پاکستان کے قبائلی اضلاع میں داعش طالبان کی خطرناک ترین دشمن

افغانستان میں طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد پاکستان کے قبائلی اضلاع میں نصف درجن سے زیادہ ایسے واقعات پیش آئے ہیں جن میں مقامی اور افغان طالبان کو گھات لگا کرفائرنگ کا نشانہ بنایا گیا اوربعد میں داعش نے اس کی ذمہ داری بھی قبول کی۔

حشید الشابی نامی عراقی تنظیم کے جنگجو ایک دیوار کے پاس موجود ہیں جس پر داعش کا جھنڈا بنا ہوا ہے۔ اس تنظیم نے تین  نومبر 2017  کو سخت لڑائی کے بعد  داعش کو شکست دی  (فائل تصویر: اے ایف پی)

پاکستان کے قبائلی اضلاع میں طالبان شدت پسندوں کے علاوہ داعش کی موجودگی ایک حقیقت ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ طالبان کی سب سے خطرناک دشمن بھی داعش ہے اور اسے جب بھی موقع ملے گا وہ طالبان کو نشانہ بنائے گی۔

نامہ نگار دلاور خان وزیر کے مطابق افغانستان میں طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد پاکستان کے قبائلی اضلاع میں نصف درجن سے زیادہ ایسے واقعات پیش آئے ہیں جن میں مقامی اور افغان طالبان کو گھات لگا کر فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا اور بعد میں داعش نے اس کی ذمہ داریاں بھی قبول کی۔

یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اگر افغانستان میں حالت خراب ہوں تو قبائلی اضلاع براہ راست متاثر ہوتے ہیں کیونکہ سرحد کے آر پار قبائلیوں کا آپس میں میں نہ صرف کاروباری لین دین ہے بلکہ ایک دوسرے سے رشتہ داری بھی ہے۔

جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا میں پچھلے کچھ عرصے میں تین ایسے واقعات پیش آئے ہیں جن میں ایک افغان طالب اور ایک مقامی شخص نور زمان کو جن کا تعلق حقانی گروپ سے بتایا جاتا تھا نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا۔ بعد میں تینوں واقعات کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔

اس کے علاوہ گذشتہ دنوں قبائلی ضلعے خیبر میں انسداد دہشت گردی فورس نے کارروائی کرتے ہوئے چار شدت پسندوں کو گرفتار کیا۔

انسداد دہشت گردی کے محکمے کے مطابق دہشت گردوں کے قبضے سے بھاری مقدار میں اسلحہ اور بارودی مواد برآمد کیا گیا، جن کا تعلق داعش سے بتایا گیا تھا۔

اس واقعے سے ایک روز قبل وانا بازار میں طالبان کمانڈر ملنگ کے دفتر کے باہر نصب کیے گئے ایک بم کو پولیس نے ناکارہ بنایا تھا۔

داعش کے تازہ حملوں سے قبل بھی باجوڑ، اورکزئی اور کرم میں داعش اور طالبان شدت پسندوں نے ایک دوسرے پر حملے کیے تھے۔     

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے پشاور یونیورسٹی میں لیکچرار نور محمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ داعش کے لیے قبائلی اضلاع میں طالبان کو نشانہ بنانا بہت آسان ہدف ہے کیونکہ افغانستان میں طالبان داعش کے حملوں کے لیے پہلے سے تیار بیھٹے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ پورے افغانستان میں جہاں بھی داعش کی موجودگی کی اطلاع ملتی ہے ان کے خلاف فوری کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے جبکہ قبائلی اضلاع میں طالبان داعش کا پیچھا نہیں کرسکتے اور داعش چھپ کر ایک ایک کو نشانہ بنا سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ قبائلی اضلاع میں سکیورٹی فورسز کی موجودگی کی وجہ سے دونوں گروپس میں سے کوئی بھی بڑا حملہ نہیں کرسکتا، البتہ ایک دوسرے کو گھات لگا کر باآسانی ٹارگٹ کرسکتے ہیں۔

جنوبی وزیرستان کے رہائشی نجیب کا کہنا تھا کہ حالیہ واقعات کے بعد وانا میں خوف کی وجہ سے لوگ روزانہ ایک دوسرے سے حالات کے بارے میں پوچھتے ہیں کیونکہ شدت پسندی کے خلاف جنگ کی ابتدا وانا سے ہی ہوئی تھی اور گذشتہ دو دہائیوں سےلاکھوں لوگ نہ صرف اپنے گھروں سے باہر رہے بلکہ ان کے کاروبار بھی تباہ و برباد ہوچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بہت کم عرصہ ہوا ہے کہ لوگ واپس اپنے گھروں کو لوٹے ہیں یا اپنا کاروبار دوبارہ بحال کیا ہے۔ ’اس طرح نہ ہو کہ لوگ خوف کی وجہ سے دوبارہ اپنے علاقے سے نکل جائیں۔‘

محمد اکرم کا کہنا تھا کہ ’لوگ داعش کے نام سے ڈرتے ہیں۔ جب سے داعش نے علاقے میں کچھ واقعات کی ذمہ داریاں قبول کی ہے تب سے لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ابھی تک انہوں نے داعش کے کسی رکن کو نہیں دیکھا ہے البتہ طالبان کے ارکان کو وانا بازار کے علاوہ گاؤں میں دیکھا گیا ہے۔

قبائلی ضلعے خیبر میں حالیہ دنوں میں داعش کے خلاف کارروائی کے بعد پولیس نے کامیابی کا دعویٰ کیا تھا۔ پولیس کی کارروائی اپنی جگہ مگر لوگوں میں یہ خوف ضرور موجود ہے کہ اگر داعش کو بروقت نہ روکا گیا تو ٹارگٹ کلنگ میں نہ صرف طالبان نشانہ بن سکتے ہیں بلکہ دوسرے لوگ بھی زد میں آسکتے ہیں۔

افغانستان

عراق پر 2003 میں امریکی یلغار کے نتیجے میں صدام حسین کی فوج کے بکھرنے کے بعد جب اہلکار شدت پسند تنظیم ’داعش‘ میں شامل ہونے لگے تو اس پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے سخت تشویش کا اظہار کیا تھا۔

کچھ ایسا ہی اس وقت افغانستان میں دیکھنے کو مل رہا ہے، جہاں سے آنے والی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ طالبان کے کابل میں اقتدار سنھبالنے سے قبل امریکی فوج کی نگرانی میں تربیت حاصل کرنے والی سابق افغان آرمی کے اہلکار ’داعش‘ کی صفوں میں شامل ہونے لگے ہیں۔

افغان انٹیلی جنس سروس کے کچھ سابق ارکان اور ایلیٹ فورس کے اہلکار، جنہیں امریکہ نے تربیت دی تھی اور طالبان کی آمد کے بعد ترک کر دیا تھا، اب وہ داعش میں شامل ہوگئے ہیں۔

امریکی اخبار ’وال سٹریٹ جرنل‘ کے مطابق دہشت گرد گروہ میں شامل ہونے والے منحرف سابق فوجیوں کی تعداد نسبتاً کم ہے لیکن اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔

مزید اہم بات یہ ہے کہ نئے بھرتی ہونے والے ’آئی ایس آئی ایس‘ (داعش) کے جنگجوؤں کو انٹیلی جنس معلومات جمع کرنے میں مہارت حاصل ہے اور وہ دیگر اہم جنگی حربوں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔

یہ سابق فوجی طالبان کی بالادستی کا مقابلہ کرنے کے لیے شدت پسند گروپ (داعش) کی صلاحیت کو بڑھا سکتے ہیں۔

افغان نیشنل آرمی کے ایک افسر، جنہوں نے جنوب مشرقی صوبے پکتیا کے صدر مقام گردیز میں فوج کے اسلحہ اور گولہ بارود کے ڈپو کی کمانڈ کی تھی، نے شدت پسند گروپ کی علاقائی شاخ خراسان میں شمولیت اختیار کرلی تھی اور وہ ایک ہفتہ قبل طالبان جنگجوؤں کے ساتھ جھڑپ میں مارے گئے ہیں۔

کابل کے شمال میں واقع ضلعے کاراباخ کے ایک رہائشی نے بتایا کہ ان کے کزن جو افغان سپیشل فورسز کے سابق اہم رکن تھے، وہ ستمبر میں لاپتہ ہو گئے تھے اور اب داعش کے ایک سیل کے رکن ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ افغان نیشنل آرمی کے چار دیگر ارکان، جن کو وہ جانتے تھے، حالیہ ہفتوں میں داعش نامی تنظیم میں شامل ہوگئے ہیں۔

افغانستان کے خفیہ ادارے (نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی) کے سابق سربراہ رحمت اللہ نبیل نے کہا کہ کچھ علاقوں میں داعش افغان سکیورٹی اور دفاعی فورسز کے سابق ارکان کے لیے بہت پرکشش تنظیم بن گئی ہے۔

خاص طورپر ایسے فوجی جو ملک نہیں چھوڑ سکے، وہ داعش کی صفوں میں شامل ہوگئے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر طالبان کے خلاف مزاحمت ہوتی تو وہ (سابق فوجی) اس میں شامل ہو جاتے لیکن اس وقت داعش واحد دوسرا مسلح گروہ ہے۔

اس وقت جمہوریہ افغانستان میں ہزاروں انٹیلی جنس افسران، فوجی اور سابق پولیس اہلکار طالبان کی طرف سے عام معافی کے وعدوں کے باوجود بے روزگار اور خوفزدہ ہیں۔

ان میں سے ایک چھوٹا سا حصہ زیادہ تر نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی میں طالبان کی نگرانی میں کام پر واپس آیا ہے لیکن، تقریباً تمام افغان سرکاری ملازمین کی طرح انہیں مہینوں میں تنخواہ نہیں دی گئی ہے۔

امریکہ نے 2003 میں عراق پر حملے کے بعد عراقی سکیورٹی فورسز کو تحلیل کر دیا تھا اور ان میں سے بہت سے مسلح عناصر بعد میں القاعدہ اور داعش میں شامل ہو گئے تھے۔

ادھر طالبان کی داعش کے اراکین کو واپس لانے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔

پاکستان کے ساتھ سرحدی افغان صوبے ننگرہار میں حکام نے کہا ہے کہ داعش کے 34 اراکین ان کی صفوں میں شامل ہوگئے ہیں۔ صوبائی انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر بشیر نے کہا کہ وہ باقی ماندہ داعش کے اراکین سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ طالبان کی عام معافی سے فائدہ اٹھائیں۔

افغانستان میں داعش نے پہلی مرتبہ اسی مشرقی خطے میں 2014 میں سر اٹھایا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان