پہلی مرتبہ نیشنل آئس ہاکی چیمپیئن شپ میں خواتین بھی شریک

گلگت بلتستان کے علاقے ہنزہ میں جاری قومی سطح کے ان مقابلوں میں شامل کُل چار ٹیموں کی 50 طالبات کا تعلق ہنزہ اور چترال سے ہے۔

ہنزہ میں ایک فرنچائز کی جانب سے گذشتہ  برس منعقد کیے گئے آئس ہاکی مقابلے کا ایک منظر (تصویر:  آصف مراد)

پاکستان میں 2016 میں متعارف ہونے والے آئس ہاکی کے منفرد اور دلچسپ مقابلوں میں پہلی مرتبہ خواتین کھلاڑی بھی حصہ لے رہی ہیں، جو سکیٹس جوتوں کے ساتھ آئس شیٹ پر ہاکی میں اپنی مہارت کے جوہر دکھائیں گی۔

آئس ہاکی نیشنل چیمپیئن شپ کے ان مقابلوں کا آغاز آج بروز پیر (17 جنوری) سے گلگت بلتستان کے علاقے ہنزہ سے ہوگیا ہے، جو 23 جنوری تک جاری رہیں گے۔

قومی سطح کے ان مقابلوں میں شامل کُل چار ٹیموں کی 50 طالبات کا تعلق ہنزہ اور چترال سے ہے، جو آئس ہاکی میں توازن اور مہارت حاصل کرنے کے لیے گذشتہ دو سال سے تربیت حاصل کرتی آرہی ہیں۔

نیشنل آئس ہاکی چیمپئین شپ کو پاکستان سپورٹس بورڈ کا مالی تعاون حاصل ہے جبکہ مقامی سطح پر نجی اداروں غلکن ونٹر کلب (جی ڈبلیو سی)، بُونی انوائرنمنٹل کلب (بی ای سی ) اور  سرکاری ادارےگلگت بلتستان رورل سپورٹ پروگرام (جی بی آر ایس پی) کی سرپرستی حاصل ہے۔

گلگت کے رہائشی اور جی ڈبلیو سی کے بانی قادر کریم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’آئس ہاکی پاکستان میں ایئرفورس اور آرمی کی کوششوں سے ممکن ہوا ہے۔ علاوہ ازیں سکی فیڈریشن آف پاکستان کے سیکرٹری جنرل ایئرکموڈور شاہد ندیم نے بھی اس کے لیے بہت بڑی جدوجہد کی ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ 2016 میں آئس ہاکی متعارف ہونے کے بعد چار سال کھلاڑیوں کو تربیت دینے میں لگ گئے جس میں سب سے پہلے مرد کھلاڑیوں کو میدان میں اتارا گیا۔

بقول قادر کریم: ’ایسا رسک فیکٹر کی وجہ سے کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مرد کھلاڑیوں کا تیسرا اور خواتین کا قومی سطح پر پہلا مقابلہ ہے۔ اگر خواتین نے اس میں اچھی کارکردگی اور مستقل مزاجی دکھائی تو ان کے اولمپکس میں شامل ہونے کے امکانات کافی روشن ہیں۔‘

ہنزہ کے علاقے غلکن میں منعقد ہونے والے آئس ہاکی کے مقابلوں میں چترال کی 13 طالبات بھی شامل ہیں، جو خراب موسم کے باوجود خطرناک پہاڑی راستوں پر کئی گھنٹوں کی مسافت طے کرکے خود کو کھیلوں کے میدان میں منوانے کا عزم لے کر آئی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان ہی میں شامل چترال کے علاقے بالیم لاس پور سے تعلق رکھنے والی سیکنڈ ایئر کی طالبہ فریحہ ظاہر بھی ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ براستہ شندور گلگت آئی ہیں اور 13 خواتین و کوچ سمیت 13 مرد کھلاڑی بھی ان کے ہمراہ تھے۔

انہوں نے بتایا: ’شندرو کا راستہ بہت خطرناک ہے۔ جگہ جگہ گاڑی پھسل رہی تھی۔ لینڈ سلائیڈنگ کا بھی خدشہ تھا۔ ایک جگہ راستہ برف سے ڈھکا ہوا اور بند تھا، جسے مرد کھلاڑیوں نے خود اتر کر صاف کیا۔ شندور چیک پوسٹ پر پولیس اجازت بھی نہیں دے رہی تھی۔ ایک جگہ جیپ خراب ہوئی۔ بعض لڑکیوں کی ٹھنڈ اور راستے کی مشکلات کی وجہ سے طبیعت بھی خراب ہوئی۔‘

فریحہ نے بتایا کہ آئس ہاکی میں رہنمائی ملنے کے بعد ان کی اس کھیل میں دلچسپی مزید بڑھ گئی ہے اور اسی وجہ سے اب خواتین کھلاڑیوں کی امید بندھ گئی ہے کہ اگر انہیں اسی طرح مواقع ملتے رہے تو وہ بین الاقوامی سطح پر بھی اس کھیل میں نام پیدا کر سکتی ہیں۔

فریحہ کے مطابق مقابلے شروع ہونے سے پہلے انہوں نے ہنزہ میں ایک آزمائشی میچ بھی کھیلا، جس میں غلطیوں کو دور کرنے اور کامیاب حکمت عملی اختیار کرنے کی مشق کا موقع ملا۔

چترال کی ایک اور کھلاڑی کہکشاں نے بتایا کہ والدین کی اجازت حاصل کرنے کے بعد ان کی اکیڈمی اور تعاون کرنے والے دوسرے متعلقہ اداروں کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے ان کا عزم مزید پختہ ہوگیا ہے، تاہم انہوں نے بتایا: ’ساتھ ہی ساتھ یہ پریشانی بھی ہے کہ اب تو اس کھیل میں کچھ کرکے دکھانا ہے، اس لیے جوش و جذبے کے ساتھ ساتھ تھوڑی گھبراہٹ بھی ہے۔‘

بی ای سی چترال کے فوکل پرسن اور کوچ آصف مراد جو کہ نہ صرف اپنی مدد آپ کے تحت کھلاڑیوں کی تربیت کرواتے ہیں، بلکہ کھیلوں میں استعمال ہونے والے سازوسامان سمیت سفر اور قیام وطعام کا خرچ بھی اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں، نے بتایا کہ اس سال مری میں ہونے والی ہلاکتوں کے واقعے کی وجہ سے کھلاڑیوں کے والدین سے براستہ شندور گلگت جانے کی اجازت حاصل کرنا بہت مشکل ہوگیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ آئس ہاکی کی تربیت کے لیے ماہرین کو وہ ہنزہ سے بلاتے رہے ہیں، تاہم شدید برف باری کی وجہ سے وہ زیادہ دیر چترال میں نہیں رک سکے تھے اور اسی وجہ سے کھلاڑیوں کو بھی ان سے استفادہ حاصل کرنے کا زیادہ موقع نہیں ملا۔

کچھ آئس ہاکی کے بارے میں

آئس ہاکی کے میدان کو ’رِنک‘ کہا جاتا ہے، جو کہ میکنیکل طور پر ریفریجریٹڈ ہوتا ہے۔

اس کھیل کا آغاز یورپ اور کینیڈا میں انیسویں صدی سے ہو گیا تھا، یہی وجہ ہے کہ اسے کینیڈا کا قومی کھیل بھی کہا جاتا ہے۔

موجودہ پیشہ ورانہ آئس ہاکی کے قوانین وضوابط انیسویں صدی میں بنے تھے، جس کے بعد یہ ایک منظم سرمائی اولمپک کھیل کی شکل اختیار کرگیا۔

اس کھیل میں آئس سکیٹس پہنے دو مخالف ٹیمیں لاٹھیوں کا استعمال کرکے گیند مخالف جال میں پھینکنے کی کوشش کرتی ہیں۔ دونوں جانب سے ٹیم میں چھ کھلاڑی اور مجموعی طور پر گول کیپر سمیت 12 کھلاڑی ہوتے ہیں۔

اس کھیل میں کھلاڑیوں کا ایک جگہ زیادہ دیر کے لیے جمع ہوجانا ’فاؤل‘ تصور ہوتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل