پاکستان ایران بارٹر نظام: 33 اشیا کی فہرست پاکستان کے حوالے

پاکستان ایران بارٹر تجارت معاہدے کے بعد پاکستان کی جانب سے ایران کو چاول کے علاوہ تازہ اور خشک امرود، تیارملبوسات، پولیمر، ٹیکسٹائل فیبرکس، طبی آلات، گوشت اور آم سمیت دیگر اشیا تجارت کی فہرست دی گئی ہے۔

ایرانی ٹماٹروں کی پاکستانی مارکیٹ میں سٹوریج (فائل تصویر: اے ایف پی)

پاکستان اور ایران کے درمیان تجارت کے فروغ کے لیے تہران میں دونوں ممالک کے درمیان بارٹر( اشیا کے بدلے اشیا) تجارت  کرنے کا معاہدہ ہوگیا ہے۔

کرونا کے بعد سرحدوں کی بندش اور کاروبار پر پابندیوں کے بعد پہلی پاکستان اورایران نے دو طرفہ تجارت کے حوالے سے پیش رفت کا آغاز کردیا ہے۔ دونوں ممالک کے مشترکہ تجارتی کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ پاکستان اورایران بارٹر نظام کے تحت تجارت شروع کریں  گے۔

اس حوالے سے ایران کے دورہ کرنے والے وفاقی مشیر برائے تجارت عبدالرزاق داؤد نے بھی ٹوئٹر پر ایک ٹویٹ کے ذریعے کہا کہ دونوں ممالک نے سرحد پر چاول کے بدلے بارٹر ٹریڈ پر اتفاق کرلیا ہے۔

بلوچستان میں دوممالک سے قانونی اورغیرقانونی تجارت ہوتی ہے۔ جس میں ایران اور افغانستان شامل ہیں۔ جس سے سرحدی علاقوں میں ایک کثیر آبادی کا روزگار بھی منسلک ہے۔

یاد رہےکہ پاکستان نےتفتان کی سرحد پر ایک قدیم تجارتی بازار بازارچہ کو بھی بند کردیا ہے۔ جس سے یہاں کے کئی لوگوں کا روزگار وابستہ تھا۔ اب یہ تمام تجارت این ایل سی کے ٹرمینل کے ذریعے ہورہی ہے۔

بلوچستان کے ایک تاجراور چیمبر آف کامرس کے سابقہ عہدیدار بدرالدین کاکڑ سمجھتےہیں کہ ایران کے ساتھ تجارتی 2016 میں طے کیا گیا جو ابھی تک مطلوبہ حجم تک نہیں پہنچ سکا ہے۔ بدرالدین کاکڑ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’حالیہ ایران اور پاکستان کے درمیان معاہدہ 33 اشیا کا ہوا ہے جو دونوں اطراف سے بارٹر کے ذریعے کیا جائے گا۔‘

’انہوں نے ہم ایران سے خام مال اور کیمیکل منگواتے ہیں جو ہمیں اس ذریعے سے اجناس کے بدلے مل سکیں گی دوسری جانب کھانے پینے کی اشیا اجناس لاہوراور کراچی کے مارکیٹس کو فائدہ پہنچاسکتی ہیں۔‘

بدرالدین کہتے ہیں کہ یہ بہتر قدم ہے اس سے ان سرحدی علاقوں میں عام آدمی کو بھی فائدہ ہوگا۔ تاہم مزید اقدامات کی بھی ضرورت ہے۔

سمنگلنگ کی روک تھام کیسے ممکن ہے

بلوچستان میں سرحدی لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایران اورافغانستان سے سمگلنگ کے کاروبار سے منسلک ہے۔ سرحدوں پر باڑ لگانے سے اس میں کسی حد تک کمی ہوچکی ہے لیکن یہ اب بھی جاری ہے۔

تاجررہنما بدرالدین سمجھتےہیں کہ بلوچستان میں تجارت کو فروغ دے کراور یہاں پر کسٹم کے لیے جو اشیا پرڈیوٹی لگائی جاتی ہے اس پر نظر کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’یہاں پر جولوگ سمگلنگ کرتے ہیں وہ 20 سے 25 فیصد منافع کے لیے کرتے ہیں۔ اگر ہم یہی فائدہ ان کو کسٹم ڈیوٹی میں دے دیں تو نہ صرف یہ ختم ہوسکتا ہے بلکہ یہاں قانونی تجارت کو بھی فروغ ملے گا، بلوچستان کے ساتھ ایک مسئلہ ہے کہ یہاں پر ڈیوٹیز لگانے کا فیصلہ دیگر ممالک کی بنیاد پر لگایا جاتا ہے جس سے عام لوگوں کو کم فائدہ ملتا ہے۔ چونکہ یہ ایک مشکل کام ہے اور اس کے لیے بالادست طبقے اور طاقتور لوگوں کو ناراض کرنا ہوگا اس لیے یہ کام آج تک نہیں ہوسکا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ایران اورپاکستان نے بارٹرکے ذریعے تجارت تفتان بارٹر سے کرنے کا  فیصلہ کیا ہے۔

بدرالدین نے تفتان سرحد پر قدیم بازار کی بندش کو لوگوں کےمشکلا ت میں اضافے کا باعث قراردیا۔ انہوں نے کہا کہ ’اس سے کئی لوگوں کو روزگار چلا گیا اگر وفاقی حکومت فیصلے کرتےہوئے بلوچستان کے زمینی حقائق کو مد نظر رکھے اور چھوٹے تاجروں کو فائدہ پہنچائے تو بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ چونکہ ایف اے ٹی ایف کی طرف سے پابندیوں کے باعث پاکستان اور ایران کے درمیان تجارت کے لیے پیسوں کی ترسیل بینک کے ذریعے نہیں ہوسکتی اس لیے یہ راستہ لیا گیا۔‘

تفتان کے معروف تاجرشوکت عیسیٰ زئی سمجھتے ہیں کہ بارٹر کے ذریعے ایران سے تجارت کا فائدہ عام لوگوں کو نہیں ہوگا، اس میں بڑے تاجر کاروبار کریں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ تفتان میں چھوٹے تاجروں کے لیے ایک مرکز بازارچہ موجود تھا، اسے بھی بند کردیا گیا۔ اس طرح کا اگر کوئی اقدام کیا جائے تو شاید عام تاجراور لوگوں کو کچھ فائدہ مل سکے۔

دوسری جانب پاکستان اور ایران کی مشترکہ تجارتی میٹنگ کے دوران  یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو پانچ بلین ڈالر کے حجم تک لے جایا جائے گا۔ اجلاس کے دوران اگلے تین ماہ کے دوران دونوں ممالک فری ٹریڈ ایگریمنٹ پر بھی عمل درآمدکرانےکا فیصلہ کیا گیا۔

ایران کی طرف سے تجارتی اشیاکی 33 اشیا پرمشتمل فہرست پاکستان حکام کو دی گئی جس میں ہائیڈرو کاربن گیس، لیکویڈ گیس، خشک اورتازہ کجھور، سیرامک، خشک سبزیاں، تازہ اور خشک پستہ، سٹیل، تازہ جوسز، دودھ اور کریم شامل ہیں۔

دوسری طرف پاکستان نے ایران کو چاول کے علاوہ تازہ اور خشک امرود، تیارملبوسات، پولیمر، ٹیکسٹائل فیبرکس، طبی آلات، گوشت اور آم سمیت دیگر اشیا کی فہرست دی ہے۔

ارنا نیوز ایجنسی کے مطابق ایرانی وزیرزراعت جواد سادات نجید نے پاکستان کےوزیراعظم کے مشیر تجارت، ٹیکسٹائل، انڈسٹری، پیدوار رزاق داؤد سے تجارتی اجلاس کے دوران ملاقات میں تجویز دی کہ دونوں ممالک بعض مسائل کے حل کے لیے تجارت اپنی کرنسیوں میں بھی کرسکتے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا