ایشز سیریز کا نام کیسے پڑا اور یہ ’راکھ‘ کی کیا کہانی ہے؟

کیا جلی ہوئی لکڑی کی بچی ہوئی راکھ بھی بھلا کسی کرکٹ سیریز کا نام ہوسکتی ہے؟ شاید نہیں! لیکن اصل میں ایسا ہی ہے۔

پانچ  دسمبر 2021 کو برسبین کے گابا  سٹیڈیم میں  ایشز ٹیسٹ  سیریز کے افتتاحی میچ سے پہلے ایشز ٹرافی کی رونمائی (فوٹو: اے ایف  پی)

کرکٹ میں جتنی قدامت پرستی اور روایات کی پاسداری ہے اتنی کسی کھیل میں نظر نہیں آتی۔ کرکٹ کے جو بنیادی قوانین 150 سال قبل بنائے گئے وہ آج بھی چند ایک تبدیلیوں کے ساتھ اسی طرح موجود ہیں اور ان میں ٹیکنالوجی کی مدد سے نکھار تو آیا ہے لیکن تبدیلی نہیں۔

کرکٹ کا سب سے روایتی اور قدیمی مقابلہ ایشز سیریز ہے جو ہر دو سال بعد انگلینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان کھیلا جاتا ہے۔ اس سیریز میں دونوں ممالک کے درمیان پانچ ٹیسٹ کھیلے جاتے ہیں جو ایک جنگ کی کیفیت پر مبنی ہوتے ہیں۔ دونوں ٹیموں کے مداح ان میچوں میں ایک دوسرے پر گراؤنڈ سے باہر بھی حملے کرتے رہتے ہیں جس سے گراؤنڈ سے باہر میڈیا بھی ایک سیریز کھیل رہا ہوتا ہے۔

اس سیریز کو ایشز کا نام کیوں دیا گیا؟

کیا جلی ہوئی لکڑی کی بچی ہوئی راکھ بھی بھلا کسی کرکٹ سیریز کا نام ہو سکتی ہے؟ شاید نہیں! لیکن اصل میں ایسا ہی ہے۔ وہ راکھ جس کا کوئی استعمال ہے اور نہ مستقبل، وہ سو سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی کرکٹ کا سب سے بڑا عنوان ہے۔

کرکٹ کی باقاعدہ ابتدا تو 1877 میں میلبرن میں آسٹریلیا اور انگلینڈ کے درمیان ٹیسٹ سیریز سے ہوئی لیکن 1880 میں انگلینڈ نے جب اوول میں آسٹریلیا کو شکست دی تو کرکٹ کا کھیل انگلینڈ میں مشہور ہو گیا۔

اوول کی شکست کے بعد انگلش مداحوں نے تصور کر لیا کہ انگلینڈ کی ٹیم ناقابل تسخیر ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سر ڈبلیو جی گریس جیسے شہرہ آفاق کھلاڑی ٹیم کا حصہ تھے۔

1882 میں آسٹریلیا نے جب انگلینڈ کا دوسرا دورہ کیا تو اوول میں 29 اگست کو دوبارہ ٹیسٹ کھیلا گیا۔ انگلش تماشائیوں نے یقین کر لیا تھا کہ وہ جیت جائیں گے لیکن انگلینڈ کی ٹیم، ٹیسٹ کے آخری دن جب 85 رنز درکار تھے اور سات وکٹیں باقی تھیں، سوکھے پتوں کی طرح بکھر گئی اور آخری وکٹ جب گری تو صرف دس رنز باقی تھے۔ اس شکست پر انگلینڈ میں صف ماتم بچھ گئی۔

برطانوی شائقین کو اس ہار کا اتنا صدمہ ہوا کہ انہوں نے میدان میں ہی اپنے غم و غصے کا اظہار شروع کر دیا۔ برطانوی اخبارات میں اس شکست کو ’انگلش کرکٹ ٹیم کی موت‘ سے تشبیہہ دیتے ہوئے نم ناک آرٹیکل لکھے گئے۔

 دو ستمبر کو لندن کے ایک اخبار ’دی سپورٹنگ ٹائمز‘ نے تو پورا تعزیت نامہ ہی لکھ دیا جس میں لکھا گیا کہ ’انگلش کرکٹ کی یاد میں، جس کی 29 اگست کو اوول کے میدان میں موت واقع ہو گئی اور اس کی میت کو آگ لگا کر راکھ آسٹریلیا لے جایا جائے گا۔‘ اس تعزیت نامہ نے تو آگ ہی لگا دی اور لوگوں نے لفظ راکھ کو عنوان بنا لیا۔

اس شکست کے تین ہفتے بعد انگلش ٹیم نے ایو بلائی کی قیادت میں آسٹریلیا کا اس عزم کے ساتھ جوابی دورہ کیا کہ وہ اپنی حریف ٹیم کو شکست دے کر انگلش کرکٹ کی  راکھ کو واپس اپنے وطن لے کر آئے گی۔

برطانوی اخبارات میں شائع ہونے والی ’تعزیتی خبریں‘ آسٹریلوی شہریوں کی نظروں سے بھی گزریں۔ انگلش ٹیم 11 نومبر 1882کو آسٹریلیا کے دورے پر پہنچی، جہاں اس نے تین ٹیسٹ میچ کھیلے جن میں سے دو ٹیسٹ مہمان ٹیم نے جیت لیے جن میں سڈنی کا آخری ٹیسٹ بھی شامل تھا۔

سڈنی ٹیسٹ کے اختتام پر تین خواتین جن میں میلبرن کرکٹ کلب کے صدر سر ولیم کلارک کی اہلیہ، ان کی میوزک ٹیچر فلورنس مرفی اور جینٹ شامل تھیں، سڈنی سٹیڈیم میں داخل ہوئیں اور انہوں نے وکٹوں پر رکھی ہوئی بیلز (Bails) نذر آتش کرنے کے بعد ان کی راکھ اٹھا کر ایک گلدان میں محفوظ کر لی۔

 

سیریز کے اختتام کے بعد ایسٹر کے تہوار کے موقع پر میلبرن کرکٹ کلب کی ایک تقریب میں فلورنس مرفی نے انگلش ٹیم کے کپتان ایو بلائی کو چھ انچ اونچی گل دان نما ٹرافی پیش کی، جس کے بارے میں مہمانوں کو بتایا گیا کہ اس میں شکست خوردہ آسٹریلوی ٹیم کی میت کی راکھ محفوظ کی گئی ہے، جو انگلش ٹیم کو ’وننگ ٹرافی‘ کی صورت میں پیش کی جا رہی ہے۔ اس گلدان کو انگلش کپتان نے وطن پہنچ کر اپنے آبائی گھر میں سجا دیا۔

اس راکھ کے پیش کرنے کا سب سے دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ انگلش کپتان آئیو بلائی جب 1884 میں دوبارہ آسٹریلیا کے دورے پر گئے تو فلورنس سے شادی کرلی۔

یہ ایشز ٹرافی 1927 تک ان کے گھر میں رہی تاہم 1929 میں بلائی  کی وفات کے بعد ان کی بیوہ فلورنس نے مذکورہ ٹرافی ایم سیسی کو دے دی جو آج بھی لارڈز گراؤنڈ کے میوزیم میں محفوظ ہے۔

کیا ٹرافی میں واقعی بیلز کی راکھ ہے؟

یہ ایک ایسا معمہ ہے جس کی حقیقت کسی کو نہیں پتہ تاہم بلائی کی ایک عزیزہ نے دعویٰ کیا تھا کہ اس گلدان میں بیلز کی راکھ نہیں بلکہ فلورنس کے ہیڈ سکارف کی راکھ ہے۔ وہ بلائی میں دلچسپی رکھتی تھیں اور ان سے قریب ہونے کے لیے یہ راکھ کا گلدان پیش کیا تھا اور ان کا مقصد پورا ہوگیا تھا جو شادی پر اختتام پذیر ہوا۔

ایشز کا باقاعدہ آغاز

1882 کی ٹیسٹ سیریز نے کرکٹ کے دو روایتی حریفوں کے درمیان ایک ایسی جنگ کا آغاز کردیا جس میں ہتھیار گیند اور بلا ہوتا ہے۔ اس سیریز میں ایک سے سات ٹیسٹ میچ کھیلے جاتے رہے ہیں تاہم 1998 میں اس سیریز کو پانچ میچوں تک محدود کردیا گیا اور دونوں ممالک دوسال کے وقفے سے ایک دوسرے کے ملک میں پانچ ٹیسٹ میچوں پر مبنی سیریز کھیلتے ہیں۔

ایشز سیریز میں اب تک 71 سیریز کھیلی جاچکی ہیں جن میں آسٹریلیا نے 33 اور انگلینڈ نے 32 جیتی ہیں جبکہ چھ سیریز ڈرا ہوچکی ہیں۔

ایشز کی ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر سیریز ڈرا ہوجائے تو ٹرافی گذشتہ سیریز جیتنے والے کو دے دی جاتی ہے۔

ایشز میں اب تک سب سے زیادہ رنز بنانے کا اعزاز سر ڈان بریڈ مین کے نام ہے، جنہوں نے 5028 رنز بنائے ہیں جبکہ شین وارن 195 وکٹوں کے ساتھ سرفہرست ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگر موجودہ ٹیم کی بات کی جائے تو سٹیو سمتھ 2800 رنز بناچکے ہیں جبکہ کرس براڈ 118 وکٹ لے چکے ہیں۔

ایشز میں ٹیم کا مجموعی سکور کا ریکارڈ 903 رنز ہے، جو انگلینڈ نے 1938 میں اوول میں بنایا تھا جبکہ کم سے کم سکور آسٹریلیا کا 36 رنز ہے جو اس نے 1902 میں برمنگھم میں بنایا۔

موجودہ ایشز سیریز کا آغاز آٹھ دسمبر سے برسبین میں ہورہا ہے جس میں انگلینڈ کی قیادت جو روٹ کر رہے ہیں جبکہ آسٹریلوی قائد پیٹ کمنز ہیں۔آسٹریلیا کے ریگولر کپتان ٹم پین کو ایک جنسی سکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد مستعفی ہونا پڑا تھا، جس سے ٹیم کو دھچکا لگا ہے، تاہم سٹیو سمتھ اور ڈیوڈ وارنر کیویز کی طاقت بڑھانے کو موجود ہیں۔

انگلینڈ کی ٹیم کو پہلے ٹیسٹ میں مایہ ناز بولرز جمی اینڈرسن اور کرس براڈ کی خدمات حاصل نہیں ہیں، جس سے بولنگ کمزور نظر آتی ہے۔ انگلینڈ کی بیٹنگ کا زیادہ تر بوجھ جو روٹ کے سر ہوگا، جو بھارت کے خلاف چند مہینوں قبل بہت اچھی بیٹنگ کرچکے ہیں۔

جب تک یہ تحریر آپ پڑھ رہے ہوں گے، برسبین کے پہلے دن کا کھیل مکمل ہو چکا ہوگا اور دنیا کی سب سے تیز پچ پر ٹاس جیت کر پہلےبیٹنگ کرنے کا فیصلہ انگلینڈ کو مہنگا بھی پڑ سکتا ہے۔

ایشز کی تاریخ اور اس کے ساتھ جڑے ہوئے واقعات پر اگر نظر ڈالیں تو کرکٹ کا میدان جنگ وجدال کا منظر پیش کرتا نظر آتا ہے اور جتنی کڑوی کسیلی باتیں ایشز کے دوران میڈیا میں ہوتی ہیں، اتنی میدان میں بھی نظر نہیں آتیں، لیکن ان سب کے ساتھ ایشز سیریز کرکٹ کا وہ روپ ہے جس کے بغیر کرکٹ کی تاریخ نہ مکمل ہوسکتی ہے اور نہ اس میں رنگ بھرا جاسکتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ