’تبدیلی‘ کا آغاز کیا صادق سنجرانی سے؟

بیس نومبر کے بعد کی کہانی مختلف ہوسکتی ہے اور حکومت کی یہ دونوں اتحادی جماعتیں شدت سے یہ بات دہرانے لگیں گی کہ مہنگائی اور خراب کارکردگی کی وجہ سے ان کے اراکین اسمبلی اپنے حلقوں تک میں نہیں جاسکتے، اس لیے اب حکومت چھوڑنا ان کے لیے سیاسی بقا کا مسئلہ ہے۔

ملکی سیاست کی اصل سمت کا تعین چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کی اڑان کے تابع ہوگا(سینیٹ پاکستان ویب سائٹ)

نومبر میں عمومی طور پر دسمبر کی شدید سردی کا احساس ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ پاکستان کے سیاسی حالات کے عین مطابق دسمبر کی سیاسی گرمی کی ممکنہ تپش بھی نومبر کے وسط میں شروع ہوچکی ہے۔

کئی اینکرز اور صحافی نواز شریف کو گرانے اور عمران خان کو چڑھانے پر اپنے کردار پر معافیاں مانگ رہے ہیں۔ 2018 کے انتخابات سے پہلے کے واقعات کے انکشافات ہو رہے ہیں، حکومت دو مرتبہ پارلیمان میں شکست کھا چکی، جس کے بعد متنازعہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور انتخابی اصلاحات پر مشتمل بلوں کی منظوری کے لیے بلایا گیا پارلیمان کا مشترکہ اجلاس اکثریت کھونے کے ڈر سے ملتوی ہوا۔ اب حکومت ایک مرتبہ پھر بدھ کو قسمت آزمائی کرے گی۔

ایک پیج کے ’گم‘ ہو جانے کے بعد سے سیاسی حالات کی تبدیلی کی پیش گوئیاں تو ہو رہی تھیں، لیکن جس تیزی کے ساتھ حالات تبدیل ہوتے جا رہے ہیں، وہ حکومت وقت کے لیے انتہائی حیران کن بھی ہیں اور پریشان کن بھی۔۔ حکومتی اراکین استفسار کرتے پھر رہے ہیں کہ ہمارا کتنا وقت باقی ہے۔

حکومت کے لیے یقیناً چیلنجنگ حالات ہیں لیکن دوسری طرف اپوزیشن کے لیے بھی سب اچھا نہیں ہے۔ حزب اختلاف نے گذشتہ تین سالوں میں تقریباً جو بھی میچ جیتا وہ تحریک انصاف کی حکومت کی غلطیوں کی وجہ سے جیتا نہ کہ اپنی مثالی اپوزیشن سے۔

ایک طرف اگر ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے نہ ختم ہونے والے اختلافات، عمران خان کو لائف لائن فراہم کرتے رہے، تو دوسری جانب عمران خان اپنی ہی غلطیوں سے ان دونوں بڑی جماعتوں کو پھر سے قریب کرتے رہے۔

پیپلزپارٹی یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ میں باپ پارٹی کے ووٹوں سے قائد حزب اختلاف بنوانے کے بعد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم)  چھوڑ گئی، لیکن عمران خان کی جانب سے نئے ڈی جی آئی ایس آئی کے نوٹیفیکیشن کے معاملے کی مِس ہینڈلنگ نے ایک دفعہ پھر اپوزیشن کو یکجا کر دیا ہے۔

اس بار مولانا ہوں، بلاول یا پھر نواز شریف، ایک بات پر یکسو اور متفق ہیں کہ عمران خان پر اسی وقت ایسی کاری ضرب لگائی جاسکتی ہے کہ وہ سنبھل نہیں پائیں گے۔ اپوزیشن نے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا اعلان کر رکھا ہے لیکن اپوزیشن اپنی اصل چالیں 20 نومبر کی ’جادوئی‘ تاریخ گزرنے کے بعد ہی چلے گی۔

ن لیگ، پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر عمران خان کو چلتا کرنے اور نئے انتخابات کے لیے اپوزیشن کی ہر حکمت عملی پر تیار ہے، لیکن نواز شریف سمیت پارٹی کی دیگر قیادت ابھی تک مطمئن نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ غیرجانبدار رہے گی۔ اگرچہ، ’لائن آف کمیونی کیشن‘ کھل چکی ہے اور پیغامات بھی پاس ہو رہے ہیں۔ ‎فاصلے بھی کم ہوتے جا رہے ہیں لیکن اعتماد کا فقدان ابھی تک جوں کا توں موجود ہے۔

اس اعتماد کو بحال کرنے کے لیے اگر کسی ایک شخص کو گھر جانا پڑے گا تو وہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی ہوں گے۔ وہ سینیٹ میں اپوزیشن کی اکثریت کے باوجود اپنی ’جادوئی‘ چھڑی کے سہارے عہدے پر قائم ہیں۔ ن لیگ کی قیادت سمجھتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے غیرجانبدار ہونے کا سب سے بڑا ثبوت صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کے دوران ہی سامنے آجائے گا۔ لیکن معمہ یہ ہے کہ اگر سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد ایک دفعہ پھر ناکام ہوجاتی ہے تو اپوزیشن کے اعتماد کو ایسی ٹھیس پہنچے گی کہ جس کی شدت آئندہ انتخابات تک محسوس ہوگی۔

لیکن اگر صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو یہ یقیناً عمران خان کے اقتدار کے خاتمے کا آغاز ہوسکتا ہے۔ فی الحال تو بدھ کو مشترکہ اجلاس کے لیے ق لیگ اور ایم کیوایم نہ چاہتے ہوئے بھی ’مان‘ گئے ہیں (ق لیگ ابھی تک البتہ یہ چاہ رہی ہے اس کے لیے ’ڈٹے رہنے‘ کی ہی اصطلاح استعمال کی جائے)۔ حالات ایسے ہیں کہ انتہائی متحرک انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے باوجود حکومت کے پاس اس بات کی قطعاً کوئی گارنٹی نہیں کہ اسے شکست نہیں ہوگی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

20 نومبر کے بعد کی کہانی البتہ مختلف ہوسکتی ہے اور حکومت کی یہ دونوں اتحادی جماعتیں شدت سے یہ بات دہرانے لگیں گی کہ مہنگائی اور خراب کارکردگی کی وجہ سے ان کے اراکین اسمبلی اپنے حلقوں تک میں نہیں جاسکتے، اس لیے اب حکومت چھوڑنا ان کے لیے سیاسی بقا کا مسئلہ ہے۔

اپوزیشن سڑکوں پر لانگ مارچ اور پارلیمان کے اندر عدم اعتماد کی تحریکوں کے ذریعے نومبر کے باقی دنوں اور دسمبر کو گرم رکھے گی۔ صادق سنجرانی کا جانا عمران خان کے لیے بہت بڑا جھٹکا ہوگا، لیکن اپوزیشن کو یہ ذہن نشین رکھنا ہوگا کہ 20 نومبر کے بعد کیا صادق سنجرانی واقعی کمزور ہو جائیں گے، کیونکہ جام کمال کے جانے میں اہم کردار ادا کرنے کے بعد ان کے پر اب بلوچستان تک پھیل چکے ہیں۔

‎اپوزیشن کے بعض رہنماؤں کو خوش فہمی ہے کہ نومبر کی جادوئی تاریخ گزرنے کے بعد اپنی ’جادوئی اڑان‘ کے لیے مشہور صادق ‎سنجرانی اڑ نہیں پائیں گے، لیکن ساتھ میں اپوزیشن کے کچھ زیرک رہنما قیادت کو خبردار بھی کر چکے ہیں کہ سنجرانی کی محبت میں ایک پیج مجبوراً دوبارہ جڑ بھی سکتا ہے۔ سنجرانی کی ایک بار پھر ’جادوئی اڑان‘ عمران خان کے اقتدار کو یقیناً دوام دے گی لیکن اس وقت خود صادق سنجرانی کو معلوم ہے کہ ان کے لیے اڑان کتنی مشکل ہو چکی ہے۔ ملکی سیاست کی اصل سمت کا تعین چیئرمین سینٹ کی اڑان کے تابع ہوگا۔


نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے۔ ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ