خواتین کھلاڑی آخر جائیں تو جائیں کہاں؟

پاکستان میں خواتین کو کھیل کے مواقع فراہم کرنے کے لیے سہولیات تو قائم کر دی گئی ہیں لیکن سماجی رویے آئے دن ان کے بلند عزائم میں رکاوٹ بنتے ہیں۔

’ٹی وی چینل اور اخباروں میں جب بھی کسی خاتون کھلاڑی کا ذکر آتا تھا تو میرے دل میں بھی حسرت اٹھتی تھی کہ کاش کسی دن میرا نام بھی اس طرح لے لیا جائے، میں بھی کھیل کی دنیا میں اپنا نام پیدا کروں اور لوگ مجھ سے بھی کہیں، ’آٹوگراف پلیز‘۔

سپورٹس کمپلکس پشاور میں مہوش اپنی کہانی بیان کر رہی تھیں اور ان کی دیگر سہیلیاں خاموشی سے سن رہی تھیں۔ مہوش کہتی ہیں کہ سپورٹس کمپلکس تک آنا اپنے آپ میں ایک کہانی ہے۔ پہلے والدین اجازت نہیں دیتے۔ ان کو منانے کے بعد ’ہمیں راستے کی صعوبتوں سے گزرنا پڑتا ہے اور جب کمپلیکس پہنچ جاتے ہیں تو یہاں الگ مسائل ہوتے ہیں۔‘

اتنی محنت کرنے، معاشرے سے لڑنے کے بعد بھی ایسا کیوں ہے کہ یہ خواتین کھلاڑی نہ تو زیادہ نام پیدا کر پاتی ہیں اور نہ ہی اپنے خواب پورے کر سکتی ہیں؟

وہاں موجود خواتین کھلاڑی کہتی ہیں کہ پشاور کے سپورٹس کمپلیکس میں خواتین کو برابر کے مواقع نہیں ملتے اور زیادہ توجہ مرد کھلاڑیوں پر ہوتی ہے، ایسے میں ٹیلنٹ ہونے کے باوجود وہ کیسے اس مقام پر پہنچ سکتی ہیں جس کے لیے وہ باہر نکلنے کا بڑا فیصلہ لیتی ہیں۔

پشاور سپورٹس کمپلیکس میں صرف بیڈمنٹن کے کھیل کو ہی دیکھا جائے تو وہاں مردوں کے لیے چار کورٹس اور خواتین کے صرف ایک کورٹ مختص کیا گیا ہے اور وہ بھی محدود وقت کے لیے جس کے بعد ان خواتین کھلاڑیوں کا دعویٰ ہے کہ وہاں بھی مرد کھلاڑی ہی کھیلنے آجاتے ہیں۔

مہوش کہتی ہیں کہ ’ان دو گھنٹوں میں کون پلیئر بن سکتا ہے۔ ایک لڑکی دو گھنٹوں میں پلیئر بن سکتی ہے؟‘

انھوں نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ ’یہ حکومت جو نعرے لگاتی ہے کہ خواتین کو آگے لے کر جائیں گے۔ کس طرح لے کر جائیں گے؟ یہ ان دو، تین گھنٹوں سے آگے لے کر جائیں گے۔ یا پھر بوائز کے بل بوتے پر ہی ہم آگے جائیں گے۔‘

کچھ خواتین نے ہراساں کیے جانے کا بھی الزام لگایا۔ ان کا کہنا تھا کہ انھیں ’کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ کلاس فور کے ملازمین، جو سپورٹس کمپلیکس میں مختلف فرائض پر مامور ہوتے ہیں، کی جانب سے بھی ہراساں کیا جاتا ہے۔‘ 

ایک اور خاتون کھلاڑی نورین نے بتایا کہ سپورٹس کمپلیکس حیات آباد میں کھیلوں کا داخلہ لینے کے لیے فارم یہی ملازمین دیتے ہیں۔ جو ’فارم میں خواتین کو ان کا نمبر لکھنے پر اصرار کرتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ کلاس فور ملازمین ہی سپورٹس کمپلیکس کے کرتا دھرتا ہیں۔ جب کوئی خاتون ان کو نظر انداز کرتی ہے تو کبھی کورٹ میں پنکھا بند کرتے ہیں تو کبھی بلب اور کبھی ان کے کورٹ میں مردوں کو لاکر انہیں کھیلنے ہی نہیں دیا جاتا۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’جب کوئی خاتون کہتی ہے کہ ٹھیک ہے میں ان مردوں کے درمیان ہی کھیلوں گی تو یہ مشہور کر دیتے ہیں کہ یہ لڑکی خراب ہے اور سپورٹس کمپلکس کا ماحول خراب کر رہی ہے۔‘

خیبر پختونخوا کی خواتین میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے اور انہوں نے تقریباً ہر کھیل میں ہی قومی اور بین الاقوامی سطح پر اپنا لوہا منوایا ہے۔

گو کہ وقت کے ساتھ ساتھ خواتین کے لیے ماضی کے مقابلے میں سہولتیں بڑھ  تو رہی ہیں لیکن وہ مردوں کے مقابلے میں اب بھی بہت کم ہیں۔ اس کے علاوہ اس بات پر بھی کم توجہ دی جا رہی ہے کہ ان کمپلیکس میں ایسا شفاف ماحول بنایا جائے کہ خواتین خود کو محفوظ سمجھیں اور وہ اپنی توانائی کھیلوں پر صرف کریں نا کہ ہر وقت کھیلوں کی جگہوں پر موجود منفی رویوں پر۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین