اسرائیلی تاریخ میں پہلی بار پارلیمان نے خود کو تحلیل کر لیا

نیتن یاہو کا پانچویں بار وزیراعظم بننے کا خواب چکنا چور، ملک میں نئے انتخابات اب 17 ستمبر کو ہوں گے۔

وزیراعظم نتن یاہو کی جماعت زیادہ نشستیں جتنے کے باوجود حکومت سازی کے لیے مطلوبہ اکثریت ثابت کرنے میں ناکام رہی ( اے ایف پی)

اسرائیل میں بن یامن نتن یاہو کا پانچویں بار وزیراعظم منتخب ہونے کا خواب بظاہر پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا اور ملک دوبارہ الیکشن کی جانب بڑھ رہا ہے۔

نتن یاہو کی لیکوڈ پارٹی اسرائیلی پارلیمنٹ میں اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کراکثریتی بلاک بنانے میں ناکام رہی، جس کے بعد ملکی تاریخ میں پہلی بار پارلیمان نے خود کو تحلیل کر لیا ہے۔

کنیسٹ میں ہونے والی رائے شماری میں پارلیمان کو تحلیل کرنے حق میں 74 جبکہ مخالفت میں 45 ووٹ ڈالے گئے۔ ملک میں نئے انتخابات اب 17 ستمبر کو ہوں گے۔

نو اپریل کو ہونے والے انتخابات میں نتن یاہو اور اسرائیلی فوج کے سابق سربراہ بينی گینٹز کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوا اور دونوں نے اپنی اپنی فتح کے دعوے کیے تھے۔

تاہم وزیراعظم نتن یاہو کی جماعت زیادہ نشستیں جتنے کے باوجود حکومت سازی کے لیے مطلوبہ اکثریت ثابت کرنے میں ناکام رہی۔

موجودہ ڈیڈ لاک اس وقت سامنے آیا جب لیکوڈ پارٹی کے اتحادی اور سابق وزیر دفاع ایوگڈور لیبرمین اور نتن یاہو کے درمیان جبری فوجی بھرتی کے بل پر اختلافات کھل کر سامنے آئے۔

ایوگڈور لیبرمین نے اس متنازع بل کو مسترد کرتے ہوئے حکمران جماعت کے ساتھ اتحاد کرنے سے انکار کر دیا اور یوں نتن یاہو کا پانچویں بار وزیراعظم بننے کا خواب چکنا چور ہو گیا۔

10 اپریل کو سامنے آنے والے نتائج کے مطابق نتن یاہو کی لیکوڈ پارٹی120 رکنی اسرائیلی پارلیمنٹ میں دوسری دائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ مل کر65 نشستوں کا بلاک بنانے کی پوزیشن میں آ گئی تھی۔

تاہم ایوگڈور لیبرمین کے فیصلے سے سیاسی بحران نے جنم لیا جس کا اختتام پارلیمان کی تحلیل پر ہوا۔ اس پیش رفت کے بعد نتن یاہو، ایوگڈور لیبرمین پر خوب گرجے برسے اور انہیں بائیں بازو کا سیاست دان ہونے کا طعنہ دے ڈالا۔

نتن یاہو کا کہنا تھا: ’اب ہم ایک جارحانہ انتخابی مہم چلائیں گے جس سے ہمیں [واضح] فتح حاصل ہو گی۔ ہم دوبارہ جیتیں گے جو عوام کی فتح ہو گی۔‘

دوسری جانب ایوگڈور لیبرمین کا کہنا ہے کہ نتن یاہو سے تعاون سے انکار کرنا ان کا اصولی موقف تھا اور اس کا مقصد وزیراعظم کو اقتدار سے محروم کرنا نہیں تھا۔

انہوں نے لیکوڈ پارٹی کو پارلیمان کی تحلیل کا الزام دیتے ہوئے کہا کہ حکمران جماعت اتحاد بنانے میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئی۔

’یہ کَٹر قدامت پرست جماعتوں کے سامنے [نتن یاہو] کا ہتھیار ڈالنے جیسا ہے۔۔۔ ہم نے کسی معاملے پر بھی اتفاق نہیں کیا تھا۔‘

مبصرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ موجودہ سیاسی بحران رواں برس کے اختتام تک جاری رہے گا اور اس غیر یقینی کی صورتحال سے ملکی معیشت پر برے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔  

موجودہ سیاسی بحران ایسے وقت پر سامنے آیا جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر اور ان کی ٹیم خطے میں پائیدار امن کا امریکی منصوبہ لے کر یروشلیم پہنچی ہے۔

امریکہ کے اس امن معاہدے کی تفصیلات کو جون میں پیش کیا جانا تھا جو اس صورتحال کے بعد ممکنہ طور پر کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔

نتن یاہو پر بدعنوانی کے الزامات ہیں لیکن وہ ان سے انکار کرتے رہے ہیں۔ تاہم وہ پانچویں بار وزیراعظم بننے کی پوزیشن پر آ گئے تھے اور اگر ایسا ہو جاتا تو وہ اسرائیل میں سب زیادہ اس عہدے پر فائز ہونے والے پہلے وزیراعظم بن جاتے۔

اب ان کو ستمبر تک لمبا انتظار کرنا پڑے گا جب ملک میں دوبارہ انتخابی عمل کا آغاز ہو گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا