیے۔

سابق صوبائی وزیر تعلیم اور سینیئر سیاسی رہنما معراج ہمایوں نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو آئین میں دی گئی بنیادی حقوق کی ضمانتوں اور وضع کردہ قوانین کے مطابق تعلیمی سہولیات کو بہتر بنانا ہوگا اور اس حوالے سے عوامی جوابدہی کے لیے بھی تیار رہنا ہوگا۔

اقلیتی رکن صوبائی اسمبلی روی کمار نے حاضرین کو بتایا کہ خیبرپختونخوا حکومت نے اقلیتی برادری میں تعلیم کے فروغ کے لیے وظائف کا اجراء کیا ہے تاکہ اقلیتی برادری بھی تعلیم کی سہولیات سے مکمل استفادہ کرسکے۔

سول سوسائٹی کی تنظیموں نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ ملک کی مجموعی پیداوار کا چھ فیصد حصہ تعلیم کے لیے خرچ کیا جائے اور یہ یقینی بنایا جائے کہ پانچ سے 16 سال تک کی عمر کے تمام بچے بلا تفریق مفت اور لازمی تعلیم کے آئینی و قانونی حق سے استفادہ کر سکیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین