جاٹوں کا مفت گڑ اور دلِ بےرحم

ہم لڑکے بالے اُن دِنوں بہت شرارتی ہوتے تھے۔ گرمیاں ہوتیں یا سردیاں تمام دن سڑکوں پر بھاگتے اور کھیلتے گزرتی اور ضد میں آ کر نقصان بھی جاٹوں کی فصلوں کا کرتے۔

ویلنے کے قریب ہم نے صبح ہونے سے پہلے گنے کا ایک تنکا بھی نہ چھوڑا۔ سب اٹھا کر زمین میں دفن کر دیا۔ تین چار من گڑ نکلا، وہ سب گُڑ اُٹھا کر ایک گھر میں جمع کر دیا اور نشان مٹا دیے (فوٹو فائل، روئٹرز)

پُرانی بات ہے کہ ہمارے گاؤں میں ایک جاٹ برادری کا گھر تھا۔ یہ چار بھائی تھے اور، خدا جھوٹ نہ بلوائے، ہر بھائی کے کم از کم دس دس بچے تھے۔

گاؤں کے جنوب میں ان کی کچھ زمین تھی اور زرخیز تھی۔ اِس زمین کو گاؤں کی دیواریں لگتی تھیں یعنی بالکل پڑوس میں تھی۔ ذات کے جاٹ ہونے کے سبب عقل کے جاٹ بھی تھے۔ اِن میں سب سے بڑا اصغر جٹ تھا، باقی درجہ بدرجہ تھے۔ یہ بندہ بہت طرح دار تھا لیکن دوسرے ایسے نہ تھے۔

ایک مرتبہ اِنہوں نے اپنی زمین میں ہل وغیرہ چلانے اور غلہ ڈھونے کے واسطے ٹریکٹر خرید لیا۔ ٹریکٹر چلانا کسی کو نہ آتا تھا اور ڈرائیور رکھنے کی اِن میں طاقت نہ تھی۔ خود ہی چلانے کی کوشش کرنے لگے۔ اور سب سے پہلے یہ کوشش اصغرجٹ نے کی۔ اول تو خود اِس کا اپنا وزن ڈھائی سو کلو سے اُوپر تھا۔ مست ہاتھی کی طرح جھوم جھوم کے چلتا تھا۔ دوم ٹریکٹر تو ایک طرف، اِس نے کبھی سائیکل نہ چلائی تھی۔ سب جاٹوں نے اِسے قلبِ لشکر کی کمان دی اور اُس پر چڑھ بیٹھا۔

کہنے لگا، ’یہ بھی کوئی کام ہے، چابی لگا کر گیئر ہی تو لگانا ہے، پھر آرام سے بیٹھ کر اُسے چلتے ہوئے دیکھنا ہے۔‘

وہ ٹریکٹر کی سیٹ پر پورا نہ آتا تھا اور پُھرتی جسم میں بالکل نہ تھی۔ بڑی مشکل سے سیٹ میں پھنس پھنسا کر بیٹھا، اگنیشن میں چابی دی اور پہلی ہی ٹرائی میں ٹریکٹر کو ریورس گیئر میں ڈال بیٹھا۔ ٹریکٹر پچھلے قدموں چلنے لگا۔ اب اصغر جٹ کی سمجھ میں نہ آیا کہ یہ آگے کی بجائے پیچھے کیوں جا رہا ہے۔ ارد گرد کھڑے لوگ دُور دُور ہٹ گئے اور لگے چیخنے کہ ’اگلا گیئر لگاؤ، اگلا گیئر!‘

اِدھر اِسے خبر نہ تھی کہ اگلا گیئر کیسے لگے گا۔ ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ کچھ سمجھ نہ آئی کیا کروں۔ گیئر لگانے کی بجائے ہینڈل گھمانے لگا۔ قُدرت خدا کی، ٹریکٹر کے پچھلی طرف مویشی باندھنے والی حویلی تھی۔ اس میں ایک بڑے سے مکان پر چھت ڈال رکھی تھی، اُسی میں رات کو اپنی گائیں بھینسیں باندھتے تھے۔ ٹریکٹر اُسی مکان کی طرف جا رہا تھا۔ گھبراہٹ میں یہ بھی بھول گیا کہ اُن کے کس پاؤں کے نیچے بریک ہے اور کس کے نیچے ریس ہے۔

جیسے ہی مکان میں گھسنے لگا، بھائی بندوں نے پکارا، ’بھائی جی بریک لگا دو، بریک!‘ ادھر اِس نے ریس پر پاؤں رکھ دیا۔ ٹریکٹر اور تیز ہو گیا۔ اب یہ ارد گرد کھڑے ہوؤں کو چیخنے لگا کہ پیچھے سے سہارا دے کر ٹریکٹر کو روکو مگر انہوں نے نزدیک ہو کر مرنا تھا۔

جب اِس کی چیخ پکار پر کوئی نزدیک نہ آیا توخود چلتے ٹریکٹر سے چھلانگ لگا دی۔ پہلے تو دھڑام سے زمین پر گرا مگر جلد اُٹھا اور پہیے کو پکڑ کر روکنے لگا۔ وہ تو خیر ہوئی ٹریکٹر آہستہ ہو گیا تھا ورنہ یہ بھی پہیے کے ساتھ لپٹتے چلے جاتے۔ اُسی لمحے بھاگ کر دوعدد جٹ آگے ہوئے اور اِسے کھینچ لیا اور اگلے ہی لمحے ٹریکٹر مکان میں گھس گیا۔ اُس کے گھستے ہی دیواریں بکھر گئیں اور چھت ٹریکٹر کے اوپر آ پڑی۔ سب نے شکر ادا کیا کہ جان کا صدقہ تھا نکل گیا۔

بڑی مشکل سے مکان کا ملبہ اٹھا کر اندر ٹریکٹرکو نکالا۔ لیکن بجائے شرمندہ ہونے کے کہنے لگا، ’اِس مکان کو بہت مدت ہو گئی تھی اور خستہ ہو چلا تھا، مجھے ڈر رہتا تھا کسی روز جانوروں پر ہی نہ آ پڑے۔ آج موقع پا کر مَیں نے اِسے گرا ہی دیا۔‘

یہ واقعہ پل کی پل میں سارے گاؤں میں پھیل گیا اور خوب مذاق اُٹھا۔ مگر اُس کے بعد جو اِنھوں نے پورے گاؤں کے ساتھ مذاق کیا، اُس کا نہ پوچھیے۔

اس کا ایک چھوٹا بھائی تھا، انور جٹ۔ اس کی کہانی سنیے کہ اس نے ایک پیر صاحب کے حجرے میں 15 دن چلہ کر کے پیری ہتھیا لی تھی اور دعویٰ کیا تھا کہ اللہ نے ولایت کا جوہر پیر صاحب سے زبردستی لے کر اُسے عنایت کر دیا ہے اور کئی مریدوں نے اُس کی بیعت بھی کر لی تھی۔ اس واقعے کے چار روز بعد اِس نے ٹریکٹر کی سیٹ پر قابو پایا اوراُس پر سورہ الناس پڑھ کر گیئر لگا دیا مگر ٹریکٹر صاحبِ ایمان نہ تھا چنانچہ نہ تو اُس پر سورہ الناس نے اثر کیا اور نہ خود اُس کی بزرگی کی حیا کی۔

پہلے تو بے قابو ہو کر ایک بڑے گڑھے میں داخل ہو گیا، اُس کے بعد جو وہاں سے نکلا تو ایسے سر پٹ بھا گا جیسے ریل کا انجن ڈبوں کے بغیر دوڑ پڑے۔ ایک جگہ کچی سڑک پر ایک گَڈے کو دو بیل کھینچے جا رہے تھے۔ اوپر اُن کے ایک آدمی بیچارہ آرام سے بیٹھا حقہ پیے جاتا تھا۔ ٹریکٹر نے اُسی کا رُخ کیا اور پیچھے سے ایسی ٹکر ماری کہ گڈے کو بیلوں سمیت دھکیلتا ہوا پانی کے ایک بڑے تالاب میں تَیر گیا، جو گاؤں کی بھینسوں کے لیے اجتماعی طور پر بنایا گیا تھا۔

وہ تو بچت ہوئی تالاب بہت گہرا نہ تھا ورنہ گڈے سے بندھے بیل بھی ڈوب مرتے، حقہ اور گڈا تو اُس بچارے کا ڈوب ہی گیا تھا۔ انور جٹ کی اِس کرامت کے بعد ٹریکٹر کو اِس تالاب سے نکالنے میں ایک ہفتہ لگا۔ اِس عرصے میں اس مشین کے رُوں رُوں میں ایسا پانی گھُسا کہ اُسے کھُلوا کر صاف کروانے میں دو مہینے لگ گئے۔ اِس عمل ِ خیر کے بعد بھی اِس خاندان کی مہارت میں کوئی فرق نہ آیا۔ ڈرائیور ایک کے بعد ایک بدلتا گیا اور گاؤں کھنڈرات ہوتا گیا۔ گاؤں کی کوئی دیوار ثابت نہ چھوڑی۔ کوئی راستے کا کھمبا سلامت نہ رہنے دیا۔ معمول یہ بن گیا کہ جب بھی کوئی جاٹ ٹریکٹر پر بیٹھ کر اپنے کھیتوں سے گاؤں کی طرف آنے لگتا، راستے کی ہر شے کو روندتا ہوا آتا۔ کئی غریبوں کی جھونپڑیاں برابر کیں، کئیوں کے کوٹھے گرائے۔ کئی لوگوں کو پھٹڑ کیا۔ ایک دو کی ٹانگیں صدقے میں لیں۔

بات یہاں تک پہنچی کہ جیسے ہی اِن کا ٹریکٹر سٹارٹ ہوتا، پورے گاؤں میں ہراس پھیل جاتا۔ لوگ ہارے ہوئے لشکر کی طرح میدانوں میں بھاگتے اور پکارتے پھرتے، ’بھائیو ں اپنے اپنے کنارے لے لو، جاٹوں کا ٹریکٹر آ رہا ہے!‘

عورتیں اور لڑکے بالے مکانوں اور درختوں پر چڑھ جاتے۔ سڑکوں کے راہ گیر سڑک چھوڑ کر پناہ کی تلاش میں ہو جاتے۔ گاؤں کے اکثر لوگوں نے یہ احتیاط کی کہ اپنے مکانوں کی دیواروں کے ساتھ ساتھ بڑے پتھر رکھ دیے۔

ایک ہمارے گاؤں پر کیا موقوف، ارد گرد کے دسیوں دیہات میں جاٹوں کے ٹریکٹر کی دھوم پڑ گئی۔ مائیں اپنے بچوں کو گھروں کےصحنوں میں پڑی چارپائیوں کی غیر محفوظ جگہ سے اُٹھا کر درختوں پر چڑھا دیتیں کہ جانے کب جاٹوں کا عزرائیل گھر کی دیواریں توڑ کر صحن میں ہل چلا دے۔

مَیں نے پہلے عرض کیا کہ اِس خاندان کے صرف مردوں میں چھوٹے بڑے 40 افراد تھے۔ سب نے اِسی ٹریکٹر پر ہاتھ سیدھے کیے اور گاؤں کی چارپائیاں ٹیڑھی کیں۔ انجام کار، آدھا گاؤں پامال کر کے وزیرستان بنا دیا۔ سڑکوں کے کناروں پر بجلی کے کھمبے، پول اور درختوں کے تنے جڑوں سے اکھیڑ دیے اور اتنے ہی جرمانے بھگتے۔ ٹریکٹر کے پُرزوں کی حالت یہ ہوئی کہ ’کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا‘ والا معاملہ ہو گیا۔ ایک ایک کر کے اُس کا صرف ادھورا انجن اور چار پہیے سلامت بچے، باڈی کے قریباً تمام کَل پُرزے اللہ کو پیارے ہو گئے۔

یوں ٹریکٹرانہ جنگ و جدل میں چھ مہینے کے اندر ہی گھر کی تمام جمع پونجی کے ساتھ ٹریکٹر بھی راہِ فنا ہوا۔ اِس جانکاہ حادثے کے بعد اِن کا مزاج کافی چڑچڑا ہو گیا۔ گاؤں کے ہر فرد کو اپنے خلاف اسرائیل سمجھنے لگے۔ اُنہیں شکایت تھی کہ گاؤں میں جو بھی شے اُن کے ٹریکٹر کے سامنے آئی تھی وہ اُن کے خلاف دراصل سازش میں شریک تھی۔ یہی سبب تھا کہ اِن کی دشمنی سب سے ہو گئی اور گاؤں گویا دو دھڑوں میں تقسیم ہو گیا۔

اِدھر گاؤں کے لونڈے اور لڑکے بالے شرارت کے اماں باوا تھے۔ جاٹوں کی زمین گاؤں کے ہمسائے میں ہونے کے سبب سب کا نزول یہیں رہتا۔ کسی کو گنا چوسنے کی حاجت ہوتی تو اِنہی کے کھیت سے اُکھاڑتا، کسی کو ساگ پکانا ہوتا تو اِنہی کے کھیت پر نظر پڑتی۔ غرض اِن کی فصل میں کافی اُجاڑا ہوتا تھا۔ کوئی چارا کاٹ کے لے جاتا اور کوئی اپنی بکریوں کا ریوڑ اِن کے کھلیانوں میں گھُسا دیتا۔

اِس دبڑ دھونس میں جاٹوں کے ہاتھ جو چڑھ جاتا یہ اُس کی اچھی خاصی مرمت کر دیتے۔ دو چار لوگ ہر وقت زمین کی اور فصل کی رکھوالی پر جمے رہتے، ذرا کوئی فصل میں گھُسا نہیں، اِنہوں نے جا پکڑا اور دو چار گُدی پر ٹِکا دیں۔ کئی بار تو ایسے بھی ہوا کہ کوئی شخص یونہی اِن کی فصل کے پاس سے گزرا تو اُسے بھی ایک دو دھولیں لگا دیں۔ اِن حرکتوں سے قریب سارا گاؤں اِن کا دشمن ہو گیا۔

ہم لڑکے بالے اُن دِنوں بہت شرارتی ہوتے تھے۔ گرمیاں ہوتیں یا سردیاں تمام دن سڑکوں پر بھاگتے اور کھیلتے گزرتی اور ضد میں آ کر نقصان بھی اِنہی کی فصلوں کا کرتے۔ ایک دن دوپہر کا وقت تھا اور سردیوں کے دن تھے۔ سکول ہمارے گھر کے قریب تھا۔ سردیوں کے دس دن کی چھٹیاں سکول سے ہوئیں تھیں۔ مَیں اپنے گھر سے نکلا اور کھیلنے کے واسطے سکول میں آ گیا۔ سکول کے جنوبی طرف عین دیوار کے ساتھ ایک پیپل کا بہت بڑا پیڑ ہوتا تھا، جس کی جڑیں دور تک زمین کے اُوپر اُبھری ہوئی تھیں اور شاخوں پر شہد کی مکھیوں کے بڑے چھتے لٹکے ہوتے تھے۔

 سردیاں اُن دنوں بہت زوروں پر تھیں، پتے زرد ہو کر گر رہے تھے اور ہوا ٹھنڈی چل رہی تھی، غرض موسم ایسا مزے کا تھا کہ کچھ نہ پوچھو۔ مَیں جیسے ہی پیپل کے پاس پہنچا، دوسری طرف سے میرا دوست انور آ گیا۔ قریب آیا تو دیکھا کہ اُس کا چہرہ نہایت سُرخ ہوا تھا اور نقاہت جسم پر طاری تھی۔ وہ آ کر میرے پاس ہی بیٹھ گیا۔ اُس کی حالت دیکھ کر مَیں نے اندازہ لگایا کہ اِس کے ساتھ کچھ واردات ہوئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میں نے پوچھا، ’انور تجھے کیا ہوا ہے؟‘

میرے اِس سوال پر وہ فوراً ہی ہچکیاں مار کر رونے لگا اور بولا، ’مَیں نے جاٹوں کے گنے کے کھیت سے گنا توڑا تھا، اُنہوں نے مجھے پکڑ لیا اور بہت دیر تک کان پکڑوا کر مُرغا بنائے رکھا۔ تھپڑ بھی مارے ہیں۔‘

آپ یوں سمجھ لیں اُس وقت ہم آٹھویں یا نویں جماعت میں ہوتے تھے۔ اگرچہ مَیں خود بھی اُن دِنوں لڑکا بالا ہی تھا اور انور سے سال بھر بڑا ہوں گا، مگر اپنے آپ کو بہت سیانا سمجھتا تھا۔ مَیں نے کہا، ’تُو بے فکر ہو جا، ہم اِن کو ایسا سبق چکھائیں گے کہ جاٹ ہاتھ لگاتے رہ جائیں گے۔‘

ہمارا ایک دوست اسلم عرف مہاکی ڈوگر تھا اور مجھ سے ایک سال چھوٹا ہی تھا۔ اُن کی زمین اور زمین میں مویشیوں والی حویلی جاٹوں کے کھیت کے ساتھ پڑتی تھی۔ بس یوں سمجھ لو جاٹوں کے کھیت اور اُن کے مویشیوں کے ڈیرے کے درمیان ایک پانی کا نالہ بہتا تھا اور وہی ڈیورنڈلائن تھی۔ ہم اُس کے پاس گئے اور سب ماجرا سنایا۔ اُس نے کہا، ’فکر نہ کرو، ہمارے مویشیوں کے ڈیرے پر گُڑ بنانے کا ویلنا لگا ہوا ہے۔‘

اُس کے بعد ہم تینوں نے ایک منصوبہ بنایا اور اپنے ہم عمر چار مزید دوستوں کو اُس میں شریک کر لیا۔

جاٹوں کا معمول یہ تھا کہ دو دن کماد چھیل کر رکھ لیتے تھے اور تیسرے دن اپنا ویلنا چلا کر گُڑ بناتے تھے۔ دوسرے دن اسلم ڈوگر نے ہمیں بتایا کہ ’جاٹوں نے دو دن کا گنا چھیل کر رکھا ہوا ہے۔ کل صبح اِنہوں نے اُس کا گُڑ بنانا ہے اور اِن سے پہلے ہم رات ہی یہ کام کر گزریں گے۔‘

جیسے ہی رات کا پہلا پہر گزرا، سردی اور دھند میں اضافہ ہوا، ہم حرکت میں آ گئے۔ چھ لڑکے تھے۔ تین چار پھیرے لگا کر پہلے تمام گنا اسلم ڈوگر کے ویلنے پر لائے۔ اُس کے بعد گُڑ بنانے کی تیاری کی۔ سب زمینداروں کے لڑکے تھے اور اچھی طرح جانتے تھے، پت کیسے چڑھانی ہے، پِیڑھ کیسے بنانا ہے اور گُڑ کس طرح تیار کرنا ہے۔ ہم نے بَیلوں کو ویلنے پر جوتا اور گنے کا رس نکالنے لگے۔

جیسے ہی پانچ پیپوں کی روہ (گنے کا رَس) تیار ہوئی، آگ پر کڑاہا چڑھا دیا۔ اب ایک طرف بَیلوں اور ویلنے کے ذریعے روہ نکل رہی تھی، دوسری طرف پت چڑھی ہوئی تھی۔ پہلی پت تیار ہوئی تو دوسری چڑھا دی۔ اِس طرح صبح کی اذانوں سے پہلے پہلے ہم نے پانچ پت کا گڑ نکال لیا اور راتوں رات گُڑ بنا کر سب گنا ٹھکانے لگا دیا۔ جاٹوں کے کھیت میں قدموں کے نشان ویسے ہی نہ لگے تھے کہ کماد کے کھیت میں گھنے کے چھلکے جنہیں ’پچھی‘ کہتے ہیں، بہت بکھرے ہوتے ہیں۔

ویلنے کے قریب ہم نے صبح ہونے سے پہلے ایک تنکا بھی نہ چھوڑا۔ سب اٹھا کر زمین میں دفن کر دیا۔ تین چار من گڑ نکلا، وہ سب گُڑ اُٹھا کر ایک گھر میں جمع کر دیا اور نشان مٹا دیے۔

جب صبح ہوئی اور جاٹ ویلنا لگانے لگے تو دیکھا کہ گنے کا وہاں وجود تک نہ تھا۔ سب جاٹ حیران کہ اتنا سارا گنا زمین نگل گئی یا آسمان نے اُچک لیا۔ اُن کو ایسی ہڑتل پڑی کہ پورے گاؤں میں بکھر گئے اور گھر گھر کی تلاشیاں لینے لگے۔ اتنا نقصان پہلے اُن کی فصل کا کبھی نہ ہوا تھا۔ سب باولے ہو گئے۔ جو ایک گنے کی چوری برداشت نہ کرتے تھے اِتنے کماد کے نقصان پر کیسے چین لیتے۔ گاؤں میں ایک آدمی ہستا بھٹی تھا۔ اُس سے اُن کی بہت لاگ تھی۔ جب بہت کوشش کے باوجود گنے کا سُراغ نہ ملا تو اُسی پر الزام دھر دیا۔

ہمارے گاؤں کے ایک کنارے پر سکول تھا۔ اِس کے گیٹ پر مشرق سے اُٹھتے ہوئے سورج کی کرنیں بہت سیدھی پڑتی تھیں اور سردیوں میں یہاں دھوپ سینکنے کا بہت مزا آتا تھا۔ مَیں اور میرے ہمسائے کے انتظار علوی اور اقبال دو لڑکے، جو مجھ سے عمر میں بڑے تھے مگر بہت شغلی قسم کے تھے، وہ بھی وہیں کھڑے تھے اور ہم دھوپ سینک رہے تھے۔

اِتنے میں ایک جاٹ بڑی تیزی سے ہمارے پاس سے گزرا۔ اِس کا نام رحمت جٹ تھا۔ انتظار علوی نے اُسے پریشانی سے گزرتے دیکھا تو پوچھا، ’چاچا رحمت کیا بات ہوئی آج تم سب بہت پریشان اور بوکھلائے ہوئے پھر رہے ہو؟‘

رحمت جو تھوڑا سا آگے نکل چکا تھا، واپس مڑ کر ہمارے پاس آن کھڑا ہوا اور بولا، ’ماسٹر جی کیا بتاؤں، رات کوئی ہمارے ساتھ بڑا ہاتھ کر گیا۔ سارے گنے چوری کر لیے۔ کم از کم آٹھ من گڑ نکلتا، اتنے سارے گنے کوئی چوس بھی نہیں سکتا۔ یا کسی نے شوگر مل پر پہنچا دیے ہیں یا پھر کُتر کے جانوروں کو کھلا دیے ہیں۔‘

انتظار نے پوچھا، ’تو پھر تمہیں شک کس پر ہے؟‘

وہ بولا، ’شک؟ ماسٹر جی، شک نہیں پک ہے۔ یہ اپنا ہستا بھٹی ہے نا، پکا چورہے، ابھی پرسوں ہی اِس کے ساتھ دنگا ہوا ہے اور تم جانتے ہو، چوری کرنا تو اِن کا خاندانی پیشہ ہے، یہ سب اِسی کی کارستانی ہے، اِس کے علاوہ کون کر سکتا ہے؟‘

اُس کے بعد رحمت جٹ رخصت ہو گیا اور مَیں ہنستا ہوا گھر آ گیا۔ اگلے دن گنے کا تمام ملبہ ہستے بھٹی پر ڈال دیا گیا۔ پنچایت ہوئی، پنچایت نے ہستا بھٹی سے کہا، ’اگر تم نے گنا چوری نہیں کیا تو قسم دے دو۔‘

ہستے کے لیے قسم کوئی نئی بات نہیں تھی، پھر یہ چوری تو اُس نے کی بھی نہیں تھی۔ وہ قسم دے کر فارغ ہو گیا اور گُڑ ہم لڑکوں بالوں نے سب بانٹ لیا۔ پھر یہ گُڑ تین تین ماہ ہمارے گھر کی چائے بنانے کے کام آیا۔ تب سے مَیں گُڑ کی چائے بہت اچھی بناتا ہوں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی