’ایک دہائی بینظیر بھٹو پر تحقیق کی،اب انہیں ہماری ضرورت نہیں‘

کراچی میں بینظیر بھٹو کی زندگی پر ریسرچ کرنے والے ادارے کے ملازمین کا دعویٰ ہے کہ انہیں ملازمتوں سے فارغ کرکے ادارے کو غیر فعال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاہم قائم مقام ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ یہ الزامات بے بنیاد ہیں۔  

2016 میں جامعہ کراچی میں بینظیر بھٹو چیئر اور بینظیر بھٹو کنوینشن سینٹر کے قیام  کے لیے حکومت سندھ کی جانب سے 44 کروڑ روپے جاری کیے گئے تھے تاہم دونوں منصوبے تاحال نامکمل ہیں (تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)

کراچی میں بینظیر بھٹو کی زندگی پر ریسرچ کرنے والے ادارے کے ملازمین کا دعویٰ ہے کہ انہیں ملازمتوں سے فارغ کرکے ادارے کو غیر فعال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاہم قائم مقام ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ یہ الزامات بے بنیاد ہیں۔  

2008 میں پاکستان کے چار مختلف تعلیمی اداروں جامعہ کراچی، جامعہ سندھ ، جامعہ شاہ عبداللطیف بھٹائی خیر پور اور ویمن یونیورسٹی لاہور میں تحقیقاتی ادارے قائم کیے گئے تھے۔ ان تمام اداروں کو ’شہید محترمہ بے نظیر بھٹو چیئر‘ کہا جاتا ہے جن کا منشور تحقیق، ایک بھرپور ریسورس سینٹر قائم کرنا، لائبریری بنانا اور عالمی طور پر بینظیر بھٹو کے جمہوری مقاصد کی ترویج تھا۔

جامعہ کراچی کے پرانے کمپیوٹر سائنس ڈپارٹمنٹ کی عمارت میں قائم اس ادارے میں 2017 سے مستقل چئیر پرسن تعینات نہیں ہیں جس کے باعث جامعہ کراچی کے سوشل سائنسز ڈپارٹمنٹ کی ڈین پروفیسر ڈاکٹر نصرت ادریس ایڈیشنل ڈائریکٹر کے طور پر فرائض انجام دے رہی ہیں۔

بے نظیر بھٹو چیئر کے عملے کی جانب سے لکھا گیا ایک خط سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’جامعہ کراچی میں قائم بینظیر بھٹو چیئر کے ملازمین کو 2016 اور 2018 میں سابقہ وائس چانسلر اور ایڈوائزری بورڈ کے فیصلوں کے مطابق ملازمتوں پر مستقل کیا گیا تھا۔‘

’ایڈیشنل ڈائریکٹر نے چارج سنبھالتے ہی تمام سٹاف کو تنخواہوں میں کٹوتی، ملازمتوں سے فارغ کرنے اور اشتہارات کے ذریعے نئے ملازمین رکھنے کا کہہ دیا ہے۔ اس کے باعث بینظیر بھٹو چیئر کا تمام عملہ شدید ذہنی تناؤ اور اذیت کا شکار ہے۔‘

اس معاملے پر جب بے نظیر بھٹو چیئر کے عملے سے رابطہ کیا گیا تو ادارے کے ایک ملازم نے نام نہ ظاہر نے کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’اس خط کی تمام باتیں درست ہیں۔ ہم نے ایک دہائی تک بینظیر بھٹو کی زندگی پر اعلیٰ تحقیق کی مگر اب انہیں ہماری کوئی ضروت نہیں۔ ہمیں کہہ دیا گیا ہے کہ ہماری اس ادارے میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہم سرکاری ملازم ہیں مگر ہمارا رہائشی الاؤنس بھی بند کر دیا گیا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’جامعہ کراچی کی شہید محترمہ بے نظیر بھٹو چیئر میں کل چھ ملازمین ہیں۔ ایڈیشنل ڈائریکٹر صاحبہ نے نومبر 2021 میں اس ادارے کا چارج سنبھالا ہے اور تب سے وہ ہمیں کہہ رہی ہیں کہ وہ ہماری تقرری کو نہیں مانتیں اور جلد ہمیں نوکروں سے فارغ کر دیا جائے گا۔ 2017 میں بھی اس ادارے کی سابقہ ڈائریکٹر سحر گل بھٹی کو زبردستی عہدے سے ہٹایا گیا تھا۔‘

’ہم نے تمام معاملات کو جامعہ کراچی کے اعلیٰ حکام کے سامنے رکھا ہے اور پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت سے رابطہ کرنے کی کوشش کی ہے مگر ابھی تک کوئی خاطر خواہ جواب نہں ملا ہے بلکہ یہ معاملہ اٹھانے پر سٹاف کو ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے۔‘

انہوں نے کہا ’یہ تمام کام شہید محترمہ بے نظیر بھٹو چیئر کو بند کرنے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ جامعہ کراچی کا ایک مخصوص طبقہ اس ادارے اور اس میں ہونے والے کام کو پسند نہیں کرتا، جس کی بنیاد پر یہ سب کیا جا رہا ہے۔‘

2016 میں جامعہ کراچی میں بینظیر بھٹو چیئر اور بینظیر بھٹو کنوینشن سینٹر کے قیام  کے لیے حکومت سندھ کی جانب سے 44 کروڑ روپے جاری کیے گئے تھے تاہم دونوں منصوبے تاحال نامکمل ہیں۔

آٹھ دسمبر 2020 کو ممبر صوبائی اسمبلی سندھ اور پاکستان پیپلزپارٹی کے خواتین ونگ کی انفارمیشن سیکرٹری سعدیہ جاوید نے جامعہ کراچی میں بے نظیر بھٹو کنوینشن سینٹر کی زیر تعمیر عمارت کا دورہ کیا تھا۔ جس کی تصاویر سے یہ واضح ہے کہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو چیئر اور کنوینشن سینٹر کی عمارت تاحال مکمل نہیں ہوئی ہے۔

بے نظیر بھٹو چیئر کے ملازم کا کہنا تھا کہ ’2016 اور 2018 میں ہمیں ایڈوائزری بورڈ کے فیصلوں کے مطابق مستقل کیا گیا تھا جس کا ریگیولرآئزڈ آفس آرڈر بھی ہمارے پاس موجود ہے۔ اس وقت بینظیر بھٹو چئیر کے مستقل سٹاف کو اس لیے ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ آئندہ جب صوبے میں پیپلزپارٹی کی حکومت نہیں ہوگی تو کانٹریکٹ پر رکھے گئے ملازمین کو ہٹانا، مستقل ملازمین کو ہٹانے کے نسبتا زیادہ آسان ہوگا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس معاملے پر جب بے نظیر بھٹو چیئر کی ایڈیشنل ڈائریکٹر اور جامعہ کراچی کے شعبہ سوشل سائنسز کی ڈین پروفیسر ڈاکٹر نصرت ادریس سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’سوشل میڈیا پر آںے والی تمام خبریں درست نہیں ہوتیں، یہ بات بالکل غلط ہے کہ بے نظیر بھٹو چیئر کے ملازمین کو ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے۔‘

اس حوالے سے جامعہ کراچی کے ترجمان محمد فاروق کا کہنا تھا کہ ’مجھے اس معاملے کا کوئی علم نہیں ہے، جامعہ کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔‘

جب ڈاکٹر خالد محمود عراقی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کا موقف جاننے کے لیے سندھ کے وزیر تعلیم سردار شاہ سے بھی رابطہ کیا گیا مگر ان کی جانب سے بھی کوئی جواب نہیں ملا۔

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس