مسلم خاندان کی خودکشی: ’مدد کرنے والا کوئی نہیں تو مرنے کا فیصلہ کیا‘

چوری کے الزامات پر پولیس کی جانب سے ’مسلسل ہراسانی‘ سے تنگ آ کر ریاست آندھرا پردیش کے رہائشی شیخ عبدالسلام نے گذشتہ ہفتے اپنے خاندان کے تین افراد سمیت ٹرین کے آگے چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی۔

’میں نے کوئی غلطی نہیں کی ہے۔ چوری کے الزامات سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔ پھر بھی مجھے ہراساں کیا جا رہا ہے۔ میں ہراسانی برداشت نہیں کر سکتا۔ ہماری مدد کرنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ اس لیے ہم نے مرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

بھارت کی جنوبی ریاست آندھرا پردیش کے ضلع کرنول کے رہنے والے ایک مسلم خاندان کے سرپرست شیخ عبدالسلام نے یہ باتیں خودکشی کرنے سے قبل تلگو زبان میں ریکارڈ کی گئی اپنی ایک سیلفی ویڈیو میں کہیں۔

عبدالسلام سمیت چار اراکین پر مشتمل اس کنبے نے پولیس کی ’مسلسل ہراسانی‘ سے تنگ آ کر خودکشی کر لی ہے۔ ایک پورے کنبے کی خود کشی کا یہ واقعہ گذشتہ ہفتے پیش آیا۔

آندھرا پردیش سے تعلق رکھنے والے صحافی یوسف علی خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ضلع کرنول کے علاقے نندیال کے رہائشی 42 سالہ عبدالسلام، ان کی 36 سالہ بیوی نور جہاں، 14 سالہ بیٹی سلمیٰ اور 10 سالہ بیٹے قلندر نے گذشتہ ہفتے ایک سیلفی ویڈیو ریکارڈ کرنے کے بعد ایک چلتی مال بردار ریل گاڑی کے آگے چھلانگ لگا کر خودکشی کر لی۔

یوسف علی خان کے مطابق: ’عبدالسلام پر چوری کے الزامات لگائے گئے تھے اور انہیں پولیس مبینہ طور پر سخت ہراساں کر رہی تھی۔ انہوں نے اپنے دیگر افراد خانہ سمیت خودکشی کرنے سے قبل ایک ویڈیو ریکارڈ کی جس میں وہ ان الزامات کو ماننے سے انکار کرنے کے ساتھ ساتھ یہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں بلاوجہ ہراساں کیا جا رہا ہے۔‘

یوسف علی نے بتایا کہ عبدالسلام اور ان کے دیگر تین افراد خانہ کی خودکشی کے واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا گیا ہے۔ اب تک سرکل انسپکٹر سوما شیکھر ریڈی اور ہیڈ کانسٹیبل گنگا دھر کی گرفتاری عمل میں لائی جا چکی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ پولیس اہلکاروں کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 306 (خودکشی کے لیے مجبور کرنا)، 323 (نقصان پہنچانا) اور 324 (خطرناک ہتھیاروں سے رضاکارانہ طور پر نقصان پہنچانا) کے تحت مقدمہ درج کیا جا چکا ہے۔

آندھرا پردیش میں مسلمانوں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم ’اقلیتی حقوق تنظیم برائے تحفظ‘ کے صدر فاروق شبلی محمد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ عبدالسلام کا خاندان آندھرا پردیش میں ’ظلم و بربریت‘ کی بھینٹ چڑھنے والا پہلا اور آخری کنبہ نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’یہاں مسلمانوں کے خلاف اب تک ظلم و بربریت کے کئی واقعات پیش آئے ہیں۔ میں آپ کو ایسے دس واقعات کی تفصیلات فراہم کر سکتا ہوں۔ اگرچہ ہم ایسے واقعات کے خلاف مسلسل آواز اٹھا رہے ہیں لیکن حکومت کارروائی کرنے کے موڈ میں نظر نہیں آ رہی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’یہاں کی حکومت، جس کی باگ ڈور وائی ایس آر کانگریس پارٹی کے سربراہ جگن موہن ریڈی کے ہاتھوں میں ہے، بی جے پی کی بی ٹیم ہے۔ اس حکومت نے بی جے پی کے ہر ایک مسلم مخالف فیصلے کی حمایت کی ہے۔ یہ مسلمانوں کے ووٹوں سے ہی جیت گئے ہیں لیکن آج ان ہی کے گلے کاٹنے میں لگے ہوئے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈپینڈنٹ اردو نے آندھرا پردیش کے نائب وزیر اعلیٰ ایس بی امجد باشا سے رابطہ قائم کیا تو ان کے پرسنل اسسٹنٹ نے بتایا کہ ’صاحب وزیر اعلیٰ کے ساتھ میٹنگ کر رہے ہیں۔‘

صحافی یوسف علی کے مطابق نائب وزیر اعلیٰ نے سوموار کو خودکشی کرنے والے کنبے کے اقارب سے ملاقات کر کے انہیں معاملے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا یقین دلایا۔

مسلم کنبہ خودکشی کرنے پر مجبور کیوں ہوا؟

مجلس بچاؤ تحریک حیدرآباد کے ترجمان امجد اللہ خان نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں اس درد ناک واقعے کو تفصیلاً بیان کرتے ہوئے کہا ہے: ’شیخ عبدالسلام ایک ریورات کی دکان میں 1992 سے کام کر رہے تھے، اسی دوران 2017 میں اس دکان میں تین کلو سونے کی چوری ہوئی۔ دکان کے ملازمین کو اس سلسلے میں تنگ کیا گیا لیکن عبدالسلام کو زیادہ ہی تنگ کیا گیا اور انہیں جیل بھی بھیج دیا گیا۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’جیل سے رہائی کے بعد عبدالسلام نے دکان کے مالک سے چوری نہ کرنے کے باوجود معافی مانگی لیکن پھر بھی دکان مالک اور نندیال پولیس ان کو مسلسل ہراساں کر رہے تھے۔‘

امجد اللہ خان کا کہنا ہے کہ عبدالسلام جیل سے چھوٹنے کے بعد اپنے عیال کی کفالت کے لیے آٹو رکشا چلانے لگے۔

’کچھ دن قبل کسی مسافر نے ان کے آٹو میں بیگ، جس میں بقول اُن کے 70 ہزار روپے تھے، بھول جانے کے بعد چوری کا الزام لگایا جس کے بعد انہیں ایک بار پھر پولیس نے تنگ کرنا شروع کیا۔‘

امجداللہ خان کا اپنی ویڈیو میں کہنا ہے کہ پولیس کے ظلم سے دلبراشتہ ہو کر شیخ عبدالسلام نے اپنے پورے کنبے کے ساتھ خودکشی کی۔

انہوں نے اس واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا: ’آیا یہ خودکشی ہے، دکان مالک نے انہیں مار کے پھنکوایا ہے یا انہوں نے پولیس کی طرف سے تنگ کرنے پر خودکشی کی، ان تمام پہلوؤں کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔‘

دریں اثنا آندھرا پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ چندرا بابو نائیڈو نے حکومت کو عبدالسلام اور ان کے کنبے کی خودکشی پر آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کو اس خاندان کی موت کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔

انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں حکمران جماعت پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ کس طرح ریاست میں حکمران جماعت مسلم اقلیتی فرقے کے خلاف فرضی مقامات درج کر کے ان پر مظالم ڈھا رہی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا