حزب اختلاف کا غیرسنجیدہ رویہ

آج وہ جماعتیں جو پچھلی حکومت میں اقتدار میں تھیں اور اب حزب اختلاف میں ہیں ان کا رویہ بھی انتہائی غیرسنجیدہ ہے۔

(پی ٹی وی سکرین گریب)

پاکستان کے موجودہ دگرگوں حالات کی بہت سی وجوہات ہیں مگر ان میں سے ایک حزب اختلاف کی غیرجمہوری اور غیرسنجیدہ روش بھی ہے۔

المیہ یہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں حزب اختلاف میں رہتے ہوئے جو مطالبات حکومت سے کرتی ہیں کہ وہ جمہوری رویہ اپنائیں اور پارلیمان کو مضبوط کریں مگر جب یہی پارٹیاں اقتدار میں آتی ہیں تو وہی غیرجمہوری رویہ اختیار کر لیتی ہے جس کے خلاف تھیں۔

عمران خان نے پچھلی حکومت کو ایک دن بھی چین سے کام نہیں کرنے دیا۔ پارلیمان میں جا کر پالیسیوں پر بحث کرنے کی بجائے وہ سڑکوں پر احتجاج کرتے رہے۔ ان دھرنوں میں وہ حکومت پر یہ الزام لگاتے رہے کہ انہوں نے پارلیمان کو کمزور اور بےوقعت کیا ہے۔

ہم نے کئی دفعہ اس رویے پر پی ٹی آئی میں احتجاج کیا مگر اب اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں تو پالیسیوں کی سمجھ ہی نہ تھی اسی لیے ان کے لیے سڑکوں پر احتجاج اس کمزوری کو چھپانے کا ذریعہ تھا۔ شاید اگر وہ پالیسیوں پر سنجیدہ بحث کرتے تو ان کی حکمرانی کی تربیت ہی ہو جاتی۔

آج وہ جماعتیں جو پچھلی حکومت میں اقتدار میں تھیں اور اب حزب اختلاف میں ہیں ان کا رویہ بھی انتہائی غیرسنجیدہ ہے۔ بلاول بھٹو اور خواجہ آصف نے بجٹ پر ووٹ سے ایک دن پہلے پریس کانفرنس کرکے یہ اعلان کیا کہ وہ بجٹ کو مسترد کرتے ہیں، لیکن نہ انہوں نے یہ بتایا کہ بجٹ مسترد کرنے کی کیا وجوہات ہیں اور نہ یہ بتایا کہ ان کے بجٹ بہتر کرنے کی تجاویز کیا ہیں۔ ہم نے بجٹ کے حوالے سے حکومت کو تجاویز دی تھیں جن پر انہوں نے عمل نہیں کیا۔ موجودہ بجٹ  آئی ایم ایف نے منظور کیا اور عوامی مفاد کی بجائے بظاہر خواص کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس بجٹ سے ملک کے معاشی مسائل مزید بڑھیں گے جس کے ذمہ دار حکومت اور حزب اختلاف دونوں ہیں۔

حزب اختلاف روزانہ یہ بیانات دیتی رہی کہ جلد سے جلد بجٹ پر پارلیمانی بحث شروع کی جائے مگر جب اجلاس ہوا تو کسی ایک بھی معاشی معاملے پر کوئی سنجیدہ مکالمہ نہ ہوا بلکہ نوجوان تو نوجوان بزرگ اور تجربہ کار ممبر تک سیکنڈری سکول کے چھڑوں کی طرح ایک دوسرے پر آوازیں کستے رہے۔

حقیقت یہ رہی کہ پردے کے پیچھے حکومت اور حزب اختلاف میں معاہدہ ہو چکا تھا کہ بجٹ آسانی سے پاس ہو جائے گا۔ یہ بھی غیرمصدقہ اطلاع تھی کہ نواز شریف نے اپنی پارٹی کو ہدایت کی کہ بجٹ پاس ہو جانا چاہیے۔ جب یہ سب طے تھا تو عوام کے سامنے یہ ڈراما کرنے کی کیا ضرورت تھی کہ بجٹ مسترد۔

یہ تمام غیر سنجیدہ لوگ عوام کو بےعقل اور جاہل سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ عوام ان کی نااہلی سے ناواقف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پوری قوم انہیں نااہل سمجھتی ہے اور مسائل کے حل کی بجائے انہیں مسائل کی جڑ تصور کرتی ہے۔

اگر صاف اور شفاف الیکشن کیے جائیں تو ان میں سے ایک بھی عوام کا اعتماد نہ لے سکے۔ تقریباً تمام پارلیمان کے ممبر اوسطاً 13 فیصد ووٹ لے کر اسمبلی میں پہنچتے ہیں اور اگر جعلی ووٹ نکال دیے جائیں تو یہ اوسط مزید کم ہو جائے۔

الیکشن میں ووٹ ڈالنے کی شرح بھی اوسطاً 47 فیصد (جس میں اگر جعلی ووٹ نکال دیے جائیں تو اوسط اور کم ہوگی) رہتی ہے، اس لیے کہ لوگ اس عمل کو ہی اپنے مسائل کا حل نہیں سمجھتے۔ اس کی تمام ذمہ داری ان لوگوں کی نااہلی اور غیرسنجیدگی کی وجہ سے ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان کی حقیقت یہ ہے کہ حکمران اور حزب اختلاف دونوں کے درمیان یہ معاہدہ ہے کہ اس عوام کو محکوم رکھنا ہے۔ اقتدار ان کے درمیان گھومتا رہے بظاہر ایک دوسرے کے خلاف ہوں مگر اندر سے ملے ہوئے ہوں۔ مقتدر حلقے بھی اس بندوبست سے خوش ہیں اس لیے کہ ان کے مفادات بھی محفوظ ہیں۔

لیکن یہ صورت حال کب تک چلے گی۔ عوام میں غربت، بیروزگاری اور تنگ دستی بڑھتی جا رہی ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب ان سب کے خلاف عوام کھڑے ہوجائیں گے اور پھر کچھ نہیں بچے گا۔

چونکہ مجھے حکومت اور حزب اختلاف دونوں پر اعتماد نہیں اس لیے اکثر لوگ مجھ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ پھر ایسے لوگوں کے ساتھ قومی مذاکرات کرنے کا کیا فائدہ؟ لوگ یہ بھی پوچھتے ہیں کہ جو لوگ روز ایک دوسرے کے ساتھ بدکلامی اور بدتمیزی کرتے ہیں کیا وہ ایک میز پر بیٹھ سکتے ہیں؟ یہ اہم سوالات ہیں۔

میں یہ سمجھتا ہوں ہر پارٹی میں ایسے تجربہ کار اور ایماندار لوگ موجود ہیں جو سنجیدگی سے ملک کے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں۔ میں امید کر رہا ہوں کہ وہ اس عمل میں آگے بڑھ کر ہماری مدد کریں گے۔ دوسرا یہ کہ اب یہ ان سب کے اپنے مفاد میں ہے کہ قومی سیاسی مذاکرات کامیاب ہوں۔ جو پارٹی انہیں ناکام کرنے کی کوشش کرے گی قوم اس کا پیچھا نہیں چھوڑے گی۔

آخر میں یہ کہ مذاکراتی میز پر ہماری موجودگی اسی لیے ضروری ہے تاکہ ہم ان کے غیر سنجیدہ رویے کو کنٹرول کر سکیں اور کسی کو حد پار نہ کرنے دیں۔ اس سب کے باوجود یہ کوئی آسان کام نہیں ہوگا۔ لیکن اگر قوم انہیں یہ پیغام بھیجتی رہے کہ بہت ہو چکا اب مسائل کا دیرپا حل ہونا چاہیے تو ان سب کے پاس کوئی اور راستہ نہیں رہے گا۔

امید اور کوشش برحق ہے، جو ہم جاری رکھیں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ