آسٹریلوی ویزا منسوخ ہونے پر جوکووچ دوبارہ زیر حراست

جوکووچ کو ہفتے کو وفاقی عدالت کی ہنگامی سماعتوں سے قبل میلبرن میں امیگریشن حکام کے سامنے پیش ہونے کے لیے طلب کیا گیا تھا۔

عدالتی دستاویزات کے مطابق 34 سالہ سربین کھلاڑی کو ہفتے کے روز میلبرن سے حراست میں لیا گیا ہے جب کہ ان کی ملک بدری کے خلاف اپیل زیر سماعت ہے(اے ایف پی فائل)

کرونا ویکسین کے سخت قانون کے تحت ویزا منسوخ ہونے کے بعد ٹینس کے عالمی نمبر ایک کھلاڑی نواک جوکووچ کو آسٹریلیا میں ایک بار پھر حراست میں لے لیا گیا ہے۔

عدالتی دستاویزات کے مطابق 34 سالہ سربین کھلاڑی کو ہفتے کے روز میلبرن سے حراست میں لیا گیا ہے جبکہ ان کی ملک بدری کے خلاف اپیل زیر سماعت ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب آسٹریلین اوپن شروع ہونے میں صرف دو دن باقی ہیں اور نو بار یہ ٹائٹل جیتنے والے دفاعی چیمپیئن کی توجہ ٹینس کورٹ کی بجائے ایک بار پھر قانونی جنگ پر مرکوز ہو گئی ہے۔

آسٹریلیا کے امیگریشن کے وزیر الیکس ہاک نے اب دعویٰ کیا ہے کہ ملک میں جوکووچ کی مسلسل موجودگی ’ویکسینیشن مہم کے خلاف جذبات کو فروغ اور شہریوں کے درمیان بدامنی میں اضافے کا باعث سکتی ہے۔‘

جوکووچ کو ہفتے اور اتوار کو وفاقی عدالت کی ہنگامی سماعتوں سے قبل میلبرن میں امیگریشن حکام کے سامنے پیش ہونے کے لیے طلب کیا گیا تھا۔

انہیں میلبرن کے ایک مقام سے دو آسٹریلوی بارڈر فورس کے افسران کی نگرانی میں عدالتی کارروائی کی پیروی کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

یہ آسٹریلیا کی قدامت پسند حکومت کی جانب سے جوکووچ کو ملک بدر کرنے کی دوسری کوشش ہے۔

عالمی سطح پر سرخیوں میں رہنے والا یہ تنازع اس ماہ کے آغاز پر اس وقت سامنے آیا جب جوکووچ نے اپنا ریکارڈ 21 واں گرینڈ سلیم ٹائٹل اپنے نام کرنے کی امید میں آسٹریلیا میں داخل ہونے کے لیے کرونا ویکسین سے استثنیٰ کا مطالبہ کیا تھا۔

طویل لاک ڈاؤن اور سرحدی پابندیوں کا سامنا کرنے والے بہت سے آسٹریلوی شہریوں کا خیال ہے کہ جوکووچ نے ملک میں داخلے کے لیے کرونا ویکسین کے قواعد کو دھوکا دینے کی کوشش کی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن حکومت کو اس وقت دھچکہ لگا جب ایک عدالت نے جوکووچ کا ویزا بحال کر دیا اور انہیں ملک میں رہنے کی اجازت دے دی۔

اس بار حکومت نے اس صورت حال کو صحت عامہ اور عوامی تحفظ کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے اپنے غیر معمولی انتظامی اختیارات کو استعمال کیا ہے۔

حکومت کا استدلال ہے کہ جوکووچ کی موجودگی صحت عامہ اور نظم و نسق کے لیے خطرہ ہے خاص طور پر اس وقت جب آسٹریلیا اومیکرون وائرس کی نئی لہر کا شکار ہے۔

امیگریشن کے وزیر ہاک نے تو یہاں تک کہہ ڈالا کہ ملک میں ان کی مسلسل موجودگی ’آسٹریلوی کمیونٹی کے لیے صحت کے خطرے کا باعث بن سکتی ہے۔‘

ایک بیان میں ہاک نے کہا کہ ’حکومت آسٹریلیا کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے پرعزم ہے خاص طور پر کووڈ 19 وبا کے تناظر میں۔‘

دوسری جانب جوکووچ کے وکلا کا کہنا ہے کہ حکومت نے ان دعووں کی حمایت کے لیے ’کوئی ثبوت نہیں دیا۔‘

ادھر آسٹریلوی کھلاڑی ایلکس ڈی مینور نے ہفتے کو کہا ہے کہ ’آسٹریلین اوپن میں شرکت کرنے والے تمام کھلاڑی سال کے پہلے گرینڈ سلیم پر چھائے ہوئے اس تنازعے سے تنگ آ گئے ہیں۔‘

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق 32 ویں سیڈ ایلکس ڈی مینور نے میلبورن پارک میں صحافیوں کو بتایا: ’میں سمجھتا ہوں کہ اس ساری صورتحال نے کھلاڑیوں کی توجہ کھیل سے ہٹا دی ہے۔ ہم یہاں آسٹریلین اوپن کھیلنے کے لیے آئے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ صورت حال ہم سے ان حریفوں کو چھین رہی ہے جو صرف مقابلے کی شروعات کرنا چاہتے ہیں۔ ہم مقابلہ کرنے کے لیے بے تاب ہیں۔ آسٹریلین اوپن ہمیشہ ایک شاندار ایونٹ ہوتا ہے۔ میرے ملک میں ہونے والا یہ میرا پسندیدہ ٹورنامنٹ ہے۔‘

ڈی مینور نے جوکووچ پر تنقید میں اپنی آواز شامل کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ویکسین نہ لینے کا فیصلہ عام آسٹریلوی شہریوں کے لیے بنائے گئے قواعد سے متصادم تھا۔

انہوں نے کہا: ’سچ کہوں تو میں یہ سب کچھ پیچھے چھوڑنے اور اپنے ٹینس میچ کھیلنے پر توجہ دینے کے لیے تیار ہوں۔ مجھے صرف ٹینس کی بات کرنے دیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹینس