سڈنی ٹیسٹ میں ڈبل سنچری کرنے والے عثمان خواجہ جمعے کو ہوبارٹ میں شروع ہونے والے ایشیز سیریز کے آخری میچ میں آسٹریلیا کے لیے اوپننگ کریں گے۔
آسٹریلوی کپتان پیٹ کمنز نے جمعرات کو عثمان خواجہ کی شمولیت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ وہ ڈیوڈ وارنر کے اوپننگ پارٹنر کے طور پر مارکس ہیرس کی جگہ لیں گے۔
کووڈ کے باعث سڈنی میں چوتھے ٹیسٹ سے باہر ہونے والے ٹریوس ہیڈ ڈے نائٹ پنک بال میچ کے لیے پانچویں نمبر پر واپسی کریں گے۔
ٹریوس ہیڈ کے کھیلنے کے لیے کلیئر ہونے کے بعد آسٹریلیا نے خواجہ کو ٹیم میں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پاکستانی نژاد بلے باز نے سڈنی میں 137 اور 101 رنز ناٹ آؤٹ بنا کر ہیرس کو پیچھے چھوڑ دیا تھا جو سیریز میں زیادہ سے زیادہ 76 سکور کر سکے ہیں۔
کمنز نے کہا کہ گیند باز سکاٹ بولانڈ کو کھلانے کے بارے میں حتمی فیصلہ جمعرات کی شام کو کیا جائے گا۔ بولانڈ سڈنی ٹیسٹ میں گرنے کے بعد پسلیوں کی تکلیف مبتلا ہو گئے تھے۔
اگر وہ زخم کے باعث فٹنس ثابت نہ کر سکے تو رچرڈسن ان کے ممکنہ متبادل ہوں گے۔
ہیرس کو اپنے کیرئیر میں کئی مواقع دیئے گئے لیکن 14 میچوں میں انہوں نے کوئی سنچری نہیں بنائی اور ان کی اوسط صرف 25 رنز سے کچھ زیادہ ہے۔
35 سالہ خواجہ آسٹریلوی ٹیم میں آتے جاتے رہے ہیں لیکن سڈنی میں ان کی دو سنچریوں نے ان کی پانچویں ٹیسٹ میں شمولیت کو یقینی بنا دیا اور اب وہ اوپننگ باری کھیلیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے پانچ ٹیسٹ میچوں میں اوپننگ کی ہے جس میں انہوں نے دو سنچریاں سکور کیں اور ٹٓاپ آڈر پر ان کی اوسط 96.80 رہی۔
مارنس لوبسشین کی بھی اوپننگ کرنے کے بارے میں بات ہوئی تھی لیکن کمنز نے کہا کہ اس کا امکان نہیں ہے۔
کپتان نے خواجہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم عثمان کی اوپننگ سے بہت خوش ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’وہ ایک کلاس پلیئر ہیں جو کسی بھی نمبر پر بیٹنگ کر سکتے ہیں۔ سلیکٹرز کے نقطہ نظر اور میرے نقطہ نظر سے میں نے محسوس کیا کہ وہ ایک سے چھ کے درمیان کہیں بھی بیٹنگ کر سکتے ہیں۔‘
میچ سے 24 گھنٹے پہلے ہوبارٹ کی وکٹ کافی سبز نظر آ رہی تھی اور کمنز نے کہا کہ وہ اس بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ کیسے ثابت ہو گی۔
کمنز نے کہا کہ سیریز کے سب سے خوش کن پہلوؤں میں سے ایک یہ ہے کہ آسٹریلیا کو اس میں 0-3 کی فیصلہ کن کی برتری حاصل ہے اور یہ کہ ٹیم ایک یا دو کھلاڑیوں پر انحصار نہیں کر رہی تھی اور نئے آنے والے کھلاڑی آگے بڑھ رہے ہیں۔
’یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہمیں تین یا چار کھلاڑیوں پر انحصار کرنے کی ضرورت نہیں ہے، ٹیم یا سکواڈ میں کوئی بھی شخص میچ ونر ہو سکتا ہے۔‘