مسلمانوں کی نسل کشی کی دھمکیاں: پانچ سابق آرمی چیفس کا مودی کو خط

آرمی چیفس کے علاوہ سابق فوجی افسروں، بیوروکریٹس اور سرکردہ شہریوں سمیت سو سے زیادہ نامور شخصیات نے صدر اور وزیر اعظم کے نام اس خط میں ہندوتوا کے رہنماؤں کی کھلی دھمکیوں کو ملکی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔

سات مارچ، 2021 کی اس تصویر میں وزیر اعظم نریندر مودی بی جے پی کے ایک جلسے سے خطاب کرر ہے ہیں(اے ایف پی)

بھارتی مسلح افواج کے پانچ سابق چیفس آف سٹاف، سابق فوجی افیسرز، بیوروکریٹس اور سرکردہ شہریوں سمیت سو سے زیادہ نامور شخصیات نے ہندوتوا کے رہنماؤں کی جانب سے ملک میں مسلمانوں کی نسل کشی کی کھلی دھمکی کو ملکی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے صدر رام ناتھ کووند اور وزیر اعظم نریندر مودی کو اس حوالے سے کھلا خط لکھا ہے۔

بھارتی نشریاتی ادارے این ڈی ٹی وی کے مطابق خط میں حال ہی میں اتراکھنڈ کے شہر ہریدوار اور دہلی میں ہونے والے اجتماعات کے دوران عیسائیوں، دلتوں اور سکھوں جیسی دیگر اقلیتوں کو نشانہ بنانے کا بھی ذکر ہے۔

خط میں ملکی سرحدوں کی موجودہ صورتحال کا حوالہ دیتے ہوئے خبردار کیا گیا کہ مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد کی اس طرح کی کھلی دھمکیاں نہ صرف اندرونی طور پر عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہیں بلکہ بیرونی قوتیں بھی اس کا فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔
دکن ہیرلڈ کے مطابق خط میں لکھا ہے: ’ملک کے اندر امن اور ہم آہنگی کو پہنچنے والے نقصان سے دشمن اور بیرونی قوتیں اٹھا سکتی ہیں۔ فوج، سنٹرل آرمڈ پولیس فورسز (سی اے پی ایف) اور پولیس اور دیگر فورسز کے مرد و خواتین اہلکاروں کا اتحاد اور ہم آہنگی ہمارے متنوع اور کثیر معاشرے میں ایک یا دوسری کمیونٹی کے خلاف تشدد کے لیے اس طرح کی بے بنیاد کالز کی اجازت دینے سے شدید متاثر ہوگی۔‘
مسلمانوں کی نسل کشی کی دھمکیاں دینے والے ہریدوار میں ہندوتوا کے اجتماع ’دھرم سنسد‘ کا براہ راست حوالہ دیتے ہوئے خط میں لکھا ہے کہ ’ہم ہندوؤں کے دھرم سنسد نامی تین روزہ مذہبی اجتماع کے دوران کی گئی تقریروں کے مواد سے سخت پریشان ہیں۔ 17 سے 19 دسمبر 2021 کے درمیان ہریدوار میں سادھو اور دیگر رہنماؤں کی جانب سے ہندو راشٹر کے قیام کی ضرورت اور ہندومت کے تحفظ کے نام پر ہتھیار اٹھانے اور بھارتی مسلمانوں کو قتل کرنے کے لیے بار بار مطالبات کیے گئے۔‘
خط میں دہلی کے ایک اور واقعے کا بھی ذکر موجود ہے جب ہندوتوا کی تنظیموں کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد ملکی درالحکومت میں جمع ہوئی اور عوامی طور پر حلف لیا کہ بھارت کو ہندو راشٹر بنایا جائے گا اور اس کے لیے اگر ضروری ہوا تو لڑائی اور قتل عام کیا جائے گا۔
خط میں کہا گیا کہ اس طرح کے مزید فتنہ انگیز اجتماعات دوسری جگہوں پر منعقد کیے جا رہے ہیں۔
خط کے مطابق: ’ہم عوامی طور پر نفرت کے اظہار کے ساتھ اس طرح کے تشدد کو اکسانے کی اجازت نہیں دے سکتے جو نہ صرف داخلی سلامتی کی سنگین خلاف ورزیوں کا باعث بنتا ہے بلکہ یہ ہماری قوم کے سماجی تانے بانے کو بھی تباہ کر سکتا ہے۔
 
اجتماع کے ایک خطیب نے بھارتی فوج اور پولیس کو ہتھیار اٹھانے اور نسل کشی مہم (صفائی ابھیان) میں حصہ لینے کا بھی مطالبہ کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خط کے مطابق ’یہ فوج کو اپنے شہریوں کی نسل کشی میں حصہ لینے کے لیے اکسانے کے مترادف ہے اور یہ قابل مذمت اور ناقابل قبول ہے۔‘

سپریم کورٹ کے 76 وکلا نے بھی چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا کو خط لکھا جس میں سپریم کورٹ سے اقلیتوں کے خلاف تشدد کی دھمکیوں کا ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
وکلا نے لکھا تھا کہ پولیس ایسے واقعات کو روکنے کے لیے فوری عدالتی مداخلت کی ضرورت ہے جو بظاہر روز کا معمول بن چکے ہیں۔
ہریدوار میں منعقدہ ہندوتوا کانفرنس کا اہتمام ایک مذہبی رہنما یاتی نرسمہانند نے کیا تھا جن پر ماضی میں اپنی اشتعال انگیز تقاریر سے تشدد بھڑکانے کا الزام لگایا جاتا رہا ہے۔
whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا