خیبرپختونخوا بلدیاتی الیکشن: بھلا خاتون ’چیئرمین‘ کیسے ہو سکتی ہے؟

خیبر پختونخوا کے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں سیاسی جماعتوں نے بڑے عہدوں پر خواتین کو نظر انداز کیا اور صرف دو خواتین نے ’چیئرمین‘ کے عہدے کے لیے انتخاب لڑا۔

19 دسمبر 2021 کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں پشاور کے ایک پولنگ سٹیشن پر ا یک خاتون ووٹ ڈالنے کے لیے موجود ہیں (تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)

صوبہ خیبر پختونخوا کے 17 اضلاع میں ہونے والے پہلے مرحلے کے حالیہ انتخابات میں جہاں ایک جانب سیاسی جماعتوں نے بڑے عہدوں پر خواتین کو نظر انداز کیا، وہیں لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں بھی تحریری طور پر خواتین کو کسی بڑےعہدے پر نامزدگی یا انتخاب لڑنے کا بظاہر کوئی حق نہیں دیا گیا، کیونکہ اس قانون میں جتنے صیغے استعمال ہوئے ہیں وہ صرف مذکر یعنی مردوں سے متعلق ہیں۔

خیبر پختونخوا میں 2013 کا لوکل گورنمنٹ ایکٹ جس کی تیسری ترمیم 2021 میں ہوئی ہے، میں ’چیئرمین‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ بڑے عہدوں پر صرف مرد ہی آسکتے ہیں۔

قانون کے اندر موجود اس خامی کی وجہ سے نہ صرف خواتین کی نفسیاتی طور پر حوصلہ شکنی ظاہر ہوتی ہے، بلکہ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں اس کے نتائج کچھ اس شکل میں سامنے آئے کہ ماسوائے دو خواتین کے اکثریت نے صرف ’خواتین‘ کے لیے مخصوص‘ کیٹگری کے لیے ہی درخواستیں جمع کروائیں۔

جن دو خواتین نے تحصیل چیئرمین کے عہدے کے لیے انتخاب لڑا، ان میں ایک تحصیل ہری پور سے ڈاکٹر فائزہ رشید تھیں، جنہیں قومی وطن پارٹی نے نامزد کیا تھا جبکہ دوسری تحصیل غازی سے ارم خان تھیں، جو آزاد امیدوار کی حیثیت سے اس نشست پر مقابلہ کر رہی تھیں۔ ان دو خواتین کے علاوہ کسی سیاسی جماعت نے خواتین کو سٹی میئر یا چیئرمین کے عہدے کے لیے ٹکٹ دیا اور نہ وہ خود آگے آئیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق حالیہ الیکشن میں خواتین کی نشستوں پر کُل 3870 خواتین کے درمیان مقابلہ ہوا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ماضی کی نسبت 2021 کی خواتین سیاسی لحاظ سے بہت حد تک باشعور تو ہوگئی ہیں، تاہم جہاں انہیں نمائندگی دینے اور ان کی رہنمائی کی بات آتی ہے وہاں وہ پیچھے رہ جاتی ہیں۔

خواتین کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیم ’عورت فاؤنڈیشن‘ کی  صائمہ منیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ الیکشن کمیشن کی نہیں بلکہ صوبائی حکومت کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس قانون کا ’جینڈر ریویو‘ کرتے، اور لفظ’چیئرمین‘ کو ہٹا کر ’چئیرپرسن‘ لکھ لیتے۔

انہوں نے کہا: ’ہم نے کئی موقعوں پر حکومت کو اس بارے آگاہ بھی کیا، لیکن کسی نے کوئی توجہ نہیں دی۔میں سمجھتی ہوں کہ ہر قانون کا جینڈر ریویو ہونا چاہیے۔‘

قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ جہاں صوبائی اور قومی سطح پر پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو پابند بنایا گیا ہے کہ وہ لازماً پانچ فیصد خواتین کو انتخابات میں ٹکٹ دیں گی، بلدیاتی انتخابات کے لیے ایسی کوئی شرط نہیں رکھی گئی ہے۔

صائمہ منیر نے بتایا کہ ان کی تنظیم نے صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مستقبل میں بلدیاتی انتخابات کے لیے بھی اسی قانون کو لاگو کیا جائے۔

’چیئرمین‘ کا لفظ جدید دنیا سے خارج ہوتا جارہا ہے

خواتین کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیمیں سمجھتی ہیں کہ خواتین کو ان کا حق دلانے کے لیے ان رویوں اور الفاظ کی بیخ کنی کرنی ہوگی، جو عورت ذات کی نفی کرتے آرہے ہیں۔

خیبر پختونخوا کے لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 میں لفظ ’چیئرمین‘ اور قانون میں دی گئی تفصیل میں صرف مردوں کو مخاطب کرنا بھی عورت ذات کی نفی کررہا ہے۔ اس کی مثال ہم کچھ یوں لے سکتے ہیں کہ امریکہ کے ایوان نمائندگان میں باقاعدگی سے ہاؤس کے ارکان ’جنٹلمین‘ کے ساتھ ساتھ ’جینٹل ویمن‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔

اسی طرح چیئرمین کا لفظ تقریباً ان معاشروں میں متروک ہوچکا ہے اور زیادہ تر ’چئیر پرسن‘ کا لفظ ہی استعمال کیا جاتا ہے تاکہ خواتین کو نظرانداز نہ کیا جاسکے۔

’بلدیاتی الیکشن میں سیاسی جماعتیں بےنقاب ہوگئیں‘

بلدیاتی انتخابات میں خواتین کو کیوں بڑے عہدوں کے لیے ٹکٹ نہیں دیا گیا؟ اس سوال کا جواب دینے میں تمام سیاسی جماعتیں گریزاں رہتی ہیں، تاہم بعض سیاستدان ذاتی مجمعوں میں یہ اعتراف ضرور کرتے رہتے ہیں کہ انہوں نے خواتین کے لیے کچھ نہیں کیا اور شاید اگر مرد پارلیمینٹرینز چاہتے تو وہ سیاست میں خواتین کی نمائندگی اور ان کی شمولیت کے حوالے سے بہت کچھ کرسکتے تھے۔

ناہید آفریدی، جنہیں 2018 کے عام انتخابات میں ضلع خیبر سے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کا ٹکٹ ملا تھا، نے خواتین کا انتخاب لڑنے کے موضوع پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ خواتین بھی الیکشن جیت سکتی ہیں، اگر ان کی سیاسی جماعت کا تعاون ان کے ساتھ ہو، جو انہیں مالی تعاون کے ساتھ ہراسانی سے بھی تحفظ دے سکیں۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کی ذہنیت ’پدرانہ‘ ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ جن خواتین کو ٹکٹ بھی دیتے ہیں، ان سے ایک طرح کا رویہ اور مرد امیدواروں کے ساتھ دوسری طرح کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بقول ناہید آفریدی: ’جب میں الیکشن لڑ رہی تھی تو ایمل ولی خان دیگر قبائلی اضلاع تو گئے، لیکن میرے علاقے میں میرے پاس نہیں آئے، کیونکہ میں ان کو وہ پروٹوکول نہیں دے سکتی تھی جو مرد امیدوار دے رہے تھے۔‘

ناہید آفریدی نے کہا کہ ’ان کے ساتھ سیاست میں وہ سلوک کیا گیا کہ کسی شخص کو غلیل دے کر شیروں کے شکار کے لیے بھیج دیا جائے۔‘

’سیاسی جماعتوں کی عہدیدار خواتین بھی مردوں کے مائنڈ سیٹ پر چلتی ہیں‘

معروف سماجی کارکن شاد بیگم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ قانون میں خامی ہو یا سیاست میں خواتین کی شمولیت، ان کے پیچھے رہ جانے کی ذمہ دار سیاسی جماعتوں کی وہ عہدیدار خواتین بھی ہیں، جو پہلے سے اس پوزیشن میں ہیں کہ دیگر خواتین کی بہتر طور پر ترجمانی کرسکیں۔

بقول شاد بیگم: ’ان سیاسی جماعتوں میں بااثر خاندانوں کی خواتین بھی شامل ہوتی ہیں، جن کی بات اعلیٰ قیادت اکثر سنتی بھی ہے، لیکن افسوس کے ساتھ کہ یہ سیاست دان خواتین بھی مردوں کی ہاں میں ہاں ملاتی ہیں اور ان کے مائنڈ سیٹ پر چلتی ہیں۔‘

شاد بیگم نے کہا کہ ہر خاتون کے پاس نہ تو اتنا پیسہ ہوتا ہے کہ وہ سیاست کر سکیں اور نہ ہی وہ وسائل ہوتے ہیں، اس لیے سیاسی جماعت کے تعاون کے بغیر وہ نہ بڑے عہدے پر آسکتی ہیں اور نہ ہی سیاست میں مستحکم رہ سکتی ہے۔

’سیاسی جماعتوں کے منشور میں تبدیلی کرنی ہوگی‘

خیبر پختونخوا میں اقوام متحدہ خواتین (یو این ویمن) کے ذیلی دفتر کی سربراہ زینب قیصر سمجھتی ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے منشور میں تبدیلی لاکر خواتین کو سیاست میں ’فیصلہ سازی‘ کا حق دلایا جاسکتا ہے۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’الیکشن سے پہلے انتخابات کے حوالے سے گھر گھر مہم چلانا بھی ضروری ہوتا ہے اور خواتین کو بڑے عہدوں پر لانے کے لیے سیاسی جماعتوں کے منشور کو خواتین کے حق میں بدلنے پر کام کرنا ہوگا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین