نیپالی شخص جنہیں پیدل چلنے کا شوق سری نگر لے آیا

کھٹمنڈو کے رہائشی 27 سالہ ایہہ گذشتہ چند سالوں میں نیپال میں تقریباً نو ہزار کلومیٹر کا پیدل سفر کر چکے ہیں جس کے بعد ستمبر میں پہلی بار انہوں نے اپنے وطن سے باہر جانے کے لیے پیدل سفر کا منصوبہ بنایا۔

نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو کے رہائشی ایہہ (Iih) کی عمر اب 27 سال ہے۔ جب وہ سکول میں پڑھتے تھے تو پیدل چل کر گھر واپس جانےکے شوق میں بس میں سوار نہیں ہوتے تھے۔

انہیں بچپن سے ہی پیدل چلنے اور نئی نئی چیزیں دیکھنے کا شوق ہے۔ اسی شوق کو پورا کرنے کے لیے وہ گذشتہ چند سالوں میں نیپال میں تقریباً نو ہزار کلومیٹر کا پیدل سفر کر چکے ہیں۔

ان کے پیدل چلنے کا قصہ 2015 سے شروع ہوتا ہے جب انہوں نے ملک کے میدانی علاقوں کا سفر کیا اور پہلی بار طویل پیدل سفر کرتے ہوئے 1200 کلو میٹر کا فاصلہ طے کیا۔ یہ سفر 40 دن میں طے ہوا، جس کے دوران انہوں نے امن کا نعرہ لگایا۔

وہ 2017 سے 2018 تک ایک سال کے عرصے میں نیپال بھر کا پیدل سفر کر چکے ہیں۔ اس دوران وہ پہاڑوں اور میدانوں سے گزرے اور چھ ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا۔ سفر میں ان کی ملاقات کئی لوگوں کے ساتھ ہوئی۔ یہ ان کی زندگی کا ایک اہم سفر تھا۔ 2019 میں کووڈ کی وبا ان کے پیدل سفر میں رکاوٹ بنی لیکن اس کے باوجود وہ ملک کے اندر ہی چند کلومیٹر تک چلتے رہے۔

ستمبر میں پہلی بار انہوں نے اپنے وطن سے باہر جانے کے لیے پیدل سفر کا منصوبہ بنایا۔ وہ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی گئے جہاں سے انہوں نے لداخ کے قصبے لیہہ کے لیے پرواز لی تاکہ ہمالیہ کے پہاڑوں سے بھارت کے میدانی علاقوں تک سفر کرتے ہوئے مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے مل سکیں۔ وہ لیہہ سے کارگل تک گئے اور انہوں نے پیدل چلتے ہوئے چار سو کلومیٹر سے زیادہ کا فاصلہ سات دن میں طے کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ایہہ نے بتایا: ’میں لیہہ سے کنیاکماری تک پیدل سفر کا ارادہ رکھتا ہوں کیونکہ اس طرح مجھے مختلف ثقافتوں اور زبانوں کا تجربہ ہوگا لیکن برصغیر کچھ بہت زیادہ مختلف نہیں ہے بلکہ ہر دن قدرے مختلف ہوتا ہے۔ میں بہت سے نئے لوگوں سے ملا ہوں اور نئے علاقے دیکھے ہیں۔ مزید پیدل سفر کی یہی وجہ ہے۔‘

سری نگر میں قیام کے دوران انہوں نے پرانا شہر اور ڈل جھیل دیکھی۔ وہ دریائے جہلم کے ساتھ ساتھ لال چوک سے چلتے ہوئے پرانے شہر پہنچے جہاں انہوں نے میر سید علی ہمدانی کا مزار اور جامعہ مسجد دیکھی۔ وہ کہتے ہیں: ’مجھے گھر جیسا محسوس ہوتا ہے۔ آبائی قصبے اور کشمیر کے درمیان کئی باتیں مشترک دکھائی دیتی ہیں لیکن یہاں بڑی تعداد میں فوج موجود ہے اور مقامی لوگوں سے ملتے جلتے ہوئے خوف کی فضا دکھائی دیتی ہے۔ نواحی علاقے میں پیدل سفر کرتے ہوئے گولیاں چلنے کی آواز سنائی دی اور کسی کی موت واقع ہو گئی۔ اس کے باوجود مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ یہاں کے لوگ مہمان نواز ہیں۔‘

ایہہ سری نگر سے واپس نئی دہلی کا سفر اختیار کر چکے ہیں۔ وہ روزانہ 25 سے 30 کلو میٹر پیدل چلیں گے اور انہیں کنیاکماری تک پہنچنے میں لگ بھگ چار ماہ لگ جائیں گے۔ ان کے بقول: ’میری زندگی غیر یقینی سے بھری ہوئی ہے۔ مجھے علم نہیں کہ میں کہاں قیام کروں گا اور شام کو کیا کھاؤں گا۔ کس سے ملوں گا اور کس تجربے سے گزروں گا۔ لیکن مجھے یہی پسند ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا