سوڈان میں فوجی بغاوت کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

سوڈان کی فوجی جنتا نے سویلین کابینہ کو بتائے بغیر اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ کیا جس پر عبوری سول بندوبست سب سے زیادہ معترض تھا۔

4 نومبر 2021 کو فوجی قبضے کے خلاف جاری مظاہروں کے دوران ایک سوڈانی نوجوان اعلیٰ فوجی جنرل عبدالفتاح البرہان کی سٹینسل پینٹنگ بنا رہے ہیں جس پر عربی زبان میں ’چلے جاؤ‘ کا مطالبہ لکھا ہوا ہے  (اے ایف پی)

مشرق وسطیٰ میں اٹھنے والی عوامی بیداری کی لہر ’عرب سپرنگ‘ کے بعد خطے میں جو بڑی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں ان میں سے کچھ تبدیلیاں تو وقتی ثابت ہوئیں اور مصر جیسے ممالک اب اسی مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں سے ’تبدیلی‘ کا عمل شروع ہوا تھا۔

عرب سپرنگ یا بہار سے متاثر ہونے والے ممالک میں شام بھی اہم منزل رہا ہے، جہاں ہونے والی تباہی کی بڑی وجہ بیرونی عناصر کی شمولیت تھی۔ عوامی بےچینی کی نئی لہر میں کیا اب سوڈان بھی بیرونی عناصر کا ایک نیا اکھاڑا بننے جا رہا ہے؟

شام کے ساتھ سوڈان کے حالات کا موازنہ شاید قیاس مع الفارق والی بات ہو، لیکن مشرق وسطی میں عوامی بیداری کی پہلی مہم میں نظر آنے والی بعض نشانیاں سوڈان میں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔

سوڈان میں 25 اکتوبر کو فوج نے اس خود مختار کونسل پر شب خون مارا جس کے ساتھ عسکری قیادت نے شرکت اقتدار کا معاہدہ کر رکھا تھا۔ وزیراعظم عبداللہ حمدوک کو گرفتار کر کے ملک میں ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی۔

لیفٹیننٹ جنرل عبدالفتاح البرہان کے مطابق روز افزوں سیاسی کشیدگی نے سوڈان کو خانہ جنگی کے دہانے پر لا کھڑا کیا تھا اسی لیے انہیں فوج کو بیرکوں سے باہر نکالنے جیسا انتہائی اقدام اٹھانا پڑا۔

کھلا تضاد

ماضی میں مصر کے اندر ڈاکٹر محمد مرسی مرحوم کی منتخب حکومت کے خلاف عبدالفتاح السیسی کی فوجی بغاوت کو تو امریکہ اور مغربی ممالک نے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا جبکہ سوڈان میں ہونے والی فوجی اکھاڑ پچھاڑ پر یہی ممالک فوجی جنتا کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ گئے ہیں۔ خرطوم میں قید شہریوں کی رہائی اور ان کی اقتدار میں واپسی کے مطالبات زور پکڑتے جا رہے ہیں۔

سوڈانی فوج کے اقدام کو ملک میں پذیرائی ملی اور نہ ہی بین الاقوامی طاقتوں نے اس کی حمایت میں زبان کھولی۔ یہی وجہ سے کہ سوڈان کے طول وعرض میں مظاہرے ہونے لگے، جن پر فوج نے گولیاں برسائیں۔

فوجی بغاوت کے بعد سوڈان میں بڑھتا ہوا سیاسی بحران آج خود ریاست کے وجود کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔ اس بحران کی وجہ بعض سیاسی تجزیہ کاروں کے بقول عبوری سیاسی نظام کی بےقاعدہ بنت اور اس کے کرتا دھرتاؤں کا پیچیدہ باہمی تعلق ہے۔

حالیہ عبوری سیاسی انتظام کا آغاز لمبے عرصے تک سوڈان پر حکومت کرنے والے صدر عمر البشیر کو 2019 میں زبردستی اقتدار سے الگ کرنے والی عوامی تحریک کی کامیابی کے بعد ہوا۔ ماضی میں بھی سوڈان کے اندر کئی مرتبہ ایسے ہی پیچیدہ عبوری سیاسی بندوبستوں کے ذریعے ملکی نظام چلایا جاتا رہا، تاہم موجودہ عبوری سیٹ اپ کی مدت گذشتہ تمام عبوری ادوار سے لمبی ثابت ہوئی۔

 سوڈان کے عبوری سیاسی بندوبست

یادش بخیر!  1953-55کے دوران سوڈان، تاج برطانیہ کی نو آبادی کے طور پر بھی ایک عبوری سیاسی انتظام کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔ اس سیاسی انتظام کی ابتدا ایک انتخاب کے ذریعے ہوئی جس کے نتیجے میں تشکیل پانے والی حکومت نے ’خود اختیاری کا قانون مجریہ 1953‘ منظور کیا۔ اس قانون کی روشنی میں منتخب ایوان اور کابینہ کی تشکیل کی راہ ہموار ہوئی، تاہم ریاست کی سربراہی برطانوی گورنر جنرل کرتے رہے۔

اس قانون کے مطابق ریفرنڈم کے ذریعے اس بات کا فیصلہ کیا جانا تھا کہ سوڈان کا الحاق مصر سے ہو گا یا پھر یہ ایک مکمل آزاد ملک کے طور پر براعظم افریقہ کے نقشے پر طلوع ہوگا۔ عبوری سیاسی بندوبست کی کامیابی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ پارلیمنٹ نے ریفرینڈم کے بغیر ہی سوڈان کی آزادی کے حق میں ایک قرارداد منظور کر لی۔

خود اختیاری کے قانون کو جلد ہی سوڈان کی آزاد ریاست کے دستور کا درجہ حاصل ہوگیا۔ ملک کا انتظام چلانے کے لیے تاج برطانیہ کے نامزد گورنر جنرل کی جگہ پانچ رکنی خودمختار کونسل نے لے لی۔

بعد ازاں 1964 کے انقلاب کے وقت بھی خود مختار عبوری کونسل کا آزمودہ فارمولا کام آیا۔ اس انقلاب میں میجر جنرل ابراھیم عبود کے اقتدار کی بساط لپیٹی گئی تھی۔ آگے چل کر 1985 میں سوڈان کے صدر جعفر نمیری کو بھی ایسی ہی فوجی بغاوت کے نیتجے میں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔

 طویل ترین عبوری حکومت

ان تاریخی انقلابات [بغاوتوں] میں عبوری حکومتیں راتوں رات تشکیل پاتی رہیں جبکہ حال ہی میں اپنے انجام کو پہنچنے والا عبوری سول انتظام نو مہینوں کی صبر آزما جدوجہد کے بعد تشکیل پایا۔ گذشتہ دو برسوں کے دوران رونما ہونے والے واقعات سوڈان کے ماضی کے بیانیے سے ہر لحاظ سے مختلف دکھائی دیتے ہیں۔

عمر البشیر اور سوڈان کی پیپلز لبریشن موومنٹ/آرمی کے درمیان 2005 میں طے پانے والے ’جامع امن معاہدے‘ سے ملک کے جنوب میں جنگ کے بادل چھٹے اور اس کی روشنی میں جنوبی سوڈان کی آزادی کے لیے ریفرنڈم کا ٹائم ٹیبل طے پایا۔

جامع امن منصوبے کی روشنی میں سوڈان نے جمہور کی حکمرانی کا عبوری سفر طے کرنا تھا اور اس معاہدے کو علاقائی طاقتوں نے طے کروایا، تاہم بین الاقوامی طاقتوں نے بھی اس میں اپنا حصہ بقدر جثہ ڈالا۔

یہی معاہدہ آگے چل کر 2005 میں بننے والے سوڈانی دستور کے لیے اہم سنگ میل ثابت ہوا جس میں اختیارات کی تقسیم سمیت شہری اور انسانی حقوق پر بہت زور دیا گیا تھا۔ چھ سالہ عبوری دور بہت اچھا گزرا، اگرچہ کہیں کہیں ہم آہنگی کا فقدان دیکھنے میں آیا لیکن معاہدے کے نتیجے میں امن، شہری آزادیوں اور اظہار رائے کی بحالی اور سیاسی جماعتوں کے احترام کی راہ ضرور ہموار ہوئی۔

اس معاہدے سے دارفور میں 2003 سے جاری جنگ تو ختم نہ ہو سکی، تاہم سوڈانی معاشرے میں مذہب، اختیارات کی نچلی سطح پر تقسیم اور جمہوری شراکت جیسے اصولوں سے متعلق سوچ بچار کی راہ ضرور ہموار ہوئی۔

جامع امن معاہدہ مطلق العنان عسکری اختیارات رکھنے والی دو جماعتوں کے درمیان تھا جس میں انہوں نے اقتدار میں شراکت کے ساتھ تیل کی آمدن کو بھی باہم تقسیم کرنا تھا۔ فریقین کو اپنا مکمل بااختیار علاقہ ترتیب دینے کا حق حاصل تھا خواہ اس کے لیے انہیں انتخابات میں جھرلو چلانا پڑے۔ جنوبی سوڈان کی علیحدگی کے بعد دونوں علاقوں میں جنگ چھڑ گئی۔

 جامع امن منصوبہ اور معاہدہ اوسلو

جنوبی سوڈان کی ملک سے علیحدگی کے موقع پر بعض سیاسی مبصرین جامع امن معاہدے کا موازنہ فلسطین سے متعلق اوسلو معاہدے سے کرتے دکھائی دیے۔ فریقین پرامید تھے کہ حالات معمول پر لانے کے لیے اعتماد سازی کے مراحل طے ہوتے ہی بڑے متنازع امور بھی خوش اسلوبی سے طے پا جائیں گے، لیکن شومئی قسمت یہ خواب نہ فلسطین میں شرمندہ تعبیر ہوا اور نہ ہی سوڈان میں ایسا ہو سکا۔

ایتھوپیا کی مدد اور افریقی یونین کی ثالثی میں اگست 2019 کو فوجی کونسل اور سویلین تنظیموں کے اتحاد فورسز فار فریڈم اینڈ چینچ کے درمیان طے پانے والے معاہدے میں ایسی ہی خامیاں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ جامع امن معاہدے کی طرح اس معاہدے پر بھی فریقین کے درمیان پائے جانے والے تنازعات اصل مقصد پر حاوی ہونے لگے۔

اگست 2019 کو طے پانی والی دستوری دستاویز میں سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اس کے ذریعے فوج کے تابع ریپڈ سپورٹ فورسز [آر ایس ایف] نامی قبائلی ملیشیا کو سند جواز فراہم کرتے ہوئے اسے سوڈانی فوج کا حصہ بنا دیا گیا۔

آر ایس ایف کے رہنما محمد حمدان دقلو [حمیدتی] خود مختار کونسل کے نائب صدر بن گئے اور عبوری بندوبست میں یہ ملیشیا دن دگنی اور رات چگنی ترقی کرتے ہوئے ایک اہم معاشی اور سیاسی طاقت بن کر ابھری۔ ریاست کے اندر ریاست بنی بیٹھی ملیشیاؤں کی موجودگی میں جمہوریت کا خیال یقیناً محال است والی بات ہے۔

آر ایس ایف پر رواں برس 3 جون کے خونی واقعات میں ملوث ہونے کے الزام سے معاملات مزید پیچیدہ ہو گئے کیونکہ عبوری حکومت ان واقعات کی تحقیقات کا مینڈیٹ لے کر آئی تھی تاکہ خونریزی کے ذمہ دار عناصر کو قرار واقعی سزا دلوائی جا سکے۔

فورسز فار فریڈم اینڈ چینج نے اس معاہدے کی تائید ضرورت نہیں بلکہ سابق حکومت کے حامیوں کے خوف سے کی تھی۔ اگست 2019 کے معاہدے کی پہلی ترجیح عمر البشیر کے حامیوں کا بالخصوص اور اسلام پسندوں کا بالعموم قلع قمع کرنا تھا مبادا کہ وہ دوبارہ اقتدار میں لوٹ آئیں۔

اس معاہدے کے تحت جنرل عبدالفتاح البرہان کو اگلے ماہ خود مختار کونسل سے سبکدوش ہو جانا تھا۔ معاہدے کے مطابق اس وقت ایف ایف سی کے کسی منتخب نمائندے کو سربراہ مملکت بننا تھا جس کے بعد سویلین حکومت اپنے ایجنڈے کے بڑے بڑے نکات پر عمل کرنے کے قابل ہو جاتی۔

 فوجی جنتا کے خدشات

ان میں ایک بڑا نکتہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا احتساب کرنا تھا۔ یاد رہے کہ سوڈان کی حکومت ماضی میں وعدہ کر چکی تھی کہ وہ سابق صدر عمرالبشیر کو جرائم کی بین الاقوامی عدالت (انٹرنیشل کرمنل کورٹ) کے حوالے کر دے گی۔

لیکن جنرل البرہان اور پارلیمان کی ریپِڈ سپورٹ فورسز کے جنرل محمد حمدان سمیت، سابق صدر عمرالبشیر کے تمام ساتھیوں کی خواہش رہی ہے کہ سابق صدر کو بین الاقوامی عدالت کے حوالے نہ کیا جائے بلکہ سوڈان میں ہی مقدمہ چلایا جائے۔

سابق صدر کے ان ساتھیوں کا یہ خوف بجا تھا کہ اگر عمرالبشیر کو بین الاقوامی عدالت کے حوالے کر دیا گیا تو وہ دارفور کی لڑائی میں کیے جانے والے مبینہ مظالم کے حوالے سے اپنے ساتھیوں کا نام بھی لے لیں گے۔

جنرل البرہان اور ان کے ساتھیوں کو یہ خطرہ بھی دامن گیر رہا کہ اگر سنہ 2019 میں خرطوم میں ہونے والی قتل وغارت کی تفتیش کا معاملہ سامنے آیا تو اس سلسلے میں بھی ان ہی لوگوں پر انگلیاں اٹھیں گی۔

خرطوم میں یہ قتل وغارت فوج کی طرف سے عمرالبشیر کو اقتدار سے الگ کرنے کے دو ماہ بعد ہوا تھا جب پرامن مظاہرین ملک میں جمہوری حکومت کے قیام کے لیے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔

 جرنیلوں کو اس بات نے بھی پریشان کر دیا تھا کہ سویلین حکومت بدعنوانی پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ دفاعی شعبے میں اصلاحات کے ایجنڈے پر بھی عمل کرنا چاہتی تھی۔

ان ترجیحات کے ساتھ عبوری دور میں طے پانے والے معاہدے غیر معمولی حالات کا سبب بننے لگے۔ ان معاہدوں کے بعد فوج اور فورسز فار فریڈم اینڈ چینج  کے مابین تہہ در تہہ عدم تحفظ اور پیچیدہ باہمی انحصار خطرے میں دکھائی دینے لگا۔

کسی بھی سویلین حکومت یا فریق کو قانون نافذ کرنے والے اداروں بشمول فوج کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ بنیادی معاشرتی تبدیلیوں کے لیے ملنے والا مینڈیٹ پوری طرح نافذ کر سکیں۔ سوڈان میں سول حکومت کے لیے فوج کی یہ حمایت مفقود رہی۔

 خود مختار کونسل کی من مانیاں

نیز معاہدے میں خود مختار کونسل میں شامل عسکری نمائندوں کو چادر سے باہر پاؤں پھیلانے سے روکنے کا بھی کوئی طریقہ کار موجود نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ اس کونسل کے سربراہ جنرل البرہان نے سوڈان کے ’ڈی فیکٹو‘ سربراہ کے طور پر اختیارات استعمال کرنا شروع کر دیے۔ جناب حمیدتی سویلین گورنمنٹ کی اقتصادی کمیٹی کے سربراہ تھے اور باغی جتھوں سے معاملات طے کرنے کے  لیے بزعم خود اعلیٰ مذاکرات کار بن بیٹھے۔

فوجی جنتا نے سویلین کابینہ کو بتائے بغیر ہی خارجہ پالیسی کی تشکیل، امن وجنگ کے معاہدے کرنا شروع کر رکھے تھے۔ سول کابینہ کو بتائے بغیر اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے قیام کا فیصلہ دراصل سب سے زیادہ قابل اعتراض بات تھی۔

گذشتہ برسوں میں (اور اب بھی) نہ صرف سوڈان میں قومی بجٹ کا ایک بڑا حصہ فوج کو جاتا رہا ہے بلکہ فوج کی ملکیت میں چلنے والی کمپنیوں کو ٹیکس میں چھوٹ بھی حاصل رہی ہے اور انہیں اکثر ٹھیکوں میں کرپشن کے الزامات کا بھی سامنا رہا ہے۔

جس بحران کے نتیجے میں عبداللہ حمدوک کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا اس کی ایک اور وجہ فورسز فار فریڈم اینڈ چینج کی صفوں میں انتشار بھی بتایا جاتا ہے۔ اس مرتبہ انتشار کا باعث دارفور کے بااثر فریق بنے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بیجا قبائیلوں نے سیاسی معاہدوں میں عدم شمولیت پر احتجاج کرتے ہوئے سوڈان کی بندرگاہ بند کر دی جس نے وزیراعظم کی مشکلات میں اضافہ کیا تو جولائی کے مہینے میں انہوں نے خوف کے عالم میں کابینہ میں رد وبدل کی، لیکن وہ بھی ان کے کام نہ آئی۔

سوڈانی فوج اس لحاظ سے خود کو غیر محفوظ سمجھتی تھی کہ اقتدار کی بندر بانٹ میں شریک دوسرا فریق ماضی میں فوج کے ہاتھوں ہونے والے مظالم کے احتساب کی بات کرتا رہتا اور ساتھ ہی وہ فوج سے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف کریک ڈاؤن کا مطالبہ کرتا دکھائی دیا۔

حمدوک حکومت نے فوج کو ہدایت کی کہ وہ بیجا کے قبائیلیوں کی جانب سے بندرگاہ کی ناکہ بندی ختم کرانے کے لیے طاقت کا استعمال کریں لیکن فوج اس دوران وزیر اعظم کا بوریا بستر گول کرنے کا پلان تیار کر چکی تھی اس لیے انہوں نے کمزور سیاسی حکومت کا حکم ماننے انکار کیا۔

اس کے علاوہ یہ منصوبہ بھی اپنی جگہ موجود تھا کہ حکومت کے عبوری دور کے اگلے مرحلے میں فوج کو باقاعدہ سویلین کنٹرول کے تابع لایا جائے گا۔

 طاقت کے بل پر جوا

لیکن اب طاقت کے بل بوتے پر غیرآئینی قبضہ کر کے جنرل البرہان ایک بڑا جُوا کھیل چکے ہیں۔ وہ سوڈان کو درپیش مسائل کا کوئی حل پیش نہیں کر رہے ہیں۔ ان کے پاس معیشت، جمہوریت کی بحالی اور ملک میں امن جیسے سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہے اور یوں وہ ملک کے اندر افراتفری اور قتل وغارت جبکہ ملک کے باہر مکمل تنہائی کا خطرہ مول لے چکے ہیں۔

فوج نے 2019 میں جمہوریت کی بحالی کی تحریک کو بری طرح کچلا تھا تو اس وقت امریکہ، برطانیہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے چار رکنی اتحاد نے پس پردہ رہتے ہوئے افریقی یونین کے توسط سے مذاکرات کے ذریعے ایک حل نکال لیا تھا۔

شاید سوڈان کو کھائی میں گرنے سے بچانے کے لیے اس مرتبہ بھی اسی قسم کی کوشش کی ضرورت ہے۔

سوڈان میں سعودی سفیر علی بن حسن جعفر کی معزول وزیراعظم عبداللہ حمدوک سے ملاقاتوں کی خبروں کے بعد کسی بریک تھرو کی امید کی جا سکتی ہے، لیکن حالیہ واقعات کے بعد اب جنرل عبدالفتاح البرہان پر کون اعتبار کرے گا؟

نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے اور تجزیے پر مبنی ہے ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ