سابق وزیر خارجہ سلمان خورشید کے گھر پر ہندو انتہا پسندوں کا حملہ

بھارتی پولیس کے مطابق ایک مقامی ہندو گروپ سے منسلک 20 افراد کے ہجوم نے سابق وزیر خارجہ سلمان خورشید کے گھر پر دھوا بولا اور توڑ پھوڑ کی۔

ترکی کے دورے کے دوران 24 جولائی 2013 کو بھارت کے اس وقت کے وزیر خارجہ سلمان خورشید ایک پریس کانفرنس میں۔ سلمان خورشید دو سال بھارت کے وزیر خارجہ رہے (اے ایف پی)

بھارت میں پولیس کا کہنا ہے کہ ریاست اتر اکھنڈ میں ہندو انتہا پسندوں نے ایک سابق مسلمان وزیر خارجہ سلمان خورشید کے گھر پر حملہ کرکے آگ لگا دی ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اپوزیشن پارٹی کانگریس سے تعلق رکھنے والے سلمان خورشید کی گذشتہ ماہ ایک کتاب شائع ہوئی تھی جس میں انہوں نے بھارت میں وزیر اعظم نریندر مودی کے دور حکومت میں پنپنے والی ہندو قوم پرستی کا موازنہ داعش جیسے شدت پسند گروپوں سے کیا ہے۔

پولیس کے مطابق پیر کو ایک مقامی ہندو گروپ سے منسلک 20 افراد کا ہجوم اتر اکھنڈ کے نینی تال شہر میں سلمان خورشید کے گھر کے باہر جمع ہوگیا۔

پولیس چیف جگدیش چندر نے اے ایف پی کو بتایا: ’انہوں نے نعرے لگائے، پتھراؤ کیا، کھڑکیوں کے شیسے توڑے، توڑ پھوڑ کی اور ایک دروازے کو آگ لگائی۔‘

ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق ہجوم نے خورشید کا پتلہ جلایا، فائرنگ کی اور گھر کے کیئر ٹیکر کی بہو کو دھمکیاں دیں۔
 

انڈیا ٹوڈے کے مطابق ڈی جی آئی نیلش آنند نے کہا کہ راکیش کپل نامی ایک شخص اور 20 مزید افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔

دو سال 2012 سے 2014 تک بھارت کے وزیر خارجہ رپنے والے خورشید حملے کے وقت اپنے خاندان کے ساتھ باہر تھے، مگر بعد میں سوشل میڈیا پر تصاویر شیئر کیں۔

’شرم ایک بہت غیر موثر لفظ ہے،‘ انہوں نے لکھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ  ’ہند ومذہب نہیں ہو سکتا۔‘

نیوز ایجنسی اے این آئی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’میں اپنی کتاب میں کہہ چکا ہوں جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ ہندو مذہب سے تعلق نہیں رکھتے۔ یہ ایک خوبصورت مذہب ہے اور اس نے اس ملک کو ایک بہترین ثقافت دی ہے، مجھے اس پر فخر ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا مزید کہنا تھا: ’یہ حملہ مجھ پر نہیں بلکہ ہندو مذہب پر ہے۔‘

کانگریس کے ششی تھرور نے سلمان خورشید کے گھر پر حملے کو  ’ذلت آمیز‘ قرار دیا۔

انہوں نے لکھا کہ سلمان خورشید ایک ایسے سیاست دان ہیں جنہوں نے ہمشہ بھارت کے کا اعتدال پسند اور انکلوسیو چہرہ دکھایا ہے۔ ’جو طاقت میں ہیں انہیں ہماری سیاست میں عدم برداشت کی مذمت کرنی چاہیے۔‘

سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ 2014 میں مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد بھارت میں مذہبی اقلیتوں کو بڑھتے ہوئے تشدد اور امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔

2020 میں امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے بھارت کو ’خاص تشویش کا ملک قرار دیا۔‘

مودی حکومت ان الزامات کی تردید کرتی آئی ہے کہ اس کا شدت پسند ہندوتوا ایجنڈا ہے اور اس کا اصرار ہے کہ تمام مذاہب کو برابر حقوق حاصل ہیں۔

اتر اکھنڈ میں اس کے طرح کے واقعات ہوتے آئے ہیں۔ گذشتہ ماہ دو سو افراد کے ایک ہجوم نے ایک گرجا گھر پر حملہ کیا۔ بی جے پی کے ایک مقامی سربراہ کا دعویٰ تھا کہ عمارت ’مشکوک اجتماعات‘ کے لیے استعمال ہو رہی تھی۔

ابھی پچھلے مہینے شمال مشرقی ریاست تریپورہ میں مسجدوں اور مسلمانوں کی جائیدادوں کو نقصان پہنچایا گیا اور تشدد کی ویڈیوز بھی وائرل ہوئیں۔ مین سٹریم میڈیا نے سُنی کو اَن سنی کر دیا۔ تریپورہ میں بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے۔ اس سے پہلے رواں سال ہی پوڈو چری میں گورنر آرڈیننس کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کی کوشش بھی کی گئی تھی۔

گذشتہ سال جنوبی ایشیا میں شہری آزادیوں پر نظر رکھنے والی ساؤتھ ایشیا سٹیٹ آف مینارٹیز رپورٹ کی ایک رپورٹ جاری کی گئی، جس میں بھارت میں حکومت مخالف سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ بھارت ’مسلمان اقلیت کے لیے ایک پرتشدد اور خطرناک جگہ‘ بن چکا ہے۔

سالانہ رپورٹ میں بھارت کی وفاقی حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بھارتی شہریوں کے لیے قومی رجسٹر ’مسلمانوں کو ممکنہ طور پر سٹیٹ لیس‘ بنا سکتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا